میں خدا سے بہت ڈر کر یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ایسے لگتا ہے کہ میں نے کوئی پچاس برس پہلے اُردو غزل کو جہاں لا کر چھوڑا تھا، یہ اُسی گردونواح میں گھوم پھر رہی ہے۔ برادرم شمس الرحمن فاروقی نے آج سے کوئی دس سال پہلے آفتاب سے فون پر کہا تھا کہ میرؔ کے بعد ظفر اقبال ہیں اور جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ 35 سال سے ظفر اقبال کے رنگ میں غزل کہنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بھارتی شاعر پریم کمار نظرؔ نے مجھے لکھا تھا کہ آپ نے بیک وقت تین نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ ایک وہ نسل جو گزر چکی ہے، ایک وہ جو گزر رہی ہے اور ایک وہ جو ابھر رہی ہے۔ عادل منصوری نے لکھا تھا کہ جدید اردو غزل شروع کہیں سے بھی ہوئی ہو، ختم آپ پر ہو رہی ہے۔ عباس تابش کا کہنا ہے کہ ہم 80ء کی دہائی کے شاعروں کو صرف آپ نے متاثر کیا ہے جبکہ آصف فرخی نے اسے مرے ''ان گھڑ مقلدین کا سیلاب‘‘ کہا ہے۔ یہ ساری باتیں مبالغہ آمیز بھی ہو سکتی ہیں۔ اور اگر نہیں تو میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
با ایں ہمہ، مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ میرے ان ''متاثرین‘‘ نے میری غزل کا کچومر تو خوب نکالا ، لیکن اسے آگے نہیں بڑھایا۔ چند ایک کمزور سی مستثنیات کے علاوہ کسی نے اس تردد کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اور جہاں تک میرے نام نہاد رنگ کا تعلق ہے تو میں ایک رنگ پر ٹکا بھی کب ہوں، ادھر ادھر ہی بھاگا پھرتا رہا ہوں، اگرچہ یار لوگ ان کوچوں میں بھی مٹر گشت کرتے رہے حالانکہ میں نے ایک بار لکھا بھی تھا کہ ظفر اقبال تک پہنچنے کی بجائے ظفر اقبال سے آگے کی بات کرو کہ اہل نظر ہی تازہ بستیاں آباد کرتے ہیں!
کچھ لوگوں نے غزل میں نئے اور نامانوس الفاظ کا اضافہ ضرور کیا، لیکن یہ تو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا کہ یہ تو اردو زبان کے اپنے تقاضوں میں سے بھی ایک ہے۔ میرے ساتھ لاکھ اختلاف کیا جائے لیکن میں اس بات پر اصرار کرتا ہی رہوں گا کہ تازگی اور تاثیر کے بغیر کوئی شاعری، شاعری نہیں ہو سکتی۔ عزیزی تصنیف حیدر کا مجموعہ کلام ''نئے تماشوں کا شہر‘‘ ابھی پچھلے دنوں موصول ہوا ہے۔ کتابیں تو ابھی اور بھی میری ''توجہ‘‘ کی طلب گار پڑی ہیں، لیکن اس کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ یہ بالکل ایک نئی آواز ہے، اس کے جو اشعار مجھے زیادہ اچھے لگے ہیں، پہلے وہ دیکھیے:
تو کسی اور طرف جاتی ہوئی رہتی ہے
میں کسی اور طرف آیا ہوا رہتا ہوں
میں اپنے آپ کی جانب کبھی نہیں آتا
تری طرف چلے آنے کا وعدہ کیسے ہو
اک شخص کے اترنے سے بس گئی تھی بستی
دل کے سبھی کنارے آبا دہو گئے تھے
وہ عشق تجھ سے کیا ہے کہ بیشتر اوقات
ہمیں تو بار گزرتی ہے مہربانی تک
ہم اک احاطۂ ظلمت میں گھر کے رہ جائیں
اب اس قدر بھی اُجالا نہ ہو تو بہتر ہے
وہ مجھ کوقرض میں دیتا ہے ایک رات اپنی
اور اس کے بعد کئی دن وصول کرتا ہے
حد ہے کہ خود کو بھولتے جاتے ہیں روز ہم
اور تجھ کو بھولنے کا ارادہ نہیں ابھی
بات کیا ہے کہ خدا بھول گیا ہے مجھ کو
جیسے اس کا کوئی پھینکا ہوا سامان ہوں میں
میں نے تو سیکھنے کی بھی کوشش نہ کی، مگر
وہ شخص اپنے آپ ہی آتا گیا مجھے
رات بھر شمع سا جلتا ہے مری آنکھوں میں
جب اسے ہاتھ لگائوں تو دھواں ہو جائے
یقینا اس کتاب میں عمدہ اشعار اور بھی بہت سے ہیں۔ تا ہم سوال یہ ہے کہ اگر آپ اہلِ اردو کی زبان لکھتے ہیں تو اس کے تقاضے بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوں گے۔ ذیل کے مصرعوں میں جو الفاظ جس طرح استعمال ہوئے ہیں اور ان کے حروف کہاں کہاں گرتے اور دبتے ہیں، ان کی نشاندہی کی ضرورت نہیں، آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں:
اس اختلاف سے باقی وجود' ہمارا ‘ہے
آج کی شام مجھے بھی جیسے ابن 'انشا‘ بنایا ہے
بس ایک رات گزاری تھی اس سے دو'ر ہو‘ کر
یہ رات پہلے کہیں 'استعمال ‘کی ہوئی ہے
میں نے اک رات اس 'عورت‘ کے بھی لب چوم لیے
نصار وسیفی کے ساتھ' عشق ‘وہ بھی سید کو
بھرا پڑا ہے مرا گھر سو اس میں کسی 'طرح‘
اس لیے' ٹہلتا ‘رہتا ہوں سوال کی طرح
یہ زہدُ وہد کا چکر اگر 'سہی‘ ہے تو پھر
لیکن وہ خود' آواز ‘لگائے تو دیکھنا
کہاں سے اب کوئی 'دشتِ اجاڑ‘ میں جائے
شہرزاد آج کی شب حکم ہے 'کہ‘ تیرے سوا
اس ضمن میں ہو سکتا ہے تصنیف حیدر کوئی سندیں بھی پیش کر دیں جبکہ ان کا خیال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ع
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
کتاب دہلی پبلی کیشنز نئی دہلی نے چھاپی اور قیمت 120 روپے رکھی ہے۔
آج کا مقطع
محبت سربسر نقصان تھا میرا ظفرؔ اب کے
میں اِس سے بچ بھی سکتا تھا مگر ہونے دیا میں نے