تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     24-11-2015

غلط راہ؟

چالیس ہزار سال کے اس سفر میں، آدمی بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ اس کے باوجود، ایک لمحے کو ذرا پیچھے دیکھیے تو خوف آنے لگتا ہے۔ 
ایک وقت تھا کہ جملہ انسانیت بقا کی جنگ میں مصروف تھی۔ یہاں اس نیلی زمین میں خطرات بہت تھے۔ خطرناک حد تک طاقتور درندوں سے ہمیں خود کو محفوظ رکھنا تھا۔ ان کے دانت اور ناخن خنجر تھے۔ وہ مکمل طور پر بے رحم تھے، ہمیں نوچ کھانا چاہتے تھے۔ ان کی حسیات آدمی کے مقابلے میں کہیں تیز تھیں۔ انسان کی آنکھیں شیر چیتوں سے بہتر ہیں۔ وہ دنیا کو زیادہ رنگین طور پر پیش کر تی ہیں۔ یہ جمالیاتی طور پر تو بہتر ہو سکتا ہے، بقا کی جنگ میں نہیں۔ درندے دور سے ہمیں سونگھ لیتے تھے، خاص طور پر اس وقت جب ہوا کا رخ موافق ہو۔ آدمی دو ٹانگوں پہ سیدھا کھڑا ہے۔ اس بات پہ آج ہم ناز کر سکتے ہیں۔ ابتدا میں صورتِ حال مختلف تھی۔ ہماری عمودی جسمانی ساخت بقا کی اوّلین جنگ میں ایک بہت تکلیف دہ سقم تھی۔ ہم اس طرح تیز رفتاری سے حملہ آور نہیں ہو سکتے تھے۔ جانوروں کے برعکس ہمارے ناخن بڑے ہو کر ٹوٹنے لگتے تھے۔ ان کی دھار کند تھی۔ دو ٹانگوں پہ سیدھا کھڑے ہوتے ہوئے دوسرے جانوروں کی نسبت انسانی جسمانی ساخت میں جو تبدیلی رونما ہوئی، وہ جنسِ نازک کے لیے بڑی تکلیف دہ تھی۔ اولاد کی پیدائش میں، دوسرے جانوروں کی نسبت اسے انتہائی اذیت سے گزرنا پڑتا۔ اس تبدیلی کی وجہ سے ہماری ریڑھ کی ہڈی میں مسائل پیدا ہوئے، کمر کی تکلیف میں مبتلا ہونے کی شرح بہت زیادہ تھی۔ اس وقت آگ دریافت ہوئی تھی نہ آدمی مضبوط رہائش کا حامل تھا۔ ایسے میں دس پندرہ برس تک نرم و نازک انسانی بچّوں کی تربیت ایک کارِ دشوار تھا۔ ہمارے بیشتر حریف، اکثر دوسرے جانور پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی سنبھلنے لگتے تھے۔ 
اس سب کے باوجود اگر ہم بچ نکلے اور آج اگر ہم حکمران ہیں تو اس کی وجوہ ہیں۔ ماضی کے تجربات کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہم منصوبہ بندی کر سکتے تھے۔ پہلے آدم سے جو چیز ہم تک پہنچی وہ یہ کہ ہم ہر چیز کو ایک نام دے سکتے تھے۔ اس کی افادیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے دوسروں کو اس بارے میں بتا سکتے تھے۔ آج جب آپ یہ تحریر پڑھ سکتے ہیں تو ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیسے پہلے انسان نے اپنے منہ سے نکلے ہوئے ایک لفظ کو تحریری علامت میں ڈھالا اور دوسروں کو اس بارے میں بتایا ہو گا۔ 
آج کائنات کو تسخیر کرتا، ایجادات کے جلو میں زندگی گزارتا انسان خود پہ فخر کر سکتا ہے۔ بہت سے میدانوں میں ایسی پیش رفت ہو رہی ہے، جو ایجادات کے ضمن میں ایک بالکل نیا باب ثابت ہو سکتی ہے۔ گوگل اور دوسرے اداروں کی بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑیاں آزمائشی مراحل سے گزر رہی ہیں۔ انسان اس زمین پر مصنوعی طور پر ہائیڈروجن کو دوسرے بھاری عناصر میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب تک ہم اس زمین میں موجود عناصر، دھاتوں سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے، جہاں کائنا ت میں سب سے وافر مقدار میں موجود عنصر ہائیڈروجن کو بطور خام مال استعمال کرتے ہوئے، ہم اپنی ضرورت کے مطابق مختلف عناصر تشکیل دینے لگیں۔ ممکن ہے کہ ایک دن انسان خود لوہا بنانے لگے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تھری ڈی پرنٹر عام استعمال ہو رہے ہیں۔ ان میں مناسب خام مال اور فارمولا ڈالتے ہوئے، آپ اپنے استعمال کی ہر شے گھر میں تیار کر سکتے ہیں۔ حکومتی اور اداراتی سطح پر دیو ہیکل تھری ڈی پرنٹر ہوائی جہاز کے پرزوں سے لے کر میزائل تک کی تیاری میں استعمال ہو رہے ہیں۔ حیاتیاتی تھری ڈی پرنٹر بھی کامیاب آزمائش سے گزارے جا رہے ہیں۔ یہ حادثات میں ضائع ہو جانے والے آپ کے جسمانی اعضا تیار کر سکتے ہیں۔ یہاں اس سطح پر پہنچ کر اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے کہ آنے والی صدیوں میں آدمی کیا کچھ کرنے والا ہے۔ 
اس کے باوجود ہمارا دامن خالی ہے۔ آج تک آدمی نے کچھ بھی ایجاد نہیںکیا۔ اس نے ریاضی، طبیعیات اور دوسری سائنسز کو سمجھتے ہوئے، کششِ ثقل سمیت کائنات کے اصولوں کو سمجھتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھایا ہے۔ موبائل فون سے میری آواز اور انٹرنیٹ سے ڈیٹا دنیا کے ایک سرے سے دوسرے تک منتقل ہو جاتا ہے۔ ایسا ہرگز ممکن نہ ہوتا، اگر اس زمین اورکائنا ت میں لہریں روشنی کی رفتار سے سفر نہ کرتیں۔ گھاس، لکڑی اور ایندھن میں توانائی پہلے سے موجود تھی اور ہوا میں آکسیجن بھی۔ آج اگر میں انہیں یکجا کر کے آگ بنا لیتا ہوں تو اس میں میرا کمال نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میں ہائیڈروجن کو استعمال کرتے ہوئے بھاری عناصر بنانے میں کامیاب ہو جائوں، لیکن یہ عمل سورجوں کے مرکز میں 13.7 ارب سال پہلے سے جاری ہے۔ یوں یہ نقالی کے زمرے میں آتا ہے۔ آج زراعت کو دیکھیے، صنعت اور میڈیکل سائنس سمیت دنیا کا کوئی بھی سروسز سیکٹر دیکھ لیجیے، ہم میں سے ہر ایک خواہ وہ دنیا کی کسی آئل کمپنی میں کام کرتا ہے یا ادویات بیچتا ہے، بنیادی طور پر اس نے کچھ بھی ایجاد نہیںکیا۔ ہم نے یا تو زمین کی گہرائی میں دفن ذخائر نکالے ہیں یا ہم اس زمین کے اصولوں کو سمجھتے ہوئے، دوسروں کو ان سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ بتاتے اور اپنا رزق کماتے ہیں۔ 
ہم اپنی کائنات کی وسعتیں ٹھیک ماپ نہیں سکے۔ اس اثنا میں پہلی بار تصورات سے آگے بڑھتے ہوئے، ایک دوسری متوازی کائنات کا پہلا سراغ ملا ہے۔ ہماری اپنی کائنات کی ابتدا میں جو بگ بینگ ہوا تھا، اس سے بڑھ کر ایک دوسرے بگ بینگ کا سراغ ملا ہے۔ ممکنہ طور پر ایک دوسرے کائناتی دھماکے کے اثرات ہم تک آ پہنچے ہیں۔ انڈی پینڈنٹ، ڈیلی میل، یاہو، نیو سائنٹسٹ سمیت عالمی سائنسی ذرائع ابلاغ چیخ رہے ہیں۔ ٹھیک یہی وہ وقت ہے، جب ایشیا سے یورپ اور افریقہ تک آدمی جنگ و جدل، دہشت گردی اور ایک دوسرے کے بدترین استحصال کا شکار ہے۔ نفسیاتی امراض تیزی سے بڑھے ہیں۔ انسانیت ہیجان کا شکار اور تیسری عالمی جنگ کے دھانے پرکھڑی ہے۔ ایسے میں آدمی یہ سوچنے لگتا ہے کہ چالیس ہزار سال کے اس سفر میں انسانو ںکی ایک بڑی اکثریت شاید غلط راہ پر چلتی رہی ہے۔ اس بارے میں، میں اگلے مضمون میں تفصیل سے عرض کروں گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved