اس وقت دو چیزیں ایسی ہیں جن کی بدولت بھارت دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اول اس ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی‘ جنہیں بھارت کی پانچ سو ملین غیر ہندو آبادی کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے روا رکھی گئی دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے کی بدولت ''ہندو طالبان‘‘ ٹھہرایا جا رہا ہے۔ دوسری وجہ حال ہی میں دہلی کے ایک سابق پولیس کمشنر کی شائع ہونے والی کتاب ہے جس میں یہ دھماکہ خیز انکشاف کیا گیا ہے کہ نائن الیون کے واقعات کی مالی معاونت کا کچھ حصہ بھارت سے گیا تھا۔ نیرج کمار نامی دہلی کے اس سابق پولیس کمشنر نے ساتھ ہی یہ کہہ کر پا کستان کو بھی اس معاملے میں گھسیٹنے کی کوشش کی کہ بھارت میں پکڑے جانے والے دہشت گردوں کی جڑیں پاکستان میں ہیں۔ نیرج کمار کی کتاب کی اشاعت کا یہ وقت تو ذرا ملاحظہ فرمائیے۔ شاید اس طرح کی باتیں کر کے اور یہ اشارے دے کر کہ پاکستان کے دہشت گردوں نے نائن الیون کے واقعات میں مالی معاونت فراہم کی تھی، وہ دنیا کی توجہ ان دہشت گردانہ کارروائیوں سے ہٹانا چاہ رہے ہیں‘ جو بھار ت میں اس وقت اقلیتوں کے خلاف جاری ہیں‘ اور جن کی مودی صاحب از خود حوصلہ افزائی فرما رہے ہیں۔ مودی کا ذکر ہوا تو چلئے پہلے انہی کی بات کر لیتے ہیں۔ برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں انیش کپور نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ''ہندو طالبان‘‘ کہا ہے، کیونکہ مودی لوگوں کی رائے کی آزادی پہ پابندیاں لگا رہے ہیں اور عدم برداشت کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وزیر اعظم مودی کے ایسے اقدامات اور رویّے کے خلاف آواز بلند کرے۔ بھارتی وزیر اعظم مودی کا موازنہ ہندو دیوتا وشنو سے کیا جا رہا ہے۔ بھارت بھر میں ان کی تصاویر آویزاں ہیں‘ جن میں انہیں بڑے شفقت بھر ے انداز میں اپنا دایاں ہاتھ اٹھائے آشیرواد دیتے دیکھا جا سکتا ہے؛ تاہم اس طاقت ور مگر روشن خیال آدمی کے ظاہری تاثر کے پیچھے ایک تلخ حقیقت پنہاں ہے‘ اور وہ یہ کہ اسی آدمی کی زیرِ قیادت بھارت پر ہندوتوا کا تسلط بڑھتا جا رہا ہے۔ ہندوتوا کے پرچارکوں کی ایک زرد پوش فوج ہے جس کی مودی حکومت نے اگر براہِ راست حوصلہ افزائی نہیں بھی کی، لیکن پھر بھی بڑے مؤثر طور پر اسے پنپنے ضرور دیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ بڑی سختی سے نگرانی کر کے متشددانہ طور پر ان لوگوں کی ''اصلاح‘‘ کر رہے ہیں‘ جن پہ انہیں شک ہوتا ہے کہ یہ گائے کا گوشت کھاتے ہیں، یا برادری کے رسم و رواج کی پامالی کر رہے ہیں یا ہندو مت سے غداری کے مرتکب ہیں۔ مودی صاحب کوشش کر رہے ہیں کہ بھارت کو اس خطے میں چین جیسا بنا دیں، یعنی ایک ابھرتی ہوئی عالمی اقتصادی قوت جہاں تجارت اور سرمایہ کاری کے سنہری مواقع ہوں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کاروبار کو انسانی حقوق پہ سبقت حاصل ہو چکی ہے، خاص طور پر ڈیوڈ کیمرون کی حکومت کے لئے، جس نے بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو جارحیت کو بالکل درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ مودی کے ناقدین کو خاموش کرنے کی کوشش میں کئی ایک بھارتی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے‘ اور انہیں ''بغاوت‘‘ کے الزامات میں گرفتار کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ''بھارت میں اس وقت ہندوئوں کی '' طالبانیت‘‘ زوروں پر ہے۔ بھارتی عوام کو کہا جا رہا ہے کہ ہندوتوا کے اسی نقطہ نظر سے اتفاق کیجئے یا پھر نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہیں۔ گزشتہ ماہ مسلمانوں اور دانش وروں پر ہونے والے پُرتشدد حملوں کے بعد درجنوں بھارتی ادیبوں نے بطورِ احتجاج اپنے ایوارڈز واپس کر دئیے ہیں۔ بھارت 1.25 بلین افراد کا وطن ہے‘ جن میں 965 ملین ہندو اور 170 ملین مسلمان ہیں۔ ہم باہمی تحمل اور برداشت کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ اختلافات کے باوجود اپنے اس عظیم ملک کو ہم سب مل کر آگے بڑھاتے آئے ہیں؛ تاہم خدشہ یہ ہے کہ حکومتی حمایت یافتہ اور عسکریت پسندی پر مبنی ہندوتوا دیگر مذاہب کو منجدھار سے دور ہٹا دے گی، اور اس کی بدولت ہماری باہمی قربت ٹوٹتی چلی جائے گی‘‘۔ انسانی حقوق کے حوالے سے مودی حکومت کی کارکردگی کو دنیا دیکھ رہی ہے۔ تبھی تو سابق پولیس افسر نیرج کمار جی ان کی مدد کے لئے دوڑے آئے ہیں۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ موصوف آج کل بی سی سی آئی (دی بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا) کے اینٹی کرپشن یونٹ کے مشیر ہیں۔ وہ سنٹرل بورڈ آف انویسٹی گیشن میں بھی رہ چکے ہیں اور دو سال قبل دہلی کے پولیس کمشنر کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان کی اس کتاب میں جزوی طور پر کوشش یہ کی گئی ہے کہ تانے بانے ملا کر کچھ سازشوں اور رقوم کے اس ترسیلی سلسلے کا ایک جال بُنا جائے‘ جس کی شروعات تو بھارت میں ہوئیں لیکن جڑیں بقول ان کے پاکستان میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ رقم اغوا کے تاوان کے طور پر وصول کی گئی تھی اور نائن الیون کے حملہ آوروں کے چیف محمد عطا کو یہ رقم عمر شیخ نے پہنچائی تھی۔ عمر شیخ انہی دہشت گردوں میں سے ایک ہے‘ جنہیں 1999ء میں انڈین ایئرلائنز کے ہائی جیک طیارے کی واپسی کے بدلے بھارت نے رہا کیا تھا۔ یہ تین دہشت گرد تھے‘ جنہیں قندہار میں یرغمال بنائی گئی انڈین ایئرلائنز کی فلائٹ نمبر814 کے مسافروں کی باحفاظت رہائی کے بدلے 31 دسمبر 1999ء کو جیل سے آزاد کیا گیا تھا۔ نیرج کمار نے ایک پولیس افسر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ معلومات آصف رضا خان نامی حرکت المجاہدین کے ایک اہلکار سے حاصل کی گئی تھیں۔ مبینہ طور پر عمر شیخ کو مذکورہ رقم کلکتہ کے امریکن سنٹر پر حملہ کرنے والے دہشت گرد آفتاب انصاری نے دی تھی۔ آصف رضا خان نے اپنے بھارتی تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ باس آفتاب انصاری نے خادم شوز کے چیئرمین اور مینجنگ ڈائریکٹر پرتھا پراتیم رائے برمن کے اغوا کے تاوان میں ملنے والی رقم عمر شیخ کے ساتھ بانٹی تھی۔ آفتاب انصاری کو دبئی سے واپس بھارت لانے میں نیرج کمار نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ اپنی کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ آفتاب انصاری نے بھارت میں مجاہدین کے کارکن رضا خان برادران یعنی آصف رضا خان اور عامر رضا خان کے ساتھ مل کر کافی کام کیا ہے۔ آصف رضا خان تو بعد میں پولیس حراست سے فرار کی کوشش میں راجکوٹ پولیس کے ہاتھوں سات دسمبر 2001ء میں مارا گیا؛ تاہم عامر رضاخان تاحال پاکستان میں روپوش ہے۔ ''آصف رضا خان نے تسلیم کیا تھا کہ اس نے پاکستان کے مختلف کیمپوں سے جہاد کی تعلیم اور تربیت حاصل کی تھی۔ وہیں ایک کیمپ میں اس نے یہ بھی سنا تھا کہ بھارتی پارلیمان پر حملے کے لئے ایک طریقِ کار وضع کیا جا رہا ہے۔ راجکوٹ پولیس نے یہ معلومات فی الفور متعلقہ ایجنسی تک پہنچا دی تھیں، تاہم ایسا لگتا ہے کہ انٹیلی جنس کی بھول بھلیوں میں یہ کہیں کھو گئیں‘‘۔ نیرج کمار نے یہ بھی لکھا ہے کہ آصف نے مزید یہ بھی بتایا تھا کہ وہ خود آفتاب انصاری کے ہمراہ بہاولپور، پاکستان میں واقع لشکر کے ہیڈکوارٹر بھی گیا تھا‘ فروری 2000ء میں آفتاب انصاری‘ اعظم چیمہ سے بھی ملا تھا جو بھارت میں لشکر طیبہ کا لانچنگ کمانڈر ہے۔ ہمارا اغلب گمان یہی ہے کہ نیرج کمار کی یہ کتاب پاکستان میں دستیاب نہیں ہو گی۔ یہ ایک بڑی پیچیدہ کتاب ہے، اس کے تمام کرداروں کے نام اسلامی ہیں اور سبھی دہشت گردی سے وابستہ ہیں۔ خاص طور پر عمر شیخ، جسے راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا تھا اور اس وقت وہ اپنی عمر قید کاٹ رہا ہے۔