کالم سے چھٹی تو آج ہے ہی‘ لیکن آج ذکر کسی ممولے یا ممولی یا سرخاب کا ہے نہ ہی فاختہ کا ہو گا بلکہ بلبل ہزار داستان شمس الرحمن فاروقی کا تذکرہ ہو گا۔ وہ یہاں فیض فیسٹیول میں شرکت کی غرض سے آئے ہوئے ہیں۔ ان کے دونوں لیکچر 'لمز‘ میں تھے۔ ایک فیض پر اور دوسرا اردو غزل کی تہذیب پر ۔عزیزی محمود الحسن نے بتایا کہ وہ آپ سے ملنے بھی آئیں گے‘ اس لیے آپ بتائیں کہ کہاں ہوں گے۔ میں نے بتایا تو انہوں نے کہا کہ وہ فارم ہائوس بھی آ جائیں گے کیونکہ بیدیاں روڈ لمزسے کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ میں نے کہا‘ اگر ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہو تو میں گاڑی بھیج دوں گا۔ پھر پتا چلا کہ ہ ڈاکٹر تحسین فراقی کے ساتھ ان کی گاڑی پر آئیں گے۔ سہ پہر وہ انتظار صاحب سے ملنے جائیں گے اور اس کے بعد آپ کے پاس آئیں گے۔ مجھے جب معلوم ہوا کہ وہ پانچ چھ آدمی ہوں گے اور ڈاکٹر صاحب کی چھوٹی گاڑی پر تو نہیں آ سکتے۔ چنانچہ میں نے کہا کہ میں بڑی گاڑی بھیج دوں گا۔
پانچ بجے شام میرے پاس آنے کا وقت طے تھا۔ میں نے گاڑی ساڑھے چار بجے ہی بھجوا دی تھی لیکن ڈاکٹر صاحب پہنچ نہیں پا رہے تھے۔ انہوں نے فون پر بتایا کہ وہ راستے میں ہیں لیکن ٹریفک جام کی وجہ سے 'ہنی برج‘ پر پھنسے ہوئے ہیں۔ وہاں سے نکلے تو راستہ بھول گئے جبکہ فاروقی اینڈ پارٹی تیار بیٹھے تھے۔ چنانچہ خدا خدا کر کے کوئی چھ بجے وہاں سے روانہ ہوئے۔ فاروقی کے ہمراہ ان کی صاحبزادی افشاں فاروقی‘ ڈاکٹر تحسین فراقی‘ علی اکبر ناطق‘ رفاقت علی شاہد اور محمود الحسن تھے۔ اس سے پہلے ڈسکہ سے ہمارے کچھ مہمان آئے ہوئے تھے اور آفتاب اس وجہ سے رُکے ہوئے تھے اس لیے وہ بھی شامل ہو گئے۔ افشاں ورجینیا یونیورسٹی میں ادب پڑھاتی ہیں اور غالب پر ریسرچ بھی کر رہی ہیں جس سلسلے میں ان کے مضامین ایک انگریزی روزنامے میں چھپتے رہتے ہیں۔ فاروقی کی اطلاع ملنے پر علی اکبر اسلام آباد سے آ گئے تھے۔ فیض کے حوالے سے بات ہوئی تو فاروقی نے بتایا(موصوف مجھ سے چار پانچ برس عمر میں چھوٹے ہیں‘ اس لیے ان کے ساتھ صاحب‘ کالاحقہ نہیں لگا رہا) کہ دراصل فیض کے پاس قفس‘ زندان‘ وطن‘ قید اور بہار وغیرہ پانچ سات الفاظ ہیں جنہیں وہ اپنی شاعری میں بار بار استعمال کرتے ہیں لیکن اُکتاہٹ پیدا نہیں ہوتی بلکہ اچھے لگتے ہیں۔
فراق گورکھپوری کا ذکر آیا تو میں نے کہا کہ شاید آپ میرے ساتھ اتفاق کریں کہ ان کے ہاں بھرتی کے اشعار بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اس سے اتفاق کیا بلکہ فراق کے بارے میں جو ان کی جانی پہچانی رائے تھی‘ اس کا بھی اظہار کر دیا۔ آفتاب نے کہا کہ ان کے چار پانچ اشعار تو لاجواب ہیں۔ آفتاب نے وہ شعر سنائے بھی جن میں یہ دو شعر بطور خاص ؎
سر میں سودا بھی نہیں ‘دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک ِمحبت کا بھروسا بھی نہیں
دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں
لیکن اس جلوہ گِہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں
فاروقی نے دونوں شعروں کے فنی نقائص کو اس طرح کھول کر بیان کیا کہ میری اور آفتاب دونوں کی تسلی ہو گئی۔ کہا کہ و ہ'سودا ‘ شعر میں پہلے لے آئے ہیں حالانکہ بعد میں آنا چاہیے کیونکہ تمنا پہلے پیدا ہوتی ہے اور سودا کہیں بعد میں جا کر۔ نیز وہ یگانوں کا مطلب ہی نہیں سمجھتے کیونکہ یگانہ کا مطلب ہے یکتا‘ جبکہ انہوں نے یہ لفظ اپنا کے معنوں میں استعمال کیا ہے جو کہ غلط ہے۔ نیز یہ بھی کہ انجمنِ ناز‘ اور جلوہ گِہ ناز‘ کی ترکیب ان کے ہر پانچویں شعر میں آتی ہے! یہ بھی بتایا کہ فراق فارسی زبان سے نابلد تھے‘ اسی لیے ان کی شاعری میں فارسی الفاظ اور تراکیب آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ آنجہانی عمر کے آخری حصے میں تقریباً حواس باختہ ہو گئے تھے۔ ایک نوجوان شاعر کا قصہ بتا رہے تھے کہ اس نے مجھ سے سفارش کروائی کہ فراق ایک تقریب میں رونق افروزہوں جو اس کے اعزاز میں منعقد کی جا رہی تھی۔ کافی ردّوقدح کے بعد راضی ہوئے اور اسی شاعر کی گاڑی میں بیٹھ کر آئے بھی لیکن باہر ہی ڈٹ کر بیٹھ گئے اور تقریب گاہ میں جانے سے صاف انکار کر دیا کہ اتنا چھوٹا سا شاعر ہے‘ ہم نہیں جائیں گے۔ بہت اصرار کے بعد اندر چلے گئے مگر کچھ کہنے کو تیار نہ ہوئے حالانکہ اسی غریب کی گاڑی پر انہوں نے واپس اپنے شہر جانا تھا۔ بہت منت سماجت کے بعد کچھ کہنے کے لیے کھڑے تو ہوئے لیکن چند غیر متعلقہ سے جملے کہہ کر واپس۔
جوش ملیح آبادی کے بارے میں فاروقی سمیت ہم سب کی متفقہ رائے تھی کہ کوئی بڑے شاعر ہرگز نہ تھے۔ شہنشاہِ الفاظ کا لقب ضرور حاصل کیا لیکن کئی لفظ غلط معنوں میں استعمال کر گئے۔ فراقی صاحب نے بھی اس ساری بحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ دوسرے حضرات بھی پیچھے نہ رہے تھے۔ آگرہ سے آفتاب نے انہیں جو فون کیا تھا‘ اس کی یاد کو بھی تازہ کیا گیا ‘ خبرنامۂ شب خون‘ بند کرنے پر بھی سب نے اپنا اپنا احتجاجی نوٹ زبانی ظاہر کیا۔ محمد حسن عسکری کے حوالے سے کہا کہ میں اُنہیں اُستاد مانتا ہوں۔ میرا اختلافی نوٹ تھا کہ انہیں شاعری کا کچھ زیادہ پتا نہ تھا۔ کہا کہ میر کا انتخاب وہ بہت عمدہ کر گئے۔ میرے تو میر کے بارے میں چند در چند تحفظات تھے لیکن شعرِ شور انگیز‘ کی چار پانچ جلدوں کی صورت میں میر پر ان کا کام بہت زیادہ تھا‘ اور میں اس وقت کوئی نیا فساد کھڑا کرنا نہیں چاہتا تھا اس لیے خاموش رہا۔ یہ نشست کوئی اڑھائی گھنٹے کو محیط رہی۔ آفتاب نے تو کہا کہ آپ سب شب بسری بھی یہیں پر کر لیں لیکن فاروقی بولے کہ میں نے پرسوں پھر لیکچر دینا اور اس کی تیاری کرنی ہے اس لیے معذرت ‘ پھر کبھی سہی!
کوئی ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل جریدہ ''انگارے‘‘کا عبداللہ حسین نمبرجو ہمارے دوست ڈاکٹر عامر سہیل ملتان سے نکالتے ہیں‘ مجھے نیا نیا ہی موصول ہوا تھا‘ میں نے فاروقی کو گفٹ کر دیا جس پر بہت خوش ہوئے۔ میں اسے سرسری ہی دیکھ سکا تھا جس کے لکھنے والوں میں شیخ صلاح الدین ‘ صلاح الدین محمود‘ محمد سلیم الرحمن‘ قاضی جاوید‘ خالد سہیل‘ محمد عمر میمن‘ محمد خالد اختر‘ فہمیدہ ریاض‘ اسلوب احمد انصاری‘ ڈاکٹر انوار احمد‘ ناصر عباس نیر‘ انتظار حسین‘ مسعود اشعر‘ عطاء الحق قاسمی‘ امجد اسلام امجد اور دیگران شامل ہیں۔ میرے خیال میں پرچہ زیادہ صحیح جگہ پہنچ گیا ہے اور اُمید ہے کہ مجھے دوبارہ بھجوا دیا جائے گا۔
آج کا مطلع
یہ بات ٹھیک نہیں‘ بام پر تو آ کسی دن
ترس گئی ہیں نگاہیں نظر تو آ کسی دن