کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اندازِ حکمرانی پر اعتراض کرنے والے جنرلوں سمیت پوری کی پوری قوم، قائدِ اعظم ثانی اور نیلسن منڈیلا سے معافی مانگے۔ ایسے عظیم اور بے لوث رہنمائوں کی پیہم کردار کشی پر ہم سب کو شرم آنی چاہیے۔
زرداری صاحب کو عدالت نے باعزت بری کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی 1998ء میں نواز شریف حکومت کی طرف سے ان پر عائد کردہ مقدمات کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ اب وہ معصوم عن الخطا ہیں۔ میرؔ درد کی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ؎
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
واضح عدالتی حکم کے باوجود معترضین خاموش رہنے والے نہیں۔ وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ عدالت بیچاری کیا کرتی، جب ثبوت مہیا کرنے والوں نے ثبوت ہی مہیا نہ کیے۔ فوٹو کاپیوں پر جج صاحب کیا فیصلہ صادر کرتے‘ اصل کاغذات ہی جب پیش نہ کیے گئے۔ یہ کاغذات کہاں گئے؟ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ابھی ابھی ایک پولیس افسر سے بات ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ زرداری صاحب کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں دستاویزات چرا لی گئیں‘ یا اب نواز شریف کے دورِ اقتدار میں۔ ان لوگوں کا کیا ہے، مارنے والے کا ہاتھ پکڑا جا سکتا ہے، بولنے والے کی زبان نہیں۔ زرداری صاحب کے وکلا نے عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ الزام تراشی کرنے والوں کو وہ معاف کر دیں گے۔ افسوس کہ اخبار نویس اب بھی بھس میں چنگاری پھینک رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زرداری
صاحب اگر واقعی معصوم ہیں‘ تو وہ نواز شریف اور سیف الرحمٰن اینڈ کمپنی کے خلاف مقدمہ دائر کریں۔ امید ہے کہ عمران خان کے سوا کوئی سیاسی رہنما رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ خیر، ان کی کیا اہمیت۔ جیسا کہ نون لیگ کے معتبر اخبار نویس ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ ان کا تو کام ہی الزام اور دشنام ہے۔ وہ تو نواز شریف جیسے جیّد آدمی کو بھی بدعنوان کہہ دیتے ہیں۔
ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔ انتخابی مہم کے دوران میاں صاحب بار بار یہ کیوں ارشاد کرتے تھے کہ زرداری صاحب نے ملک کو لوٹ کھایا ہے۔ کالا کوٹ پہن کر وہ عدالتِ عظمیٰ کیوں تشریف لے گئے تھے؟ شہباز شریف انہیں علی بابا، چالیس چور کیوں کہا کرتے؟ بار بار یہ کیوں فرماتے کہ اگر انہوں نے اس شخص کو لاہور، لاڑکانہ اور اسلام آباد کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو ان کا نام شہباز شریف نہیں۔ چلیے، الیکشن کے بعد انہوں نے معافی مانگ لی۔ کیا بڑے بھائی صاحب بھی اسی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں گے؟
زرداری صاحب کے دونوں وکلا نے، جن میں سے ایک ان مقدمات کے طفیل پنجاب کا گورنر بنا‘ اور دوسرا سینیٹ کا چیئرمین، اس امید کا اظہار کیا ہے کہ قائدِ اعظم ثانی ایشیا کے نیلسن منڈیلا کی بے گناہی کا اعلان کریں گے۔ ہاں! یہ توقع تو رکھنی ہی چاہیے۔ انہیں ایک بیان جاری کرنا چاہیے کہ سرے محل اور ہیروں کے اس ہار کا کوئی وجود نہ تھا، جن کے مقدمات پر حکومتِ پاکستان نے کروڑوں لٹا دیے۔ وزیرِ اعظم کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ سوئٹزرلینڈ کے کسی بینک میں زرداری صاحب نے 6 کروڑ ڈالر ہرگز نہ چھپا رکھے تھے۔ جدّہ اور لندن میں قیام کے دوران جب بے نظیر بھٹو سے ان کے معاملات طے چکے تھے، بعض اوقات اخبار نویسوں کو وہ بتایا کرتے تھے کہ وہ یہ مقدمات قائم کرنے کے آرزومند نہ تھے‘ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اس ظلم پر مجبور کیا۔ وزیرِ اعظم قوم کو پوری طرح اعتماد میں لینا چاہیں تو مزید وضاحت بھی کر سکتے ہیں۔ قوم کو مطلع کر سکتے ہیں کہ سندھ میں زرداری صاحب کی موجودہ حکومت بھی ہرگز کسی بدعنوانی کی مرتکب نہیں۔ قائم علی شاہ اور ان کے وزرا صوفیوں کا ایک ٹولہ ہیں۔ یہ جو ہزاروں ایکڑ شہر کی زمینیں بانٹ دی گئیں۔ سرکاری ملازمتیں اگر فروخت کی جاتی ہیں۔ لوگوں کے گھروں پر پانی پہنچانے کی بجائے اگر ٹینکر فروخت کے جاتے ہیں۔ سڑکوں پر لاکھوں کے حساب سے جو سائن بورڈ ایستادہ ہیں؛ حتیٰ کہ اخبارات کو اشتہار جاری کرنے میں رشوت ستانی کا جو دھندا ہے، اس کی ذمہ دار بھی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ وہ بتائیں کہ سندھ میں زرداری صاحب کی سترہ عدد شوگر ملیں ان کی نیک کمائی کا حاصل ہیں۔ یہ ان کے اجداد کا ورثہ ہے یا خون پسینے کی آمدن۔ اگر اس میں قباحت کا کوئی پہلو ہے بھی تو اس کے ذمہ د ار جنرل پرویز مشرف، جنرل اشفاق پرویز کیانی یا جنرل راحیل شریف ہیں، جنہوں نے زبردستی یہ ان کے سر منڈھ دیں وگرنہ زرداری صاحب تو درویش واقع ہوئے ہیں۔ قاتلوں کے اس ٹولے، پیپلز امن کمیٹی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کی پشت پر خفیہ ادارے کارفرما تھے۔ شرجیل میمن سمیت وہ سب کے سب پاکباز ہیں۔ دبئی میں سندھی وزرا کے نام پر اربوں روپے کی جائیدادیں ایک سازش کا نتیجہ ہیں۔ جس طرح مخدوم امین فہیم مرحوم کے اکائونٹ میں کسی نے پانچ کروڑ روپے جمع کرا دیے تھے، اسی طرح یہ جائیدادیں بھی دراصل اسٹیبلشمنٹ کے کارندوں نے خریدی ہیں تاکہ سیاستدانوں کو بدنام کیا جا سکے۔ یہ وضاحت بھی کر دیں کہ متحدہ عرب امارات، فرانس، برطانیہ اور امریکہ میں بے نظیر بھٹو شہید اور نیلسن منڈیلا کی خرید کردہ شاندار عمارات کس کی سازش ہیں۔ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کو کس نے دبئی کے کاروباری سمندر میں دھکا دیا‘ اور وہ کون ہے جو شریف خاندان کے نام پر سعودی عرب، امارات اور لندن میں اربوں ڈالر کا دھندا کر رہا ہے۔ یہ داغ دھونے کا وقت ہے‘ سب غلط فہمیاں رفع ہو جانی چاہئیں۔
میرے بھائی دانیال عزیز پرسوں ٹیلی ویژن پر چیخ رہے تھے: ''عدالتوں کو ان ایک ہزار مقدمات کا فیصلہ صادر کرنا چاہیے‘‘ جن میں کوئی سیاستدان ملوث نہیں‘ فقط جنرل ہیں یا کاروباری لوگ۔ ہو سکے تو اس سلسلے کو ایک مہم کی شکل دینی چاہیے تاکہ عوام کے ذہن میں پھیلائے جانے والے زہر کا مداوا ہو سکے۔ انہیں معلوم ہو کہ حدیبیہ پیپر مل کے لیے تیس ملین ڈالر منتقل کرنے کا قصہ محض ایک افسانہ ہے۔ انہیں پتہ چلے کہ اتفاق فائونڈری کے نام پر اربوں روپے کا قرض سترہ سال تک دبائے رکھنا فقط ایک داستان ہے، جو میڈیا کے بد نہادوں نے گھڑی ہے۔ وزیرِ اعظم اور ان کے ساتھیوں کو وہ کہانی بھی بیان کر دینی چاہیے کہ مشرف عہد میں الحاج اسحٰق ڈار کو مجبور کر کے ان سے ایک بیان حاصل کیا گیا، جس میں انہوں نے شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی وہ ساری کی ساری خبریں جھوٹی ہیں، جن میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں وزیر کے گھر سے اربوں روپے برآمد کیے گئے یا لانچوں کے ذریعے دبئی پہنچا دیے گئے۔ اس بیچاری ایان علی کی بے گناہی بھی ثابت ہونی چاہیے، جو بے گناہ پھانسی گئی۔ کسی بدقماش نے اس کے بیگ میں پانچ لاکھ ڈالر ڈال دیے تھے۔ زرداری صاحب سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور پیپلز پارٹی کے چوٹی کے وکیل اس کا مقدمہ انسانی بنیادوں پر لڑ رہے ہیں۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اندازِ حکمرانی پر اعتراض کرنے والے جنرلوں سمیت پوری کی پوری قوم، قائدِ اعظم ثانی اور نیلسن منڈیلا سے معافی مانگے۔ ایسے عظیم اور بے لوث رہنمائوں کی پیہم کردار کشی پر ہم سب کو شرم آنی چاہیے۔