تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     23-11-2015

واپڈا ،گیس اور جمہوریت کی خوبصورتی

پاکستانی برانڈ جمہوریت کے حُسن کی خیر! اس کے لشکارے ہر روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تازہ ترین کی بات کر لینے میںکوئی حرج نہیں۔
محکمہ گیس کے انچارج ہوائی وزیر نے اعلان کیا ہے کہ سردیاں شروع ہوتے ہی رات 10بجے سے صبح 10بجے تک گھریلو صارفین کو جمہوری حکومت گیس کی سپلائی بند کر دے گی۔ اس سے پہلے صنعتی صارفین کو بھی ایسی ہی''خوبصورت‘‘خوشخبری سنائی جا چکی ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ دیہات میں اس قدر مقبول ہے کہ اگر کہیں لوڈ شیڈنگ کے دوران بجلی آ جائے تو لوگ حیران ہو جاتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے ریلوے کے وزیرکو دیکھ کر، جس کے پاس دھاندلی نہ کرنے کی تقریروںکے بعد جو وقت بچتا ہے وہ ریلوے حادثات میں مارے جانے والے شہریوںکی قیمت چکانے میں صرف ہوتا ہے۔ رہی ریلوے تو وہ آج کل گڈ گورننس کے عروج پر ہے۔ جس کو یقین نہ آئے وہ محکمہ ریلوے کے سرکاری سیکرٹری سے پوچھ لے۔ اگر پھر بھی تسلی نہ ہو تو محکمہ ریلوے کے ڈبل یعنی غیر سرکاری سیکرٹری کی تیار کردہ میٹھی گولیاں آز مائے۔
پاکستان میںجمہوریت کا حسن بالکل ڈینگی لاروا کی طرح ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ وزارتِ نہ بجلی نہ پانی کی کار گزاریاں بھی لاکھوں میںایک کہلانے کے قابل ہیں۔ دنیا کے کسی برِاعظم یا ملک میں شاید ہی کہیں سے اس کارکردگی کی مثال ڈھونڈی جاسکے۔ اس لاجواب محکمے کے بے مثال قائدین کے حسنِ کمال کی چند مثالیں یوں ہیں:
پہلی مثال۔۔۔۔ دنیا میں بجلی مہنگی بھی ملتی ہے اور سستی بھی، لیکن ایسا ہمارے ملک کے علاوہ کہیں نہیں ہوتا کہ بجلی کا میٹر دیکھے بغیر بل بنایا جا سکے۔ اسے جمہوریت کا حسن نہیں تو اور کیا کہا جائے کہ وزارتِ نہ بجلی نہ پانی آن ریکارڈ اقبالِ جرم کر چکی ہے کہ ہم عوام کوبِل میٹر ریڈنگ کے بغیر بھیجتے ہیں، پھر پوری دیدہ دلیری سے یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ ہمارے ملک کے برقیاتی میٹر ویسے بھی اپنی مرضی کی ریڈنگ کرتے ہیں۔ جمہوریت کے اس حسین طرزِ عمل کے نتیجے میں بے شمار بے روزگار انسان اور خدا کی بستی یعنی قبرستان، اسی طرح کے بھاری بھرکم کے بِلوں سے فیض یاب ہوئے جس کے نتیجے میں بے چارے موت کے مارے مردے تو تھے ہی درگور، لیکن جیتے جاگتے کئی انسانوں کو خود کشی کرنا پڑی۔
دوسری مثال بھی اپنی مثال آپ ہے، اور وہ یہ کہ ہر قسم کے انفرادی،اجتماعی،گھریلو،کمرشل،انڈسٹریل،دوستانہ، برادرانہ بجلی چوروںکی چوری کی رقم کو ان لوگوں کے بِلوں میں شامل کیا جاتا ہے جو کبھی چوری نہیں کرتے، بلکہ ذمہ دار شہری کی حیثیت سے بجلی کابِل باقاعدہ ادا کرتے ہیں۔
تیسری مثال بجلی کے ایسے پراجیکٹ ہیں جو سیاست کاروں، ان کے فرنٹ مینوں یا سرپرست حکمرانوں نے لگوائے ہیں۔ یہ بجلی گھر نہ چلنے کے لیے ہی لگائے گئے تھے۔ ان کے نہ چلنے کا بِل گردشی قرضہ کہلاتا ہے اور یہ قرضہ موجودہ حکومت کا حسنِ کمال ہے۔ اس فرضی قرضے کا ایک ایک پیسہ وزیراعظم کے سمدھی نے پوری تاجرانہ دیانتداری سے عوام کی جیبوں سے وصول کیا۔ اسی گردشی قرضے کے پیشِ نظر توانائی کے شعبے میں ہزاروں میل لمبا کشکول گلے میں ڈال کر حکومت ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں ''دے بجلی کے نام پر۔۔۔۔کھمبا تمہارا بھلا کرے گا‘‘ کہہ کر ہر روز ہردروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔ اس کے باوجود نہ ہی جمہوریت کا قرضے والا حسن ماند پڑتا ہے اور نہ ہی قرضے پر پلنے والوں کے دل میں کثرت ِمال کی خواہش مرتی ہے۔
پچھلے دنوں مجھے ایک بہت بڑے انویسٹر نے ایک صاحب کا نام لے کر کہا کہ ان کا جو کچھ میرے ذریعے بنا ہے وہ موصوف کے لیے اور ان کی نسلوں کے لیے آئندہ 500 سال تک کافی ہے۔ اس کے باوجود بھی کثرت ِمال کی خواہش کا حسن کسی طور پر ماند پڑنے کے لیے تیار نہیں۔ آخری الہامی کتاب قرآن حکیم میں مالکِ ارض و سما نے ایسی بے لگام خواہش رکھنے والوںکو یوں وارننگ دی اور ارشاد فرمایا: ''کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کیا، یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے‘‘۔ (آیات نمبر1 تا 2 سورۃ التکاثر)۔
چوتھی مثال۔۔۔۔ یہ دنیا کی واحد وزارت ہے جو پارلیمنٹ سے بھی بالاتر ہے۔ اسے اپنے ہی شہریوں سے''جزیہ‘‘ وصول کرنے کے لیے نہ قانون سازی کی احتیاج ہوتی ہے نہ ہی پارلیمنٹ کے کسی ایوان میں بل پیش کرنے کی ضرورت ۔ جب چاہا، جتنا مرضی چاہا،جس نام سے چاہا، ٹیکس اور ڈیوٹی لگا دی۔ حال ہی میں جمہوریت کی اس خوبصورتی کی رفتار کم کرنے کے لیے عدالتوںکو بھی مجبوراً مداخلت کرنا پڑی۔
بات شروع ہوئی تھی محکمہ گیس کی خوبصورتی سے، اس کے حسن کی حد تو یہ ہے کہ اس کے پری جمال کرتا دھرتا قوم کو قطر گیس کے معاہدے کی تفصیلات بتانے کے لیے تیار نہیں۔ آج دنیا وہاں پہنچ چکی ہے جہاں ایران امریکہ ایٹمی معاہدہ اور بھارت یو ایس اے ایٹمی ڈیل کی تفصیلات سے انٹر نیٹ بھرا ہوا ہے۔ ذرا اندازہ کیجیے، وہ کیا وجہ ہے کہ ہماری حسین و جمیل جمہوریت گڈگورننس کے ایک اور شہ پارے کو پردہ دار بنا کر بیٹھ گئی۔ اسی خوبصورتی کا ایک اور تسلسل بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ہے ایل این جی کی خریداری کی قیمت۔ آج کل ساری دنیا ایل این جی خرید رہی ہے۔ اس کے ریٹ کا فارمولا سیدھا سادہ اور صاف شفاف ہے۔ اس کے مطابق خریدار موقع پر جا کر ایل این جی کا ریٹ طے کرتا ہے، پھریہ خرید کر قوم کے پیسے بچا لیتا ہے۔ ہماری خریداری کا حسن یہ ہے کہ ہمیں دو سال سے بتایا جا رہا ہے کہ ہم ایل این جی کا نرخ نہیں بتا سکتے۔ ساتھ دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ اس طرح برادر اسلامی ملک سے تعلقات متاثر ہو جائیں گے۔ پاکستان کے غریب عوام کسی ایسے ملک کو برادر سمجھیںگے اور نہ ہی اسلامی، جو ان کی جیبوں پر پڑنے والی ڈکیتی میں حصہ دار ہو۔
کوئی زمانہ تھا جب کہا جاتا تھا، دن کو فرنگی کا راج ہوتا ہے اور رات کو ملنگی کا۔ آج دن اور رات کا فرق مِٹ چکا ہے۔ اب روز و شب فرنگی دربان راج کرتے ہیں۔ اصلی فرنگی کے دور میں راج گھاٹ کو بچانے کے لیے توپ اور بندوق استعمال ہوتی تھی۔ اب اس کی جگہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور بنیے نے لے لی ہے۔ شاعرِ عوام نے فرنگی کے ان دربانوں کی آمد کی چاپ بہت پہلے سن لی تھی:
فرنگی کا جو میں دربان ہوتا
تو جینا کس قدر آسان ہوتا
میرے بچے بھی امریکہ میں پڑھتے
میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved