تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     25-11-2015

تیسری جنگ کا باضابطہ آغاز؟

فیصلہ کن اقدام ہو چکا ۔تیسری عالمی جنگ شاید اب باضابطہ طورپر شروع ہوچکی ہے۔ ترکی نے اپنی فضائوں میں در آنے والا روسی طیارہ مار گرایا ہے ۔روس کے مزاج میں جارحیت ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ پوری قوت سے پلٹ کر وہ حملہ نہ کرے ۔ یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ فوری طور پرا س کے مضمرات کا درست اندازہ ممکن نہیں۔ ممکنہ طور پر ہم تیسری بڑی جنگ کا مشاہدہ کرنے اور اس کی ہولناکیوں سے گزرنے جا رہے ہیں ۔ 
گزشتہ مہینوں میں جب سے روس نے شام کی جنگ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی تھی ، روسی طیارے ترک فضائوں میں داخل ہوتے ہوئے اس کے اعصاب آزماتے رہے ہیں ۔ شام ، عراق، لیبیا، مصر اور یمن کے بعد ترکی او رسعودی عرب خطے کی وہ طاقتیں ہیں ، جنہیں جنگ سے بہرصورت گزرنا ہے ۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے گزشتہ برسوں میںعراق اور یمن کے ساتھ اپنی وسیع و عریض سرحدوں پر سعودی عرب جدید ترین آلات سے لیس دیو ہیکل باڑ نصب کر رہا تھا ۔اگر وہ جنگ میں اترتا ہے تو بہرحال خطہ بلکہ تمام دنیا کی عسکری صورتِ حال بڑی تیزی سے بدل سکتی ہے ۔ ہمارے لبرل سیکولر طبقات خواہ کورس میں یہ گاتے رہیں ''تجھ کو پرائی کیا پڑی ، اپنی نبیڑ تُو‘‘، یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی مسلمان ریاست اس جنگ سے لا تعلق رہ سکے ۔ 
عالمی طاقتوں سے ایران کے معاہدے ، بتدریج معاشی پابندیوں 
کے خاتمے اور جوہری پروگرام جاری رکھنے کی اجازت کے بعد سے عالمِ عرب میں بے چینی کی بڑی لہریں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ اس سے قبل عراق ، شام اور یمن سمیت خطے میں ایرانی مفادات تیزی سے مستحکم ہوئے ہیں ۔ یمن میں حکومت گراتے ہوئے ، ایران کی قیادت میں سعودی مخالف ممالک نے ایک بڑا وار کیا تھا۔ اس کے بعد سے سعودی اتحادی اس جنگ میں اتر چکے ہیں ۔ دو برس قبل ہی اپنے مضمون میں ، میں نے یہ اندازہ پیش کیا تھا کہ خطے کے حالات تیزی سے بگڑنے کے بعد اب یہ ممکن نہیں کہ استحکام قائم رہے ۔ ایران بظاہر محفوظ و مامون ہے لیکن اب جو جنگ شروع ہونے والی ہے ، اس کے اثرات سے اس کے بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں ۔ 
گزشتہ برسوں میں ترکی کا گھیراتنگ کر دیا گیا تھا۔ ایک عشرے میں ترکی کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے والے رجب طیب اردوعان گزشتہ برسوں میں بڑی تیزی کے ساتھ اخلاقی بدحالی کا شکار ہوئے ۔ اس کا نقطہ آغاز وہ تھا، جب ان کے صاحبزادے نے کاروباری سلطنت قائم کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اپنے مخالفین کے خلاف رجب طیب اردوعان کا روّیہ انتہائی آمرانہ شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ دو بار اقتدار میںرہنے کے بعد متبادل قیادت سامنے لانے کی بجائے وہ ہر صورت اور ہر قیمت پر اپنا شخصی اقتدار قائم رکھنے پر تلے ہوئے تھے ؛حتیٰ کہ انہوں نے ترک آئین کو بدلنے کا ارادہ کیا۔اس طرزِ عمل میں ایک قومی ہیرو سے متنازع کردار تک کا اپنا سفرانہوں نے بڑی تیزی کے ساتھ طے کیا۔ پے درپے سیاسی دھچکوں کے بعد اب ایک بار پھر وہ سنبھلتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ترک معاشرہ بھی اس بات سے آگاہ نظر آتا ہے کہ رجب طیب اردوعان کی قیادت میں ایک مضبوط مرکزی حکومت سے محروم ہونے کا مطلب ہمسایہ ریاستوں کی سی خانہ جنگی ہے ۔ گزشتہ مہ و سال میں، جب مال و دولت اور نہ ختم ہونے والے اقتدار کی آرز ومیں لتھڑے ہوئے رجب طیب اردوعان بلندی سے پستی کا سفر طے کر رہے تھے ، ترک قوم کوغیر معمولی طور پر متحد ہونے کی ضرورت تھی ۔یہی وہ وقت تھا، جب ایک طرف سے دولتِ اسلامیہ اور دوسری طرف سے ایران، شام اور روس کا اتحاد ان کا گھیرائو کر رہا تھا۔ تیسری طرف اسرائیل ہے ، جس کی قیادت کے ساتھ رجب طیب اردوعان طویل تلخی کا شکار رہے ہیں ۔ 
اس اثنا میں روس کے ساتھ یورپی یونین اور امریکی اتحاد کے تعلقات تیزی کے ساتھ بگڑے ہیں۔ یوکرائن میں روس نواز حکومت گراتے ہوئے یورپ کو یقینا یہ اندازہ نہیں تھا کہ حالات اس قدر تیزی کے ساتھ بگڑیں گے ۔ صدر پیوٹن کی قیاد ت میں روسی افواج اپنی سرحدوں سے نکل آئیں۔ کریمیا پر فاتحانہ یلغار کے بعد انہوں نے شام کا رخ کیا، جہاں صورتِ حال انتہائی حد تک پیچیدہ ہے ۔دولتِ اسلامیہ کے فتنے نے اسے پیچیدہ تر کر دیا ہے ۔ بشارالاسد کی قیادت میں شامی افواج کا اتحاد ایران ، عراق اور روس کے ساتھ ہے ۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ موجودہ صورتِ حال میں بشار الاسد اور شامی افواج کی شکست کا مطلب دولتِ اسلامیہ کا اقتدار ہے ۔ یہ وہ صورتِ حال تھی ، جس میں اپنی تمام تر خواہش اور اعلانات کے باوجود امریکہ لیبیا کی طرز پر شام کو تہہ و تیغ کرنے سے باز رہا۔ دولتِ اسلامیہ کی ابتدائی تربیت اور اسے وسائل کس نے فراہم کیے تھے، اس بات سے قطع نظر اب یہ فتنہ کسی کے اختیار میں نہیں ۔ غالباً یہ وہی صورتِ حال ہے ،چند عشرے قبل القاعدہ کی صورت میں عالمی سامراج نے جس کا ایک ناکام تجربہ کیا تھا۔ 
اب ہو گا کیا؟ ترکی ایک بڑی فوجی قوت ہے لیکن وسائل کے اعتبار سے روس کے ساتھ اس کا موازنہ ممکن ہی نہیں ۔ سوویت یونین کی جانشین مملکتِ روس دنیا کی خوفناک ترین عسکری اور جوہری قوت ہے ۔بہرحال عالمی تاریخ ایسی جنگوں سے بھرپور ہے، جہاں کمزور حریف غالب رہا۔ امریکی قیادت میں یورپی عسکری اتحاد نیٹو کیا کرے گا؟ ترک قیادت کے لیے وہ کسی قسم کے نیک جذبات نہیں رکھتامگر خطے میں اگر کسی کو وہ اپنا حریف سمجھتا ہے تو وہ روس ہے ۔ خطے میں روسی عسکری مفادات کا آگے بڑھنا کسی صورت میں اسے گوارا نہیں ۔ روس اگر ترکی کو تہ و تیغ کر ڈالتاہے تویہ یورپ پر اس کے غلبے کا آغاز ہوگا۔ نیٹو اس کا متحمل نہیں ۔ 
آنے والا وقت اس قدر ہولناک ہے ،جس کا تصور ہم نہیں کر سکتے۔ شام سے یمن ، لیبیا ، فلسطین ، عراق اور یوکرائن سمیت کروڑوں لوگ ان خوفناک ترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ پاکستان ، ایران ، سعودی عرب اور ترکی سمیت اب روس ، یورپ اور امریکہ کے اربوں باشندے بھی شاید جلد ہی اس کا نظارہ کریں گے ۔ اہم ترین بات شاید یہ ہے کہ اسرائیل اب کیا کرے گا؟ چھوٹے ٹیکٹیکل ہتھیار اور 3500کلومیٹر تک مارکرنے والے شاہین تھری میزائل رکھنے والا پاکستان کیا کرے گااور جنون پسند نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کیا؟ میرا اندازہ یہ ہے کہ لا تعلقی بہرحال ممکن نہ ہوگی ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved