تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-11-2015

دل کا دورہ؟ مائی فُٹ!

تحقیق کے شعبے کی خیر ہو، ماہرین نے اب تحقیق سے زیادہ توجہ موضوعات تلاش کرتے رہنے پر مرکوز کر رکھی ہے۔ کبھی کبھی تو ماہرین ایسے ایسے موضوعات پر تحقیق کرتے ہوئے ملتے ہیں کہ منہ سے بیک وقت واہ اور آہ نکلتی ہے! ازدواجی زندگی، معاشرتی تعلقات، کامیابی کے اصول، زندگی بسر کرنے کا درست ڈھنگ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے موضوعات کی مِٹّی جی بھر کے پلید کرنے کے بعد ماہرین نے اب ''کام‘‘ کو تختۂ مشق بنا رکھا ہے! ماہرین نے کام کے کنویں میں تحقیق کا ڈول ڈال کر جو کچھ باہر نکالا ہے وہ ایسا ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے! تحقیق کے نچوڑ پر مشتمل گزارشات و سفارشات پڑھنے والے سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ کام کو اچھا سمجھیں یا بُرا اور یہ کہ کام کریں یا نہ کریں۔ یہ تحقیق ہی کا کمال ہے کہ کام کرنے اور نہ کرنے والے یکساں انجام سے دوچار ہوتے ہیں یعنی سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ ماہرین کی رائے کو قبول کریں یا مسترد! پس ثابت ہوا کہ ماہرین کا بنیادی ''مقصدِ وجود‘‘ یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں انجام کو پہنچنے والی تحقیق کے نتائج پڑھ کر لوگ شش و پنج میں مبتلا ہوجائیں، کسی فیصلے تک پہنچ ہی نہ پائیں! 
ذہن کو بُری طرح الجھانے والی بات یہ ہے کہ دنیا میں ہر طرف کام ہو رہا ہے۔ بعض اقوام تو اس معاملے میں اتنی آگے نکل گئی ہیں کہ ان کی ذہنی کیفیت کے حوالے سے بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ اب تو گئیں کام سے! آپ کو ایسے معاشرے دنیا میں ہر طرف ملیں گے جو کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ گویا یہ خوف لاحق ہو کہ کچھ نہ کرنے سے وجود بے معنی ہوجائے گا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کچھ لوگ دفتر، فیکٹری، سائٹ یا دکان پر باقاعدگی 
سے حاضر ہوتے رہنے کو یقینی بناتے ہیں۔ اُن کے لاشعور میں یہ خوف بیٹھا ہوا ہوتا ہے کہ کسی دن کام پر نہ جاسکے تو سب کو معلوم ہوجائے گا کہ اُن کے بغیر بھی کام تو چل ہی جاتا ہے! جو لاشعور میں خوف بٹھادے اُس کام کو اپناکر ہم کیا پائیں گے؟ 
ماہرین کام سے متعلق جو تحقیق فرماتے ہیں اس کے نتائج کی روشنی میں کام نہ کرنے یا زیادہ کام کرنے کے نقصانات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ بھی اُن کا ''کرمِ بے جا‘‘ ہے کیونکہ ہم کام کے معاملے میں اُن کے نکاتِ عالیہ کے محتاج و مکلّف ہرگز نہیں۔ ہم اُن چند ''فنکار‘‘ اقوام میں سے ہیں جن کا بیشتر وقت کام سے زیادہ کام کے بارے میں سوچنے اور اُس سے گریز کرتے ہوئے بھی اچھی طرح جینے کے طریقے وضع کرنے میں گزرتا ہے! گویا ع 
کچھ بھی نہ کیا ... اور جی بھی گئے! 
اور اب آپ ہی ایمان داری سے بتائیے گا کہ کام نہ کرنے سے کیا کوئی کمی واقع ہوئی۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ کام نہ کرنے سے وجود بے معنی ہو جاتا ہے؟ ہمیں تو ایسا نہیں لگتا۔ مگر پتا نہیں کیوں چاند پر قدم رکھنے کے بعد مریخ پر آشیانے بنانے کے خواب دیکھنے والے اب تک اتنی سی بات سمجھ نہیں پائے اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کے بارے ہی میں سوچتے رہتے ہیں۔ 
یہ بھی عجب تماشا ہے کہ ایک طرف تو کام کرتے رہیے اور دوسری طرف کام کے منفی نتائج کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان بھی ہوتے رہیے۔ لندن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے اپنے چند معاونین اور طلباء کی مدد سے تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ زیادہ کام کرنے سے انسان کی صحت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہم نے پڑھا تو حیرانی بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا۔ زیادہ کام کرنے سے جسم پر جو دباؤ پڑتا ہے اس کے بارے میں تحقیق کی کیا ضرورت ہے؟ یہ بات تو بچے بھی جانتے ہیں کہ زیادہ کام کرنے سے جسم تھک جاتا ہے! ہم بھی یہ بات کسی بھی طرح کی تحقیق اور تقابلی مطالعے کے بغیر بتاسکتے ہیں کیونکہ تقریباً ہر پاکستانی کام اور اس سے وابستہ معاملات کا پیدائشی ماہر ہوتا ہے! اہلِ پاکستان اچھی طرح جانتے ہیں کہ زیادہ کام کرنے سے کون کون سی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان پیچیدگیوں سے بچنے کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں مگر کئی صورتوں کا کیا اچار ڈالنا ہے، آسان ترین صورت کیوں نہ اپنائی جائے؟ یعنی کام کیا ہی کیوں جائے! ذہن پر کوئی بھی دباؤ کب مرتب ہوگا؟ جب کام کیا جائے گا۔ اور جب کام کیا جائے گا تب جسم کو گھوڑا سمجھ کر اس پر تھکن بھی سوار ہوگی، پریشانیاں جنم لیں گی، پیچیدگیاں ابھریں گی۔ یعنی بانس ہوگا تبھی تو بانسری بنے گی اور بجے گی۔ ہم نے تو اب تک یہی دیکھا ہے کہ کام کرکے انسان جو کچھ پاتا ہے اس کے مقابلے میں کھوتا زیادہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب ہمارے ہاں کام کرنے والوں کو ''کھوتا‘‘ سمجھا جاتا ہے! 
پروفیسر صاحب نے آسٹریلیا، امریکہ اور یورپ میں کم و بیش 6 لاکھ افراد کے معمولاتِ کار کا جائزہ لیا۔ تینوں خطوں میں ایک ہفتے کے دوران معمول کے اوقاتِ کار کے دوران زیادہ سے زیادہ 40 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ آجر کی فرمائش پر یا اپنی ضرورت کے تحت ہفتے میں 55 تا 60 گھنٹے بھی کام کرتے ہیں۔ جو لوگ ہفتے میں 15 تا 20 گھنٹے زیادہ کام کرتے ہیں ان کے بارے میں پروفیسر صاحب نے کہا ہے کہ کام کی زیادتی سے ان کی صحت پر شدید دباؤ پڑتا ہے اور ان میں دل کے دورے کا خطرہ 13 فیصد بڑھ جاتا ہے۔ 
یہ انتباہ پڑھتے ہی ہم تو دل تھام کر رہ گئے کیونکہ ایک زمانے سے ہم اتنا کام کرتے آئے ہیں کہ اگر مغربی ماہرین کے اندازے حقیقت پر مبنی ہوتے تو ہم اب تک کئی بار دل کا دورہ کرچکے ہوتے! مغربی ماہرین سے ہمارا بڑا شکوہ یہ ہے کہ وہ دنیا بھر کے معاشروں میں جھانکتے پھرتے ہیں، ہماری طرف نہیں دیکھتے۔ کام کا دَور ہو یا یا ''بے کامی‘‘ کا زمانہ، ہم ہر اعتبار سے بے مثال و لاجواب ہیں۔ اس معاملے میں ہم ''ٹرینڈ سیٹر‘‘ ہیں۔ حسد کرنے والے طنزیہ کہتے ہیں کہ کام سے بچنے کے طریقے سوچنے پر جو وقت صرف ہوتا ہے وہ اگر کام کے سلسلے میں بروئے کار لایا جائے تو بہت سے معاملات درست ہوجائیں! ہم اُن کی خدمت میں عرض کرنا چاہیں گے کہ ایسا کر تو لیں مگر روزمرّہ معاملات سے کشید کیا جانے والا اچھا خاصا لطف بے موت مر جائے گا! 
لندن یونیورسٹی کے ان پروفیسر صاحب نے کئی برس کی محنتِ شاقہ کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ تو خیر ہم اتنی محنت کے بغیر بھی اخذ کر ہی لیتے مگر اس سے بڑھ کر قابل غور بات یہ ہے کہ لوگوں کو خواہ مخواہ نازک مزاج قرار دیا جارہا ہے۔ کام کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ بنانا ترقی یافتہ معاشروں کا چونچلا ہے۔ انسان کو اللہ نے بے پناہ صلاحیتوں اور سکت سے نوازا ہے۔ ہاتھ ہلائے بغیر بھی وہ انتہائی پُرسکون زندگی بسر کرسکتا ہے اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی صورت میں بھی اُس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ دونوں ہی صورتوں میں زندگی کی گاڑی چلتی رہتی ہے۔ 
پاکستانی معاشرہ بہت سے معاملات میں شدید نوعیت انفرادیت کے حوالے سے حشر ساماں واقع ہوا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا ؎ 
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا 
اُسی کو دیکھ جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے! 
ہماری بھی یہی کیفیت ہے۔ کوئی اگر ہمارے بارے میں ذرا باریک بینی کو شعار بنائے تو دیکھے گا کہ ایک طرف تو ہم میں بہت سے ہیں کام کے بغیر بہت مزے سے جی رہے ہیں اور دوسری طرف ہماری ہی صفوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے ہیں مگر دل کا دورہ ان کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتا! اگر کوئی پوری ایمان داری سے جائزہ لے اور تحقیق کرے تو دنیا کو دھڑلّے سے بتا سکتا ہے کہ کام نہ کرنے اور بہت زیادہ کام کرنے میں کچھ خاص فرق نہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں (پاکستان کے) لوگ شاداں و فرحاں زندگی بسر کرتے رہتے ہیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved