تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     25-11-2015

اسلامی ریاست

اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں مسلمانوں کی مکمل رہنمائی کافریضہ انجام دیتا ہے۔ اسلام نے جہاں عقائد، معاملات، تہذیب ومعاشرت کے بارے میں احکامات اور ہدایات جاری کیں‘ وہاں سیاسیات کے حوالے سے بھی اصول اور احکامات عطا فرمائے۔ اس سلسلے کی پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ اسلام میں ریاست اور دین میں تفریق موجود نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺنے جہاں بداعتقادی اور معاشرتی بگاڑ کی اصلاح فرمائی وہیں پر آپ ﷺ نے خود مسلمانوں کی پہلی ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی اور مدینہ میں بسنے والے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی مشکلات اور مسائل کے حل کا فریضہ بھی احسن طریقے سے انجام دیا۔ نبی کریم ﷺاللہ کی کتاب اور وحی کی روشنی میں لوگوں کے درمیان فیصلے فرماتے۔ آپ ﷺکا قائم کردہ معاشرہ ایسا مثالی معاشرہ بن گیا کہ جس میں ہر شخص کو امن وسکون حاصل ہو گیا۔ اکثریتی طبقات کے ساتھ ساتھ اقلیتوں اور محنت کشوں کو بھی مثالی حقوق حاصل ہوئے۔اس ریاست میں کسی بھی شخص کو اثر ورسوخ اور مال ودولت کی وجہ سے دوسروں کے حقوق سلب کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حج کی آیت نمبر 41 میں اہل اقتدار کی چارذمہ داریوں کا ذکر فرمایا ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: ''یہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر ان کو ہم دنیا میں حکومت دے دیں تو یہ لوگ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور دوسروں کو نیک کام کرنے کا کہیںاور برے کاموں سے منع کریں۔‘‘ ایک حقیقی اسلامی معاشرے میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے زکوٰۃ و صدقات کو بھی ادا کیا جاتا ہے۔اسی طرح لوگوں کے لیے فائدہ مند کاموں کا حکم بھی دیا جاتا ہے اور نقصان پہنچانے والے کاموں کی مذمت اور روک تھام بھی کی جاتی ہے۔ نبی ﷺ نے ان تمام امور کو غیر معمولی طریقے سے انجام دیا اور اللہ تعالیٰ کی بندگی اور انسانوں کی فلاح وبہبود کا ہر طریقے سے اہتمام فرمایا۔ معروف کی ہر طریقے سے حوصلہ افزائی کی گئی اور قتل وغارت گری، چوری، ڈکیتی، زنا بالجبر، جسم فروشی ، شراب نوشی اور خنزیر کے گوشت کی خریدوفروخت کی حوصلہ شکنی کی گئی ۔
اسلامی قوانین میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نازل کردہ حدود سرفہرست ہیں ۔ان حدود کا مقصد بھی معاشرے میں موجود جرائم پیشہ اور منفی ذہنیت کے حامل افراد کی بیخ کنی تھا۔ کوئی بھی معاشرہ جرم وسزا کے مثالی نظام کے بغیر مستحکم نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ حدود کی شکل میں جرم وسزا کا ایک ایسا مؤثر نظام تشکیل دیا گیا جس کے ذریعے لوگوں کی جان، مال، عزت وآبرو کے تحفظ ضمانت حاصل ہو گئی۔ حدود اللہ کے ناقدین کی نظروں میں یہ قوانین سخت ہیں حالانکہ فی الحقیقت ان قوانین سے امن اور اصلاح پسند افراد کو کوئی خطرہ نہیں۔ زنا کی حد کا مقصدنسب اور عورتوں کی آبرو کا تحفظ ہے، شراب کی حد کا مقصد لوگوں کی عقل اورا من وامان کی حفاظت کرنا تھا، چوری کی حد کا مقصد اموال و املاک کو محفوظ بنانا ہے، اسی طرح قذف کی حد کا مقصد لوگوں کی عزت، ناموس اور وقار کا بچاؤ کرنا ، قانون ِقصاص کا مقصد لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانا ہے۔ آج بھی دنیا کے انہی معاشروں میں امن وامان ہے جہاں جرم وسزا کا مؤثر نظام موجود ہے۔ اسی وجہ سے برطانیہ کے معروف مذہبی رہنما آرچ بشپ آف کینٹر بری ڈاکٹر ولیم روونز نے چند برس قبل سرعام کہاتھا کہ جرائم کی بیخ کنی کے لیے نبی کریمﷺکے لائے ہوئے نظام سے بہتر کوئی نظام نہیں ہے۔
حدود اللہ کے ساتھ ساتھ معاشرے سے معاشی نا ہمواری کے خاتمے کے لیے زکوٰۃ وصدقات کی وصولی وترسیل اور بیت المال کی تدوین کے احکامات جاری کیے گئے۔ ان احکامات پر عمل پیرا ہونے سے سطح غربت میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ نبی کریم ﷺ کی احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کوکسی بھی علاقے کے امرا سے لے کر اسی علاقے کے غربا و ناداروں میں تقسیم کرنی چاہیے تاکہ علاقے کے مسائل علاقے کے امرا کی امداد اور تعاون سے ہی حل ہو جائیں۔ اس حکم پر عمل پیرا ہو کر آج بھی معاشرے کے غریب اور مفلوک الحال افراد کی بحالی کا فریضہ سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ 
زکوٰۃ وصدقات کے ساتھ ساتھ غریب لوگوں کی مالی معاونت کے لیے قرضِ حسنہ کی رغبت بھی دلائی گئی۔ غریب اور ضرورت مند لوگ قرض لے کر اپنی ضروریات پوری کر سکتے ہیںاور جب ان کو توفیق ہو وہ اس قرض کو واپس لوٹانے کے پابند ہیں۔ اگر قرض لوٹاتے وقت کوئی شخص ازخود زیادہ ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہے تو اس کی مرضی پر منحصر ہے لیکن قرض دینے والا شخص یا بیت المال اس سے کسی بھی طور پر اضافی رقم کا تقاضا نہیں کر سکتا۔ اس طریقے سے معاشرے کو سود کی لعنت سے پاک کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اسلامی ریاست کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے مجلس شوریٰ کا تصور بھی قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کے دور کی یاد گار ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ شوریٰ کی آیت نمبر38 میںـ ارشاد فرمایا کہ ''ان کا کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے‘‘ ۔گویا ریاست کے مفادات اور ترجیحات کا تعین کسی شخص یا جماعت کی ترجیح کی بجائے مسلمانوں کی باہمی مشاورت سے ہوتا ہے‘ مجلس شوریٰ کے رکن کے لیے صالح ہونا اور مالی اور اخلاقی بدعنوانیوں سے پاک ہونا ازحد ضروری ہے۔ مغربی جمہوری معاشروں میں اجتماعی مشاورت کا تصور قرآن وسنت کی تدوین کے بہت عرصے کے بعد آیااور اس سلسلے میں بھی وہ درست راستے کا تعین کرنے سے قاصر رہے۔ انہوں نے انسانوں کی عقل کی اجتماعیت کو وحی پر فوقیت دینا شروع کی جب کہ مجلس شوریٰ کی مشاورت کا دائرہ کار پیش آنے والے جدید مسائل کے حل کی منصوبہ بندی تک محدود تھا۔ مجلس شوریٰ کے پاس اس امر کا کوئی اختیار نہیں تھا کہ وہ حرام کو حلال یا حلال کو حرام کرے۔ ایک مسلمان ریاست میں عوام کی رائے کو اللہ کے احکامات پر کسی بھی طور پر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔ ایک اسلامی ریاست میں حکمران ِ وقت کے ناپسندیدہ افعال کی اصلاح کے لیے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا طریقہ موجود ہے اور کسی بھی ناپسندیدہ امر یا پالیسی کو تبدیل کروانے کے لیے آواز ِحق اُٹھانے کی مکمل گنجائش موجود ہے۔ تاہم اسلامی ریاست میں فساد پھیلانے ،انتشار پیدا کرنے اور انارکی پھیلانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ جو لوگ اپنے ذاتی اورگروہی مفادات اور مقاصد کے لیے فتنہ انگیزی اور قتل وغارت گری کرتے ہیں‘ وہ قانون سے بالاتر نہیں اور ان کے احتساب کے لیے قرآن وسنت میں پوری گنجائش اور رہنمائی موجود ہے۔ 
اسلامی ریاست میں کسی بھی حق تلفی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی پوری گنجائش اور اجازت موجود ہے اور معاشرے کا کوئی بھی بااثر فرد خواہ وہ ریاست کا امیر یا سربراہ ہی کیوں نہ ہو‘ عدالت سے بالاتر نہیں ہے۔ اسلام میں ثقہ گواہیوں اور عینی شہادتوں کے حاصل ہو جانے کے بعد مجرم کا تعین کر دیا جاتا ہے اور اس کے جرم کے لحاظ سے اس کو قرار واقعی سزا دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی سفارش کو قبول نہیں کیا جاتا۔ 
قیام پاکستان کا ایک بڑا مقصد اسلام کے سیاسی اصولوں پر عمل پیرا ہونا تھا‘ خوش قسمتی سے قرار دادِ مقاصد اور 73ء کے آئین میں اس امر کی ضمانت دی گئی ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے لیے ہو گی اور ملک میں قرآن وسنت سپریم لاء کی حیثیت رکھیں گے‘ ہر شخص اور ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے گا اور کوئی بھی ادارہ کتاب وسنت اور قانون سے بالا تر نہیں ہو گا۔ دستوری اور قانونی اعتبار سے پاکستان بلاشبہ ایک اسلامی ریاست ہے لیکن عملی اعتبار سے بہت سے مقامات پر اصلاح کی گنجائش موجود ہے۔ اگر پاکستان کی نظریاتی اور عملی جہت ایک ہی ہو جائے تو یقینا پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک مثالی مملکت کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved