تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-11-2015

ملتان: کل سے آج تک

ملتان کا شمار گنتی کے ان چند شہروں میں ہوتا ہے جو گزشتہ ہزار سال سے مستقل آباد چلے آ رہے ہیں۔ تاریخی طور پر ملتان کی اہمیت بھی ہزاروں سال سے مسلمہ ہے۔ درہ بولان کے راستے برصغیر پر حملے کرنے والے ملتان سے گزر کر ہی آگے جاتے رہے۔ اسی طرح ایران اور بحیرۂ عرب کی سمت سے آنے والے لشکروں کا پہلا بڑا معرکہ عموماً ملتان ہی میں ہوتا رہا۔ سکندر اعظم ملتان کی جنگ میں زخمی ہوا۔ بعض تاریخی شواہد سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سکندر اعظم ملتان کے معرکے میں اس حد تک زخمی ہوا کہ اس کے مرنے کی خبر پھیل گئی۔ فوج میں بددلی پھیلی تو زخمی سکندر نے ملتان شہر کے ساتھ بہنے والے دریائے چناب میں کشتی میں اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر فوج کو اپنی شکل دکھائی اور زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ سکندر ملتان پر 326 ق م میں حملہ آور ہوا تھا۔ دو سال بعد 323 ق م میں وہ بابل میں فوت ہوا۔
ملتان مسلسل حملہ آوروں کی زد میں رہا ہے۔ سکندر اعظم سے لے کر انگریزوں تک ملتان نے بے شمار محاصروں، جنگوں، قبضوں اور ظلم و بربریت کا سامنا کیا۔ ماضی قریب میں اس پر اسماعیلی، قرامطی، افغان، سکھ اور انگریز قابض رہے۔ ملتان کی چھ ہزار سال پرانی تاریخ کو دیکھیں تو گزشتہ سات آٹھ سو سال ماضی قریب کی بات ہی لگتے ہیں۔ ملتان پر ایک عرصے سے باہر والے حکمرانی کر رہے ہیں۔ تاریخ میں جس آخری ملتانی حکمران کا ذکر ملتا ہے‘ وہ شہید مظفر خان درانی تھا؛ تاہم مظفر خان درانی بھی ملتان پر افغانستان سے حملہ آوروں کے تسلسل کا حصہ تھا‘ جو 1752ء میں احمد شاہ درانی المعروف احمد شاہ ابدالی کے ملتان پر قبضہ سے شروع ہوا۔ درمیان میں دو سال مرہٹوں نے ملتان پر قبضہ جمائے رکھا؛ تاہم 1760ء میں درانیوں نے ملتان پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد ملتان پر لوکل افغان پٹھانوں کی حکومت کا آغاز ہوا‘ جو خود مختار تھے ۔ ملتان اس دوران افغان حکمرانوں کی عملداری سے نکل گیا‘ اور مقامی حکمرانوں سدوزئی، خوگانی اور خاکوانی پٹھانوں کے زیر اقتدار رہا۔ محمود غزنوی، تیمور، بابر اور دوسرے فاتحین ملتان کو مسلسل تاراج کرتے ہوئے گزرتے رہے۔ 1557ء میں ملتان پر مغلوں کا قبضہ ہوا۔ اگلے دو سو سال ملتان کی تاریخ کے واحد دو سو سال تھے‘ جو امن و امان سے گزرے، ورنہ ملتان ہمیشہ غیر ملکی حملہ آوروں کے کشت و خون کا میدان بنا رہا‘ اسماعیلیوں اور سکھوں کے دور میں ملتان نے اپنی تاریخ کے بدترین دن دیکھے۔
1817ء میں رنجیت سنگھ کے ملتان پر حملے سے ایک بدترین دور کا آغاز ہوا۔ سردار کھڑک سنگھ کی سربراہی میں جنوری 1818ء میں ملتان پر چڑھائی کی ابتداء ہوئی۔ ابتدائی طور پر مظفر گڑھ اور خان گڑھ کے قلعوں پر قبضہ کرنے کے بعد ملتان کے محاصرے کا آغاز ہوا۔ یہ محاصرہ کئی ماہ جاری رہا۔ اس دوران ضعیف العمر مظفر خان درانی اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑی فوج کے ساتھ بڑی بہادری سے نبرد آزما رہا۔ محاصرہ طویل ہوا تو رنجیت سنگھ نے تاوان جنگ اور ہتھیار پھینکنے کے عوض مظفر خان درانی کو جان بخشی کا پیغام بھجوایا‘ مگر نجیب سردار نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آخری چارۂ کار کے طور پر ''زمزمہ‘‘ المعروف بھنگیوں والی توپ کو ملتان لایا گیا۔ اس بڑے دہانے والی توپ سے ملتان کے قلعہ کی دیوار میں شگاف ڈالا گیا۔ 2 جون 1818ء کو ملتان پر سکھوں کا قبضہ ہو گیا۔ اس معرکے میں زمزمہ توپ ''زخمی‘‘ ہوئی۔ یہ زمزمہ توپ کا آخری معرکہ تھا جس میں اس نے اپنے جوہر دکھائے۔ اس کے بعد یہ توپ کسی معرکہ میں استعمال کے قابل نہ رہی۔
زمزمہ توپ برصغیر پاک و ہند میں اب تک بنائی جانے والی سب سے بڑی توپوں میں سے ایک ہے۔ تانبے اور پیتل سے بنی ہوئی اس توپ کو شاہ ولی خان نے بنوایا۔ اس کے لیے ساری دھات لاہور کے ہندوئوں سے تانبے اور پیتل کے برتنوں کی صورت میں حاصل کی گئی۔ شاہ ولی خان‘ احمد خان درانی کا وزیر اعظم تھا۔ یہ توپ پہلی بار پانی پت کی جنگ میں استعمال ہوئی تھی۔ احمد شاہ درانی اسے اپنے ساتھ کابل لے جانا چاہتا تھا‘ مگر اسے کھینچنے والا رتھ تیار نہ تھا؛ لہٰذا اسے لاہور میں چھوڑ دیا گیا۔ اسی سائز اور دہانے کی دوسری توپ واپسی کے راستے میں دریائے چناب میں ڈوب گئی تھی۔ 1762ء میں ہری سنگھ بھنگی نے حملہ کر کے اسے خواجہ عبید‘ گورنر لاہور سے چھین لیا۔ اس کے بعد یہ توپ سردار لہنا سنگھ اور گجر سنگھ بھنگی کے قبضے میں آ گئی اور اس کا نام بھنگیوں والی توپ پڑ گیا۔ دونوں سرداروں نے یہ توپ چڑھت سنگھ کو دے دی۔ ان کا خیال تھا کہ چڑھت سنگھ یہ توپ اپنے ساتھ نہ لے جا سکے‘ مگر خلاف توقع چڑھت سنگھ یہ توپ اپنے ساتھ گوجرانوالہ لے گیا۔
چڑھت سنگھ سے یہ توپ چٹھہ سرداروں نے چھین لی‘ اور اسے احمد نگر لے گئے۔ اس توپ کی ملکیت پر احمد خان چٹھہ اور پیر محمد چٹھہ دونوں بھائیوں میں جنگ ہو گئی۔ احمد خان کے دو بیٹے اور پیر محمد کا ایک بیٹا‘ اس جنگ میں کام آئے۔ گجر سنگھ بھنگی نے اس جنگ میں پیر محمد کا ساتھ دیا اور اس کے عوض جنگ جیتنے کے بعد توپ اپنے ساتھ لے گیا۔ دو سال بعد اسے دوبارہ سردار چڑھت سنگھ نے حاصل کر لیا‘ اور وہاں سے دوبارہ پٹھان اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اگلے سال سردار جھنڈا سنگھ بھنگی نے اسے پٹھانوں سے چھین لیا‘ اور امرتسر لے گیا۔ 1802ء میں بھنگیوں کو شکست دینے کے بعد راجہ رنجیت سنگھ نے توپ پر قبضہ کیا اور اسے ڈسکہ، قصور، سُبحان پور، وزیر آباد اور آخرکار ملتان کے معرکے میں استعمال کیا۔ اس کے بعد یہ توپ دوبارہ استعمال نہ ہو سکی۔ پہلے یہ توپ دہلی دروازے کے باہر کھڑی رہی۔ 1860ء میں اسے ٹولنٹن مارکیٹ کے پیچھے کھڑا کر دیا گیا۔ 1870ء میں ڈیوک آف ایڈنبرا کی لاہور آمد کے موقع پر اسے مال روڈ پر شفٹ کر دیا گیا۔
جب رنجیت سنگھ کی افواج نے ملتان پر قبضہ کیا، تب نوے سالہ ضعیف اور بہادر پٹھان حکمران نواب مظفر خان درانی اپنے سات بیٹوں اور ایک بیٹی کے ہمراہ ملتان کے قلعہ میں دمدمے پر ازخود موجود تھا۔ نہایت ہی جوانمردی سے لڑتے ہوئے نواب کے بیٹے اور بیٹی اس جنگ میں شہید ہوئے۔ نواب زخمی حالت میں گرفتار ہوا۔ شقی القلب سکھ سردار نے پگھلی ہوئی چاندی 
نواب کے منہ اور ناک میں ڈلوائی جس سے نواب کی شہادت واقع ہوئی۔ ملتان پر سکھوں کے قبضے سے ظلم و ستم کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا‘ جو مہینوں جاری رہا۔ سکھ فوجیوں نے شہر پر قبضہ کے بعد لوٹ مار شروع کر دی۔ شہریوں کی جائیدادوں پر قبضے کر لیے، بے شمار گھر جلا دیئے گئے، خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں، ہزاروں اہل ملتان قتل کر دیے گئے۔ سکھ فوجیوں نے بربریت کی انتہا کر دی۔ یہ صرف ملتان میں نہیں ہوا۔ پنجاب میں جہاں جہاں مسلمان آباد تھے انہیں تاراج کیا گیا۔ لاہور شہر میں ایسی خونریزی ہوئی کہ الامان۔ کنہیا لال ہندی کی ''تاریخِ لاہور‘‘ پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سکھوں نے اہل لاہور پر کتنا ظلم و ستم کیا اور یہ برسوں پر محیط رہا۔ سکھ سردار ہر چند ماہ بعد لاہور پر ہلہ بول دیتے، قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے بعد واپس چلے جاتے اور چند ماہ بعد یہی سلسلہ دہراتے۔ مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ سکھوں کو 1947ء میں ہندوئوں نے اکسایا اور استعمال کیا۔ ہماری یادداشت من حیث القوم بڑی کمزور ہے اور ہم نے تاریخ یاد رکھنے کا کبھی کشٹ ہی نہیں اٹھایا۔
پنجابی ازم کے نام پر ایک تہذیب، ایک زبان، ایک رہن سہن اور ایک جیسے رسم و رواج کا نعرہ لگانے والوں میں بعض اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ پنجاب کا پہلا پنجابی حاکم راجہ رنجیت سنگھ ان کا ہیرو بن جاتا ہے۔ سکھوں کے عہد میں سب سے زیادہ قتل عام اہل پنجاب کا ہوا‘ اور کسی زبان، تہذیب، رہن سہن اور رسم و رواج کے رشتے سے بالاتر صرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر ہوا۔ راجہ رنجیت سنگھ پنجاب کا نہیں صرف اور صرف سکھوں کا ہیرو تھا اور سکھوں کا ہیرو ہی رہے گا۔ رنجیت سنگھ کو پنجاب کا ہیرو کہنے اور ماننے والے نہ مذہب کے وفادار ہیں اور نہ ہی دھرتی کے۔ راجہ رنجیت سنگھ کو اپنا ہیرو کہنے والے اگر راجہ رنجیت سنگھ اور اس کے بعد سکھوں کے دور کی تاریخ پڑھ لیں تو اپنے نظریے پر خود شرم سے ڈوب مریں۔
ہاں یہ بات الگ کہ جب سے پنجاب میں سکھوں کی سلطنت کی بنیاد پڑی اور لاہور اس کا پایہ تخت بنا، سارا پنجاب لاہور بن کر رہ گیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ کبھی محاورہ ہوتا تھا کہ ''وہ مضبوط ہے جس کا ملتان مضبوط ہے‘‘۔ اب محاورہ بدل گیا ہے۔ اب وہی مضبوط ہے جس کا لاہور مضبوط ہے۔ کبھی اہل ملتان کو تخت لاہور پر قابض راجہ رنجیت سنگھ، اس کی آل اولاد اور فوجی سرداروں کے ہاتھوں استحصال کا سامنا تھا، اب اپنی مقامی قیادت سے لے کر ماڈل ٹائون تک ناانصافی اور استحصال کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔ ملتان جنوبی پنجاب کے ساتھ اپنائے جانے والے عمومی رویے کا نمائندہ ہے۔ غیروں کا کیا ذکر، اہل ملتان کے ساتھ سب سے بڑھ کر ناانصافی اور حقوق غصب کرنے میں اہل ملتان کی قیادت سب سے پیش پیش رہی ہے۔ ملتان کی حالت جیسی کل تھی، ویسی ہی آج بھی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved