دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع تو ہمارے علاقے میں ہوئی تھی مگر ایک غیر محسوس طریقے سے یہ مسلسل مغرب کی سمت میں سفر کر رہی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ دہشت گردی کی Dynamics کم از کم اس کرۂ ارض میں کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ حالیہ دور میں جوسب سے بڑا واقعہ ہوا اس کو نائن الیون کہا جاتا ہے اب تک دل نہیں مانتا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دو اتنے بڑے ٹاور دو ہوائی جہازوں کی ٹکر سے زمیں بوس ہو گئے اور ان کے قریب واقعہ ایک تیسری عمارت کئی گھنٹے بعد بغیر کسی ہوائی جہاز کی ٹکر کے محض ان دونوں بڑے ٹاورز کی ہمدردی میں گر گئی تھی۔ اس واقعے کی اب تک کوئی بے لاگ انکوائری بھی نہیں ہوئی ہے۔اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی دل نہیں مانتا کہ اسامہ بن لادن کی قیادت میں القاعدہ کے لوگوں کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اصل حقیقت تو لگتا ہے حشر کے دِن ہی معلوم ہو سکے گی لیکن نائن الیون اس لحاظ سے ایک حقیقت ہے کہ اس نے دہشت گردی کے جن کو بوتل میں سے ایسا نکالا کہ اب یہ بظاہر اُن قوتوں کی طرف بڑھ رہا ہے جنہوں نے ابتدائی طور پر سوچا تھا کہ دہشت گردی کے اس جن کو اپنی سرحدوں سے دور رکھ کر کچھ دیگر ملکوں میں تماشہ رچایا جائے گا۔اس تماشے نے ہمارا تو بُھرکس نکال دیا۔ افغانستان اور عراق تو چونکہ براہِ راست متاثر ہوئے لہٰذا وہاں ہونے والی تباہی کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ اب دہشت گردی کا یہ جن مشرق وسطیٰ کے راستے یورپ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کی آخری منزل غالباً امریکہ بہادر ہے۔
گزشتہ چودہ برسوں میں مسلمانوں نے جو کچھ بھگتا ہے ان کو وہ اس لیے بھی بہت برا لگا کہ چند عشرے پہلے مسلمان تو مغربی دنیا کے لیے ایک ڈارلنگ بنے ہوئے تھے۔ سوویت یونین، مغربی دنیا کو چیلنج کر رہا تھا اور مسلمان، مغرب سے کندھا جوڑ کر سوویت یونین کو نیچا دکھانے کے لیے کوشاں تھے۔ اس دور میں مغربی دنیا نے مسلمانوں کے بہت ناز اٹھائے۔ یہی وجہ تھی کہ جب نائن الیون کے بعد مغرب نے مسلمانوں کو زمین پر دے مارا تو اُن کو کچھ زیادہ ہی برا لگا۔ اب مسلمان اس سلوک کے عادی ہو چکے ہیں۔
اب ہوتا یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی مسلمان انتہا پسند دہشت گردی کی کوئی کارروائی کریں، مغربی دنیا مسلمانوں کی ایک ارب ساٹھ کروڑ آبادی سے توقع رکھتی ہے کہ وہ سب معافی کے خواستگار ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو مسلمان انتہا پسند دہشت گردی کے مرتکب ہوتے ہیں، اُن کو بنانے والا کوئی مسلمان ملک نہیں ہے۔ اِن لوگوں کو ایسا بنانے میں آپ کو مغرب ہی کا ہاتھ نظر آئے گا مگر نا انصافی کی انتہا یہ ہے کہ اِن انتہا پسند مسلمانوں کی کارروائیاں، ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں۔
ذرا سوچیے کہ مغربی دنیا میں جب دہشت گردی کے ایسے کسی بھی واقعے کے بعد مسلمانوں پر سختیاں کی جاتی ہیں تو اس عمل کا فائدہ کن قوتوں کو ہوتا ہے۔اس کا ایک فائدہ تو انہی دہشت پسند گروپوں کو ہوتا ہے۔ مسلمانوں پر ہونے والی ان سختیوں کو یہ لوگ اس دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ سیکولر مغرب میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور اس طرح اِن گروپوں کو مغرب ہی میں
رہنے والے مسلمان نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا موقع فراہم ہو جاتا ہے۔دوسرا فائدہ یورپ میں اُن سیاسی گروپوں کو ہوتا ہے جو انتہائی دائیں بازو کے گروپس کہلاتے ہیں اور جو یہ چاہتے ہیں کہ مغربی ممالک، اسلام کے خلاف جنگ شروع کر دیں۔ISISجس کو ہم داعش کے نام سے جانتے ہیں، اس کا لٹریچر اگر آپ انٹرنیٹ پر دیکھیں تو وہ کھل کر بیان کر رہے ہیں کہ ان کے نزدیک دنیا میں دو ہی گروپس ہیں۔ ایک عالم اسلام کا گروپ ہے اور ایک عالم کفر کا گروپ ہے۔ داعش والے کہتے ہیں کہ بہت سے مسلمان ''Gray zone‘‘ میں ہیں۔ یعنی نہ وہ پوری طرح عالم اسلام میں ہیں اور نہ ہی پوری طرح عالم کفر میں۔ داعش اپنے لٹریچر میں کہتی ہے کہ نائن الیون کے واقعہ نے اس Gray zone پر کاری ضرب لگائی تھی جب امریکی صدر بش نے
اعلان کیا تھا کہ ''یا تو تم ہمارے ساتھ ہو نہیں تو پھر تم ہمارے دشمن کے ساتھ ہو‘‘ ۔داعش اس ضمن میں اپنا یہ بڑا مقصد بتاتی ہے کہ اس Gray zone کو بالکل ختم کر دیا جائے۔ جو مسلمان ہیں وہ کھل کر ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور جو مسلمان عالم کفر کا حصہ بننا چاہتے ہیں وہ بھی کھل کر کفر کی دنیا میں شمولیت اختیار کر لیں۔ ان حالات میں آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف خاص طور پر مغربی دنیا میں ہونے والے اقدامات کا فائدہ کس کو پہنچے گا۔
فرانس کی اگر مثال لیں تو وہاں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ پارٹی کہلاتی ہے۔ اس جماعت کی سربراہ Marine le pen نامی خاتون ہے جو مسلمانوں کی پکی دشمن ہے۔ 2014 ء میں فرانس کی ایک عدالت نے نیشنل فرنٹ پارٹی کے بارے میں کہا تھا کہ اگر اس جماعت کو ایک فاشسٹ(Fascist) جماعت کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ پیرس میں جو دہشت گرد حملے ہوئے ہیں۔ اُن سے پہلے یہ جماعت وہاں دوسری سب سے بڑی جماعت تھی۔ اب ممکن ہے کہ یہ سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آ جائے۔اگر ایسا ہو گیا تو آپ سوچ سکتے ہیں کیا ہو گا۔
دوسری طرف مسلم دنیا میں لوگ پیرس حملوں پر تو ماتم کناں ہوتے ہیں مگر اُن کو حیرت ہوتی ہے کہ پیرس حملوں سے محض ایک روز قبل داعش ہی کے ایک حملے میں دو خود کش بمبار بیروت میں 43 افراد کو ہلاک اور 230 کو زخمی کر دیتے ہیں مگر مغربی میڈیا میں کوئی خاص شور نہیں مچتا، بلکہ امریکہ میں تو ان مرنے والے بیچاروں کو حزب اللہ کی Human Shields قرار دے کر خود اپنی موت کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے۔پھر اکتوبر میں داعش ہی نے ترکی میں ایک پرامن اجتماع پر حملہ کر کے 128 افراد کو ہلاک اور 500 کو زخمی کر دیا تھا۔ اس کا بھی مغربی میڈیا میں پیرس حملوں کی طرح کا نوٹس نہیں لیا گیا تھا۔
سانحہ پیرس کا رونا تو بہت رویا جا رہا ہے مگر دہشت گردی نے اب تک زیادہ تر نقصان مسلمانوں ہی کو پہنچایا ہے۔ 2012ء میں امریکہ میں National Counter Terrorism کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برسوں میں مذہب کی بنیاد پر ہونے والی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے افراد 82 سے لے کر 97 فیصد تک مسلمان ہی تھے۔اِن کی اپنی ہی جاری کردہ رپورٹ کی موجودگی میں کیسے کوئی مان لے کہ مغربی دنیا ہی دہشت گردی کا بڑا نشانہ ہے۔ واضح رہے کہ یہ مؤقف مغربی دنیا کا ہے کہ وہ دہشت گردی کا اصلی نشانہ ہے۔
اب جو حالات دنیا میں پیدا ہو رہے ہیں اور جس طرح غیر محسوس طریقے سے دہشت گردی کا جن ہمارا پیچھا چھوڑ کر آہستہ آہستہ مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے تو کوئی بعید نہیں کہ مغرب کی یہ بات درست ثابت ہو جائے کہ وہی دہشت گردی کا بڑا نشانہ ہے۔
مکے کے کافروں پر جب اللہ تعالیٰ زمین تنگ کیے جا رہا تھا تو ان کفار کو بھی اس کا احساس نہیں تھا۔ لہٰذا قرآن میں اللہ نے ارشاد کیا تھا یہ کافر دیکھتے نہیں ہیں کہ زمین ان کے لیے تنگ ہوتی جا رہی ہے۔