پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد پاکستان سمیت تمام مسلمان ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن میں بے چینی، تشویش اور اضطراب بڑھ گیا ہے۔ ان کے حالات پہلے سے ہی ناگفتہ بہ تھے۔ وہ ملازمتوں کے حصول سے لے کر یورپ کے بحران زدہ معاشروں میں بڑھتی ہوئی ظاہری اور باطنی نسل پرستی جیسی مشکلات کا شکار بھی تھے اور مستقبل کے بارے میں پریشان بھی۔ دہشت گردی ہمیشہ رجعت کے رجحانات کوشدید کرتی ہے۔ پہلے معاشی بحران کے گہرے ہونے سے جو بیروزگاری اور کٹوتیاں (آسٹیریٹی) جاری تھیں ان کے لئے یورپ میں دائیں بازو کی سیاست‘ نظام کی بجائے تارکینِ وطن محنت کشوں کو قصور وار ٹھہرا رہی تھی۔ حکمرانوں کے مظالم کا ذمہ دار مظلوم کو قرار دینا دائیں بازوکا روایتی شیوہ ہے۔ اب یہ رجحانات مزید شدت اختیار کر گئے ہیں لیکن یہ عارضی اور وقتی ہیں۔ یورپ کی مزدور تحریک کی انقلابی جدوجہد کی ایک درخشاں تاریخ ہے۔ اس طبقے کی موجودگی میں فسطائیت (فاشزم) اب یورپ میں دوبارہ مکمل طور پر مسلط نہیں ہوسکتی۔
اس مذہبی یا نسلی منافرت کو جہاں یورپ کا دایاں بازو پھیلاتا ہے وہاں تارکینِ وطن کے مذہبی رہنما بھی اپنا کاروبار چمکانے کے لئے اسے خوب استعمال کرتے ہیں۔یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ لہٰذا یورپ میں پاکستان اور دوسرے غیرترقی یافتہ ممالک کے محنت کشوں کے لئے یہ امتحان کی گھڑی ہے۔انہیں جہاں دائیں بازو کے فسطائی رجحانات کے حملوں سے بچنا ہے وہاں انہیں مذہبی ٹھیکیداروں کے پراپیگنڈے کو بھی مسترد کرنے کی ضرورت ہے‘ کیونکہ ان ملائوں اور یورپی فسطائیوں کا مقصد ایک ہی ہے: محنت کش عوام میں پھوٹ ڈال کر طبقاتی جڑت کو توڑنا تاکہ سامراجی حکمرانوں کا کام آسان ہو جائے۔ایسے نسلی اور مذہبی تعصبات محنت کشوں کو نفسیاتی طور پر بھی مجروح کرتے ہیں اور وہ اپنے بنیادی حقوق کے حصول اور اس نظام کو بدلنے کی جدوجہد میں پسپا ہو جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں کی ایک خوش آئند پیش رفت یہ ہے کہ فرانس کے محنت کشوں نے اس درد ناک واقعے کے حکمرانوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کے خلاف پہلے ہی بغاوت کا پرچم سربلند کردیا ہے۔ فرانس میں محنت کشوں کی سب سے بڑے بائیں بازو کے اتحاد ''جنرل کنفیڈریشن آف لیبر‘‘ (CGT) اور دوسری کئی یونینوں نے فرانسیسی صدر فرانسو ااولاند کی طرف سے نام نہاد ''قومی یکجہتی‘‘ اور ایمرجنسی نافذ کرنے کے اقدامات کو مسترد کردیا ہے۔ یونینوں نے اعلامیہ جاری کیا ہے کہ قومی شائونزم پر مبنی اس طرح کے مزدور دشمن اقدامات محنت کشوں میں پھوٹ ڈالنے، ہڑتالوں کو غیر قانونی بنانے، ریاستی جبر بڑھانے اور عوام پر بلا روک ٹوک معاشی حملے کرنے کے لئے کئے جار ہے ہیں‘ جنہیں کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ مزدور تنظیموں نے دہشت گردی کو جواز بنا کر نافذ کی گئی ایمرجنسی کو عوام دشمن قرار دے دیا اور اس کے خاتمے کے لیے ایک تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ایسے میں پاکستان اور دوسرے تارکینِ وطن مزدوروں کے لیے یہ لازم ہوجاتا ہے کہ اس مزدور تحریک میں زیادہ سے زیادہ متحرک ہو کر فسطائیت کے نسل پرستانہ حملوں کے خلاف اپنے حقوق کا ڈٹ کر دفاع کریں۔
پاکستان کی معیشت اور معاشرت میں یہاں سے بیرون ملک ہجرت کرنے والے محنت کشوں اور درمیانے طبقے کے پروفیشنلز کا کردار گزشتہ کئی دہائیوں میں بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ان کی ترسیلات زرمبادلہ کا اہم ذریعہ ہیں۔ان رقوم سے خصوصاً کشمیر جیسے پسماندہ علاقوں کی معیشت کا پہیہ گھومتا ہے جہاں روزگار کے مواقع انتہائی قلیل ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے ان تارکین وطن کی اپنی حالت سماجی اور معاشی طور پر ابتر ہوتی جا رہی ہے۔
محنت کسی بھی ملک میں کی جائے‘ سرمایہ دارانہ نظام میں اس کا استحصال ایک ہی طرح کیا جاتا ہے۔یہاں سے نسبتاً ترقی یافتہ ممالک میں جا کر آباد ہو جانے والوں کی اکثریت اگرچہ محنت کش گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے لیکن ''باہر‘‘ چلے جانے کی نفسیات بعض اوقات حاوی ہو جاتی ہے‘ جیسے وہ اپنے طبقے سے بالاتر ہو گئے ہوں۔ برتری کے اسی احساس کے پیش نظر وہ یہاں ضرورت نہ ہونے کے باوجود بھی نئے مکان بناتے اور فرسودہ رسم و رواج اور بلدیاتی انتخابات میں اپنی برتر حیثیت کی دھاک بٹھانے کے لئے بے دریغ اخراجات کرتے ہیں۔ اپنی اس ''چودھراہٹ‘‘ اور مصنوعی نمائش کے لئے خود کو کنگال کرنے کے بعد جب وہ واپس ''باہر‘‘ جاتے ہیں تو قرضے اتارنے یا خسارے پورے کرنے کے لئے انہیں کئی کئی ملازمتیں کرنا پڑتی ہیں۔ درمیانے طبقے کی 'حیثیت‘ قائم رکھنے کے لئے انہیں وہاں سب سے کم تر درجے کے کام کرنے پڑتے ہیں۔
لیکن 2008ء کے بعد سے یورپ اور مشرق وسطیٰ میں معاشی تنزلی کی وجہ سے حالات تلخ ہوتے جا رہے ہیں۔ یورپ میں اسی اقتصادی بحران کی وجہ سے نسل پرستی پہلے ہی پھیل رہی تھی۔
یورپ میں تارکین وطن کی اکثریت کا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ کئی نسلیں گزر جانے کے باوجود ایک مخصوص طرز کی سماجی زندگی میں مقید ہیں۔ اس کے پیچھے مذہبیت اور دوسرے رجعتی تعصبات کارفرما ہیں جو بعض اوقات وہاں جا کر پاکستان سے بھی زیادہ، سوچ اور رویوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ یورپ میں ملنے والی جنوب ایشیائی کمیونٹیوںمیں زیادہ تنگ نظری، قدامت پرستی، خواتین پر جبر، ذات پات اور برادری کے تعصبات اور مذہبی فرقہ واریت کی جکڑ محسوس ہوتی ہے۔ یورپ میں رہ کر پاکستانی اوربھارتی میڈیا کے سطحی ڈرامے دیکھے جاتے ہیں۔وہاں اور یہاں کے ملا ان سے چندے لے کر اپنے کاروبار چلاتے اور مال بناتے ہیں۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لئے ان تارکین وطن کی نئی نسل کو یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی بائیں بازو کی تحریکوں اور پارٹیوں میں زیادہ سرگرم ہو کر خود کو اور اپنے عزیز و اقارب کو رجعت کے اس خول سے نکالنا ہو گا۔سوشلزم کے نظریات کے تحت ہی دائیں بازو کے فسطائی رجحانات اور نسل پرستی کو شکست دی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب مشرق وسطیٰ، خصوصاً خلیجی ممالک میں کام کرنے والے تارکین وطن کی حالت غلام داری سے کم نہیں ہے۔ تارکین وطن اپنے ملک کی بیروزگاری اور محرومی سے تنگ آکر، اپنی تمام پونجی بیچ بچا کر، وہاں جاتے ہیں۔ اس بھیانک سفر میں پہلے تو فراڈیوں اور ایجنٹوں کا جال پار کرنا پڑتا ہے۔ جو وہاں پہنچ جاتے ہیں انہیں انتہائی تلخ حالات میں کم اجرتوں پر مزدوری کرنا پڑتی ہے، کبھی کفیل کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہونا پڑتا ہے۔ادھر سب خوش ہوتے ہیں کہ بیٹا باہر چلا گیا ہے، اسے خوشحالی کی علامت سمجھا جانے لگتا ہے، لیکن باہر بیٹھا نوجوان کن اذیت ناک حالات سے گزرتا ہے، اس کا ادراک شاید کم ہی کیا جاتا ہے۔ وہاں سے کئی مہینے جیل کاٹ کر ڈی پورٹ ہونے والے محنت کش پہلے تو شکر ادا کرتے ہیں لیکن یہاں آتے ہیں تو مصائب پہلے سے بھی بڑھ چکے ہوتے ہیں، ایسے میں وہ کچھ عرصے بعد ایک بار پھر اِس جہنم سے اُس جہنم جانے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں جہاں سے توبہ کر کے واپس آئے تھے۔
جب تک سوچ اور شعور کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا جو مارکس اور اینگلز نے 167سال پہلے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں واضح کی تھی کہ ''مزدور کا کوئی دیس، کوئی وطن نہیں ہوتا اور جو اس کا ہے ہی نہیں ، اس سے کوئی نہیں چھین سکتا‘‘، اس وقت تک بہت سے محنت کش خود کو جسمانی مشقت اور دکھاوے میں برباد کرتے رہیں گے۔ ایک بار جب مارکسزم کے نظریات کے ذریعے وہ محنت اور سرمائے کے تضاد کو سمجھ جائیں گے ، معاشرے میں سرمائے اور فرسودہ تعصبات کا کردار پرکھ لیں گے تو ذہنی طور پر آزاد، روحانی طور پر درخشاں اور جسمانی طور پر نئی توانائی سے بھرپور ہو کر طبقاتی جدوجہد میں اتریں گے۔