تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     23-11-2015

اُن کو کون سمجھائے ؟

اُمت کا عہدِ ابتلاکسی صورت ختم ہونے کو نہیں آرہا ۔ ہر ابتلا ایک نئی ابتلاکو اور ہر بحران ایک نئے بحران کو جنم دے رہا ہے ۔ آپ زمین کے نقشے پر نظر ڈالیں تو فساد جہاں بھی نظر آئے گا، خواہ اپنا پیدا کیا ہوا ہو یا اَغیار کا مسلّط کردہ اورآگ جہاں بھی برس رہی ہو ، وہ مسلمانوں کی سرزمین ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کے خون سے نہ ابھی تک زمین کی پیاس بجھی ہے اور نہ ہی اَغیار کے کلیجے کو ٹھنڈک محسوس ہوئی ہے ، فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ اپنے تیر و ترکش ضائع نہ کر و، اب بچا ہی کیا ہے کہ جسے نشانہ بناؤ گے : 
نہ گنواؤ ناوِ کِ نیم کش ، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا 
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو ، تن داغ داغ لُٹا دیا 
تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ مسلمان ہی مجرم ہیں ، اس لیے اِن کی تادیب و تعزیر اور اصلاح نا گزیر ہے ۔ تعز یر کا لفظ تو میں نے رواداری میں لکھ دیا ہے ورنہ سامنے کا منظر تو تعذیب کا ہے ۔ لہٰذا اہلِ مغرب اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ پہلے عراق میں وارد ہوئے ، پھر افغانستان میں ، پھر دوبارہ عراق میں ، اس کے بعد لیبیا و یمن میں اور شام تو عالَمی قوتوں کا ویسے ہی مشقِ ستم بنا ہوا ہے ۔ مانا کہ صدام حسین ظالم تھا ، کرنل قذافی بھی وحشی اور ظالم تھا ، طالبانِ افغانستان تہذیبِ نو سے ناآشنا تھے۔لیکن عقلِ انسانی کا سوال یہ ہے کہ کیا آج کا عراق کل کے عراق سے ، آج کا افغانستان کل کے افغانستان سے ، آج کا لیبیا کل کے لیبیا سے اور آج کا شام کل کے شام سے بہتر ہے؟ سب امن و عافیت میں ہیں ، ہر کوئی پُر سکون ہے ۔ اگر جواب اثبات میں ہے تو امریکہ اور اہلِ مغرب زندہ باد۔ اور اگر جواب نفی میں ہے تو خونِ مسلم کی یہ اَرزانی کس کے سر ہے۔پاکستان تو ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہاہے ،ہمارے لوگوں کا خون دہشت گردی کے خلاف امریکا اور اہلِ مغرب کی کاشت کی ہوئی عالمی جنگ کا ایندھن بن رہاہے اورہم ہزار کوشش کریں اور کتنی ہی خوبصورت خواہشات اپنے ذہن میں پالیں ،لیکن نوشتۂ دیوار یہی ہے کہ جب تک یہ عالمی جنگ ختم نہیں ہوگی ،ہماری سرزمین کو بھی پورا امن نہیں ملے گا،اس کی شدت (Intensity)اورپھیلاؤ میں کمیت اورکیفیت(Quantity & Quality)کے اعتبار سے کمی بیشی ہوتی رہے گی ۔ایسا لگتا ہے کہ فیض احمد فیض نے یہ مرثیہ اسی منظر کے لیے لکھا تھا: 
کہیں نہیں ہے ، کہیں بھی نہیں ، لہو کا سراغ
نہ دست و ناخنِ قاتل ،نہ آستیں پہ نشاں 
نہ سرخیٔ لب ِ خنجر، نہ رنگ ِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبہ ،نہ بام پر کوئی داغ 
کہیں نہیں ہے ، کہیں بھی نہیں ، لہو کا سراغ 
نہ صَرفِ خدمتِ شاہاں، کہ خوں بہا دیتے 
نہ دیں کی نذر ،کہ بیعانۂ جزا دیتے 
نہ رزم گاہ میں برسا ، کہ معتبر ہوتا 
کسی علَم پہ رقم ہو کے مشتہر ہو تا 
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہرِ سماعت نہ وقت تھا ،نہ دماغ 
نہ مدعی، نہ شہادت ، حساب پا ک ہوا
یہ خونِ خاک ِنشیناں تھا ،رزقِ خاک ہوا 
پس کوئی ہے جو عصرِ حاضر کی مُقتدر اور بالا دست مادّی اور اقتصادی قوتوں کو سمجھائے یا اُن سے پوچھے کہ حضور ِوالا! دنیا سے فسادکو مٹانے اور جڑ سے اُکھیڑ دینے کی جس حکمتِ عملی کو آپ نے اپنی دانش سے اختیار کیا اور پھر اُسے عملی شکل دی اور ایک عالمی جنگ برپا کردی ،سوال یہ ہے کہ ڈھائی عشروں کے بعد جوہرِ مقصود آپ کے ہاتھ آگیاَدنیا کو آپ نے امن عطاکردیا یا خطرات بدستور سر پہ منڈلا رہے ہیں اور وقتاً فوقتاً کہیں نہ کہیں اُن کا ظہور ہوتارہتاہے؟اگر اِس سوال کا جواب اثبات میں ہے توکیااب وقت نہیں آگیا کہ اِس پوری حکمتِ عملی کااَزسرِ نو جائزہ لیاجائے اور اِسے Revisitکیاجائے ،شاید کوئی اِس سے بہتر مُتباد ل حکمتِ عملی آپ کو سجھائی دے اور انسانیت کو امان ملے ۔
مگر المیہ یہ ہے کہ طاقت کا زَعم و عُجب وتفاخُر اور طاقت کی بدمستی بعض اوقات انسان کو خدائی کے دعوے پر اُبھارتی ہے۔ ماضی کے فرعونوں اور نمرودوں نے یہی کیا بلکہ اس سے بھی بڑے دعوے کیے ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ''لیکن رہی(ہود کی امت ) قومِ عاد، تو اُنہوں نے زمین میں ناحق تکبرکیا اور انہوں نے کہا : ہم سے بڑھ کر طاقت ور کون ہے ؟، کیا انہیں معلوم نہیں کہ جس اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ قوت والا ہے ، (حٰمٓ السجدۃ: 15 )‘‘۔ہمیں آج تک پتا نہیں چلا کہ داعش کو جدید تیکنیک، آلاتِ حرب اور مالی وسائل کہاں سے ملے ۔جذبۂ انتقام کے تحت جو اندھی بمباری کی جارہی ہے ،اُس میں کتنے دہشت گرد نشانہ بنے او رکتنے بے قصور بوڑھے ،بچے اورعورتیں نشانہ بنے اور یہ کہ چندافراد کے قتل کے انتقام میں پورے پورے ملکوں کو تاراج کرنا اور راکھ کا ڈھیر بنادینا کس الہامی مذہب میں یا مُہذب دنیا کے بنائے ہوئے کس قانون کے تحت جائز ہے ،یہی صورتِ حال القاعدہ کی ہے ۔سوچنے کا مقام یہ ہے کہ دہشت گردی اورظلم وفساد کے خاتمے کے لیے 1990ء سے اب تک عالمی سطح پر اور متاثرہ ملکوں میں دہشت گردی اور فساد کا خاتمہ ہواہے یا اس میں اضافہ ہواہے ۔کوئی ہمیں یہ بھی بتائے کہ وہ کون سے مُحرّکات ہیں جو امریکہ اور مغرب میں تعلیم پانے والے اور عشرتوں میں پلے ہوئے نوجوان مردوں اور عورتوں کو داعش اور القاعدہ سے لاکر ملادیتے ہیں ۔آپ کے پاس ایک ہی سب سے خطرناک ڈراوا (Threat)موت تھا ،اُس کو اُنہوں نے آرزو اور مشن بنالیاہے ،اب آپ اُنہیں کس سے ڈرائیں گے ؟۔چند مُشتبہ یا واقعی مُجرموں کی پاداش میں کتنے بے قصور لوگوں کا خون بہے گا اور کب تک بہے گا۔ پھر دہشت گردوں میں قابلِ قبول (Acceptable)اور ناقابلِ قبول(Unacceptable)کی تقسیم کا معیار کیاہے ۔شام میں سعودی عرب وروس اور امریکہ ومغرب اورایران کی ترجیحات الگ ہیں ، اِسی طرح یمن میں بھی ترجیحات کا تفاوت واضح ہے ۔ ہم تو دورسے ہی دردناک مناظر دیکھ کر کانپ اٹھتے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں کہ اس آزمائش میں مبتلا لوگ دن رات اپنی آنکھوں کے سامنے لاشوں کو تڑپتا دیکھ کر کیسے جی رہے ہوں گے ،اُن کی پلکیں نیند کی حلاوت سے کیسے آشنا ہوتی ہوںگی ،یہ تصور ہی دل کو دہلادینے والا ہے ،شاید غالب نے ایسے دکھی انسانوں کی قلبی کیفیت کی تصویر کشی اپنے اس شعر میں کی ہے :
رنج سے خوگر ہو ا انسان، تو مٹ جاتاہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی، کہ آساں ہو گئیں 
امریکہ نے صرف قندوز،افغانستان میں ایک این جی او ''Doctors without Borders‘‘کے اسپتال پر بمباری کی معافی مانگی ، کیونکہ وہاں پر کچھ مغربی کارکن نشانہ بنے ۔اگر صرف مقامی سویلین لوگ ہوتے توشاید اظہارِ تأسف پر ہی اکتفاکی جاتی ۔ساٹھ ستر کے عشرے میں جب امریکہ اور سوویت یونین دو سپر پاورز آمنے سامنے تھیں اور دائیں بائیں کی تقسیم قائم تھی تو کمیونزم اور سوشلزم سے متاثر ہمارے نوجوانوں کا نعرہ ہوتاتھا :'' لہو کا رنگ سُرخ ہے ‘‘،یعنی سب انسان برابر ہیں ،لیکن سوویت یونین کے زوال کے بعد شاید لہو کی سُرخی انسانی وحدت کی بنیاد نہ رہی بلکہ جلد کی رنگت کی تقسیم عود کرآئی ۔
پاکستان اوراہلِ پاکستان کاایک المیہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی بحیثیت قوم اپنے نظام ِ معیشت وسیاست میں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کا شِعار اختیار نہیں کیا۔ ہمارے قومی بجٹ کا ایک معتَد بہ حصہ داخلی اور خارجی قرضوں کی اقساط اور سود کی ادائیگی میں چلاجاتاہے ۔ہمارے سالانہ قومی میزانیے کی آمد وخرچ کے گوشواروں میں تفاوت بالکل واضح ہوتاہے ۔لہٰذا ہم قرض اتارنے کے لیے مزید قرض لیتے ہیں اوریوں قومی قرضوں کا حجم بڑھتا ہی چلاجاتا ہے اوراگرہمارا شِعار یہی رہاتو وہ وقت دورنہیں جب ہم گلے گلے تک قرضوں میں جکڑے ہوں گے ۔ایسے میں کوئی کسی مہاجن کے آگے سراٹھاکر اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکیسے کھڑاہوسکتا ہے ۔اس لیے ہمارے لوگ جب اپنے حکمرانوں پر غلامی کا طعن کستے ہیں اورامریکہ سے ڈکٹیشن لینے کا الزام لگاتے ہیں یا حکومت حاصل کرنے کے لیے وہاں کی این اوسی یا کلیئرنس سرٹیفکیٹ کو لازمی قرار دے کر لطف لیتے اور حَظ اٹھاتے ہیں تو کوئی یہ نہیں بتاتا کہ مُتبادل آپشن کیاہے ۔ظاہر ہے کہ وہ آپشن مشکلات درمشکلات کا ہے ، عشرتوں کو تَج دینے اور راحتوں کو قربان کرنے کا ہے ، اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلانے کاہے ،سچ یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے اور اس کا تصور ہی بھیانک اور نیند اُڑادینے والا ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved