تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     27-11-2015

بلوچستان سے حوصلہ افزا اطلاعات

گذشتہ چند ماہ سے بلوچستان سے متعلق خوشگوار اور حوصلہ افزا اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ایک حالیہ بیان کے مطابق صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال پہلے سے بہتر ہے ‘اور تمام سٹیک ہولڈرز‘ جن میں دفاقی حکومت،فوج اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں شامل ہیں،کی رضا مندی سے''ناراض بلوچوں‘‘کو منانے اور اْنہیں قومی سیاست کے دھارے میں واپس لانے کی جو کوششیں جاری تھیں،اْن کے بارآور ہونے کے شواہد سامنے آرہے ہیں۔رواں ماہ کے اوائل میں بلوچستان میں سدرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض نے کوئٹہ میں ایک بیان میں انکشاف کیا تھا کہ ناراض بلوچ رہنمائوں سے رابطے قائم ہوچکے ہیں اور آئندہ دوماہ میں مثبت نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔اْنہوں نے تو بلکہ دعویٰ کیا تھا کہ بلوچستان میںبغاوت ''Insurgency‘‘ختم ہوچکی ہے اور اب مسلح گروپوں کی صرف اِکادْکا رروائیاں جاری ہیں۔جنرل عامر ریاض کے بیان کے چار پانچ دن بعد بلوچ ریپبلکن آرمی کے رہنما اور نواب اگبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی نے بھی ایک بیان میں تصدیق کی تھی کہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل(ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ نے اْن سے جنیوا میں ملاقات کی تھی تاہم اسی بیان میں اْنہوں نے کہا تھا کہ ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت صحیح معنوں میں بااختیار نہیں اور ناراض بلوچ رہنمائوں کے ساتھ بات چیت کا مینڈیٹ اْن کے پاس نہیں۔براہمداغ بگٹی نے اپنے ایک سابقہ بیان کو دہراتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی اور آزادی کے مطالبے سے دستبردار ہونے اور بات چیت کیلئے تیار ہیں بشرطیکہ وہ حلقے‘ جن کے ہاتھ میں اصل اختیار اورطاقت ہے‘آگے بڑھیں اور ہمارے ساتھ بات چیت کریں۔اپنے ایک تازہ ترین بیان میں‘ جو اْنہوں نے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل پر ایک انٹرویو میں دیا‘ اْنہوں نے بتایا کہ اْنہیں چیف آف دی آرمی سٹاف راحیل شریف کا پیغام موصول ہوا ہے جو یقینا بلوچستان کے مسئلے کو بات چیت اور سیاسی طریقے سے حل کرنے کیلئے فوج کی حمایت کی یقین دہانی پر مشتمل ہوگا۔ براہمداغ نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ اْنہوں نے بات چیت شروع کرنے کیلئے چند شرائط رکھی ہیں‘اب اْنہیں ان شرائط کے بارے میں حکومت کے جواب کا انتظار ہے۔
بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں تو تقریباً ایک دہائی سے جاری ہیں‘ لیکن اس کی طرف سے ٹھوس پیش رفتہ کی اطلاعات کا سلسلہ گزشتہ اگست میں شروع ہوا تھا جب براہمداغ نے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگربلوچستان کے عوام راضی ہیں تو وہ صوبے کی علیحدگی اور آزادی کے مطالبے سے دستبردار ہونے کوتیار ہیں۔اس بیان میں اْنہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ ہم سیاستدان ہیں اور سیاسی طریقے سے مسائل کو حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں،بلوچستان کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔لیکن اس کیلئے اْنہوں نے شرط عائد کی تھی کہ وہ صرف فوج سے مذاکرات کریں گے کیونکہ صوبائی حکومت بااختیار نہیں۔بلوچ رہنما کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا تھا کہ اْن کی حکومت مکمل طور پر بااختیار ہے اور بات چیت کیلئے عسکری اور سیاسی قیادت ایک ہی صفحے پر ہے۔
اگرچہ حکومت اور بلوچ رہنمائوں کے درمیان باقاعدہ بات چیت کے راستے میں ابھی بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں اور مسئلے کے جلد حل کی توقع نہیں کی جاسکتی لیکن ملک میں جمہوریت کے قیام کے بعد گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے بلوچستان میں جاری مسلح جدوجہد کو بات چیت کے ذریعے ختم کرنے کے امکانات پہلے کے مقابلے میں زیادہ روشن نظر آتے ہیں۔اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے پْرامن طریقے سے حل کرنے پر مکمل قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔اس اتفاق رائے کا اظہار اکتوبر 2012ء کی قومی اسمبلی کی ایک متفقہ قرارداد کی شکل میں موجود ہے‘ جس میں پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی کرنے والی پارٹیوں کے ارکان پر مشتمل ایک کمیشن کے قیام کی سفارش کی گئی تھی۔ اس کمیشن کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ناراض بلوچ رہنمائوں کے ساتھ رابطہ قائم کرکے اْنہیں منا کر قومی سیاست کے دھارے میں واپس لانے کی کوشش کرے ۔بلوچ عوام کی شکایات اور اب تک اْن کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اورناانصافیوں کے ازالے کیلئے سفارشات مرتب کرنے کا فرض بھی اسی کمیشن کو سونپا گیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے سابقہ دورِ حکومت میں یہ قرارداد حزب مخالف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ(ن)کی طرف سے پیش کی گئی اور قومی اسمبلی نے اسے متفقہ طور پرمنظور کیاتھا۔ بلوچستان کی صورتِ حال میں حوصلہ افزا تبدیلی لانے میں دوسرا اہم کردار پاکستان مسلم لیگ(ن)کی موجودہ منتخب جمہوری حکومت نے ادا کیا ہے۔اگر وزیراعظم محمد نوازشریف چاہتے تو صوبے میں اپنی پارٹی کی حکومت بناسکتے تھے کیونکہ صوبائی اسمبلی میںمسلم لیگ(ن)کے ارکان کی تعداد باقی پارٹیوں کے ارکان سے زیادہ ہے‘لیکن اْنہوں نے اتفاق رائے کی بنیاد پر ایک مخلوط حکومت تشکیل دینے کو ترجیح دی اور اس حکومت کی سربراہی ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دی جو کوئی بڑاقبائلی سردار نہیں،بلکہ اس کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ خود نیشنلسٹ پالٹیکس کرچکے ہیں‘ اس لیے نیشنلسٹوں کے ساتھ رابطہ کرنے اور اْنہیں ہتھیار پھینک کر بات چیت پر آمادہ کرنے کیلئے اْن سے بہترکوئی شخص نہیں ہوسکتاتھا۔اْن کے ساتھ جنرل(ریٹائرڈ) عبدالقادر بلوچ کی شمولیت بھی اسی لحاظ سے خوش آئند اور مفید ہے کیونکہ جنرل بلوچ خودبلوچ ہونے کے علاوہ کوئٹہ کے کورکمانڈر اور صوبے کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔بلوچستان کے بارے میں سابق صدر پرویز مشرف کی پالیسیوں سے وہ متفق نہیں تھے‘اور انہی اختلافات کی بنا پر اْنہوں نے صوبائی گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔وہ نہ صرف بلوچستان کے حالات اور عوام کو درپیش مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں بلکہ مسئلے کو بات چیت کے پُرامن طریقے سے حل کرنے کے حامی بھی ہیں۔وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے صوبے کو ایک صاف ستھری اور بدعنوانی سے پاک حکومت فراہم کرکے اور سب کوساتھ لے کر حالات کو بہتر بنانے میں بہت اہم کرداراداکیا ہے۔
بلوچستان کے حالات کو بہتر بنانے میں حکومت،فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان بہتر اشتراک اور تعاون کا بھی بڑادخل ہے۔ماضی میں فوج اور ایف سی صوبائی حکومت کو دہشت گردوں اور ہتھیاربند جنگجوئوں کے خلاف جنگ میں اپنا ساتھی سمجھنے کی بجائے راستے کی رکاوٹ سمجھتی تھیں۔دوسری طرف سردار اسلم رئیسانی کی حکومت ایف سی پر صوبے میں ایک متوازی حکومت چلانے کا الزام عائد کرتی تھی‘لیکن گزشتہ ڈھائی برسوں میں صورتِ حال میں نمایاں بہتری آئی ہے‘اور اس کا کریڈٹ سیاسی اور عسکری قیادت دونوں کو جاتا ہے۔وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت نے امن و امان کے قیام میں فوج اور ایف سی کو مکمل تعاون فراہم کیا اور عسکری قیادت نے بھی صوبائی حکومت،پولیس اور سول سوسائٹی کے کردار کا اعتراف کیا۔بلوچستان میں سدرن کمانڈ کے سابق کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل(ریٹائرڈ)ناصر خان جنجوعہ کا کردار اس ضمن میں خصوصی طور پر قابل ذکر ہے۔اْنہوں نے نہ صرف اپنی تقاریر اور بیانات کے ذریعے بلوچستان کے نوجوان طبقے کو تعمیری اور حْب الوطنی پر مبنی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کر نے کی تلقین کی،بلکہ ہتھیار بند اور ناراض بلوچ نوجوانوں سے مسلح جدوجہد کا راستہ چھوڑ کر قومی تعمیر اور ترقی کی راہ اپنانے کی اپیل بھی کی۔اْن کی اس اپروچ کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا ہے۔اس کا ثبوت سینکڑوں کی تعداد میں سابق بلوچ جنگجوئوں کا ہتھیار پھینک کر پْرامن شہریوں کی طرح زندگی گزارنے کا فیصلہ ہے۔جنرل ناصر خان‘ جو اب وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے فرائض اداکررہے ہیں‘کے کردار کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اْنہوں نے بلوچستان میں امن و امان کی بہتر صورتِ حال کا کریڈٹ سب کو دیا ہے۔ اْن کے جانشین جنرل عامر ریاض نے بھی بلوچستان میں حالات کو بہتر بنانے میں فوج کے علاوہ صوبائی حکومت اور پولیس کے کردار کا اعتراف کیا ہے۔
حکومتی نمائندوں اور ناراض بلوچ رہنمائوں کے درمیان رابطے قائم ہونے کے بعد دونوں طرف سے جو مثبت ردِعمل سامنے آرہا ہے اْس کے پیش نظر باقاعدہ ڈائیلاگ کی جلد اْمید کی جاسکتی ہے‘لیکن بلوچستان کا مسئلہ ایک دیرینہ اور پیچیدہ مسئلہ ہے‘اور اس کے مکمل اور تسلی بخش حل کی جلد توقع نہیں کی جاسکتی۔اس لیے کہ اصل مسئلہ وفاق اور بلوچستان کے درمیان حائل عدم اعتماد کی ایک وسیع خلیج ہے‘ جسے ماضی کے حکمرانوں نے بلوچیوں سے کیے گئے وعدے پورے نہ کرکے پیدا کیا۔جب تک عدم اعتماد کی اس خلیج کو ختم نہیں کیا جاتا،بلوچستان کا مسئلہ حل طلب رہے گا ۔اس کیلئے حکومت کی طرف سے اعتماد سازی کے مزید اقدامات کی ضرورت ہے‘ جو مسلح جدوجہد میںمصروف بلوچوں کیلئے عام معافی اور فوجی آپریشن کے فی الفور خاتمہ کی صورت حال میں ہوسکتا ہے۔پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی کامیابی کیلئے بلوچستان میں امن کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔اس کیلئے ضروری ہے کہ گزشتہ چھ دہائیوں سے چلے آنے والے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرکے بلوچیوں کو بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح اعتماد کے قابل‘ اور برابر کے شہری سمجھا جائے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved