آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ ابھی میں سیر کے لیے جانے ہی والا تھا کہ شیشے سے نظر آیا کہ ایک سُرخاب باہر چہل قدمی کر رہا تھا۔ بہت جی چاہا کہ اسے اگر پکڑا جا سکے تو اس کا ایک پر نکال کر اپنی شاعری کو لگا لوں کہ ویسے تو لوگ مانتے نہیں‘ شاید اس طرح کچھ بات بن جائے، اس سے کم از کم یہ تو ہو گا کہ لوگ یہ نہ کہہ سکیں گے کہ اس کی شاعری کو کونسا سُرخاب کا پر لگا ہے!
دوسری اطلاع یہ ہے کہ واک کر کے بیٹھا ہوں تو دیکھا کہ ایک کالی یعنی پوری سیاہ بلی گھاس پر ٹہل رہی ہے۔ کالی بلّی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اگر راستہ کاٹ جائے تو یہ اچھا شگون نہیں ہے اور کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ضرور ہو جاتی ہے حالانکہ یہ آپ کے کالے کرتوتوں کا شاخسانہ بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری عجیب بات یہ ہے کہ ہم نے غور سے دیکھا ہے کہ بلّے کی تو مُونچھیں ہوتی ہیں‘ بلّی بھی مُونچھوں کے بغیر نہیں ہوتی۔ ''گُربہ کشتن روز اوّل‘‘ کی حکمت آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ لوگ بلّیوں کو مارتے کیوں ہیں بلکہ یہ کہ اسے پہلے دن یعنی دیکھتے ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے حالانکہ وہ صرف بلّی چوہے کا کھیل کھیلتی ہے اور عقلمند بھی کافی ہوتی ہے لیکن چوہے بھی کچھ اتنے بیوقوف نہیں ہوتے۔کہتے ہیں کہ ایک بار ایک چوہے نے بل میں سے اپنا سر باہر نکالا تو بلّی نے اسے پانچ روپے کا نوٹ دکھاتے ہوئے کہا ''یہ لے لو اور بل سے باہر نکل آئو‘‘ چوہے نے سوچا کہ فاصلہ تھوڑا اور رقم بہت زیادہ ہے‘ اس لیے اُس نے معذرت کر دی کہ اس میں ضرور کوئی گڑ بڑ ہے!
بلّیاں صرف ہمارے ہاں ہی نہیں بلکہ اہنسا والوں یعنی بھارت میں بھی ماری جاتی ہیں بلکہ نئی دہلی میں تو باقاعدہ ایک کُوچہ بلّی ماراں موجود ہے‘ ہو سکتا ہے جدید شاعر تصنیف حیدر ہماری تصحیح کر دیں کہ یہ بِلّی ماراں نہیں بلکہ بَلّی ماراں ہے۔ وہ ہماری تصحیح اکثر کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً میں نے ایک مضمون میں غالب کی غلطیاں نکالیں تو انہوں نے جواب میں میری غلطیاں نکال دیں۔ اچھا کیا‘ لیکن وہ جو ہر بات میں سند لے آتے ہیں کہ فلاں اُستاد نے بھی ایسا کہہ رکھا ہے تو میں اسے نہیں مانتا کہ سند ایک عُذر لنگ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر زید نے جھک ماری ہے تو اسے اس لیے درست مان لیا جائے کہ ایسی جھک بکرنے بھی مار رکھی ہے۔ غلطی بہرحال غلطی ہے، چاہے اس کا مُرتکب کوئی اُستاد ہی کیوں نہ ہو‘ بلکہ استاد اگر غلطی کرے تو یہ زیادہ افسوسناک بلکہ شرمناک ہے!
ابھی ابھی دو میسج موصول ہوئے ہیں۔ ایک جناب اختر شمار کا ہے۔ لکھتے ہیں‘ محترم جناب!آپ کی یہ بات ذاتی طور پر پسند ہے کہ آپ برداشت کے ساتھ مکالمہ پسند ہیں‘ یار لوگ تو ایک سطر بھی اپنے خلاف لکھنے والے کو عمر بھر معاف نہیں کرتے۔ آپ کی کشادہ دلی کو سلیوٹ !...جلد ملاقات ہو گی...
دوسرا ہمارے مہربان ڈاکٹر ہُما کا ہے۔ لکھتے ہیں کہ میری باتیں چھیڑ خوباں سے چلی جائے، سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتیں۔ آپٍ تو ماشاء اللہ جوان ہیں۔ میں پچھلے دنوں اپنے پوتوں پوتیوں کے ساتھ اپنی سترہویں سالگرہ منا چکا ہوں وغیرہ وغیرہ‘ ساتھ ہی لگے ہاتھوں انہوں نے اپنی ڈگریاں‘ تصنیفات اور اعزازات سے بھی آگاہ کر دیا ہے کہ ایل ایل بی اور ڈاکٹر ہیں۔ تمغۂ امتیاز حاصل کر چکے ہیں۔ شاعر‘ نقاد اور پشتو کتابوں کے مصنف بھی (لہٰذا ذرا سنبھل کر بات کیا کریں)
یہ دونوں میسج جو نقل کئے ہیں تو یقینا یہ خود ستائی ہی کے ضمن میں آئے گا‘ اور میں اپنی تعریف عموماً کرتا رہتا ہوں کیونکہ اگر اور کوئی نہ کرے تو خود آپ کو اس سلسلے میں خِسّت سے کام نہیں لینا چاہیے۔ ایک مقطع شاید حسب حال ہو ع
سب کے ساتھ ظفر بھی اپنا پیپا کُوٹے
لوگ بھی چونکہ میری طرح تساہل پسند ہیں اس لیے چُھٹی والے کالم کے دن مجھے زیادہ فون آتے ہیں کہ ہر کوئی چُھٹی کرنا چاہتا ہے۔ آخر اس قوم کا کیا بنے گا؟ تاہم‘ حکومت نے اس سلسلے میں کُچھ پیشرفت کی ہے اور اس جمود کو توڑنے کے لیے اقبال کے یوم وفات پر چُھٹی منسوخ کر دی ہے۔ لوگ خواہ مخواہ حکومت کی برائیاں کرتے رہتے ہیں لیکن حکومت کی صحت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ تو چلتی ہے اسے اُونچا اڑانے کے لیے...!
کُک رفیق نے بتایا ہے کہ وہ کچھ دنوں کے لئے چُھٹی پر گیا تھا‘ واپسی پر دیکھا کہ ایک پودا جس پر کافی موسمبیاں لگی ہوئی تھیں‘ ایک طرف کی موسمبیاں کوئی توڑ کر لے گیا ہے کہ آنے جانے والوں کا رش لگا رہتا ہے میں نے دیکھا ہے کہ پودے کا جو رُخ سُورج کی طرف ہو‘ وہاں پھل زیادہ لگتا ہے۔ میں ان کی حفاظت اس لیے بھی کرتا ہوں کہ یہ پودے اور پھل دیکھنے میں زیادہ خوش منظر ہیں کہ یہ پھل تو
آدمی بازار سے خرید بھی سکتا ہے‘ پیسوں سے ایسا نظارہ تو دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اس سے یاد آیا کہ ناشتے کے ساتھ ایک گلاس موسمبی کے جوس کا بھی لیتا ہوں۔ یہ بات پہلے اس لیے نہیں بتائی تھی کہ آفتاب نے سختی سے منع کر رکھا ہے‘ بلکہ کُک سے کہہ رکھا ہے کہ اگر یہ مانگیں بھی تو انہیں جوس نہیں دینا کیونکہ موصوف کا خیال ہے اور جو خاصی حد تک صحیح بھی ہے کہ سٹرس کا جوس میرے لیے کھانسی کا باعث ہوتا ہے‘ حالانکہ کھانسنا بُوڑھوں کے بنیادی حقوق میں شامل ہے! بہرحال دوسرے کئی کاموں کی طرح آفتاب سے چوری یہ مرحلہ بھی سر کر لیتا ہوں۔ کبھی پوچھے بھی تو یہی کہتا ہوں کہ مکمل پرہیز ہے‘ یعنی ؎
پکڑے گئے تو وہ بھی بُھگت لیں گے اے ظفر
فی الحال اُس کے آگے مُکرنا تو چاہیے
اُونٹ سے کسی نے پوچھا تھا کہ تمہارے لیے چڑھائی آسان ہے یا اترائی تو اُس کا جواب تھا‘ ہر دولعنت۔ لیکن میری واک کے دوران چڑھائی بھی آتی ہے اور اترائی بھی کیونکہ شاعری اور کالم نویسی جیسے اور کئی روگ پال رکھے ہیں تو ایک یہ بھی سہی کہ ان سب کے بغیر کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔
آج کا مقطع
صبح سی ہر دم کیے رکھتا ہے، جو ہر سو ظفرؔ
دیکھنے میں اُس کا اپنا شام جیسا رنگ ہے