جن دہشت گردوں نے ممبئی اور نئی دہلی میںبھارتی عوام کے خلاف مسلح کارروائیاں کیں‘ درحقیقت وہ داعش کے پیشرو تھے۔ القاعدہ اور داعش ‘ دونوں ایک ہی طرح کے مقاصد کے لئے بنائی گئیں اور ایک مخصوص تاریخی عہد میں‘انہوں نے اپنے اپنے ذمے لگائے ہوئے کام انجام دیئے۔ القاعدہ کی پراسرار تنظیم کیسے معرض وجود میں آئی؟ تباہ کاری کا سب سے بڑا معرکہ اس نے کہاں انجام دیا؟ اور نتائج کہاں برآمد ہوئے؟ اس کا جائزہ نہ ہماری حکومت نے لیا نہ مذہبی سکالرز نے۔ جب اجتماعی جذبات کو بھڑکانے والے عناصر‘ اپنی کمیونٹی کی طرف سے اشتعال انگیز واقعات کا ارتکاب کر کے‘ اجتماعی ردعمل کو حرکت میں لانے کا ذریعہ بنتے ہیں‘ تو آنکھیں بند کر کے فیصلہ کر لینا چاہیے کہ وہ کسی ایسی طاقت کے ایجنٹ ہیں‘ جو بظاہر کسی کمیونٹی کی حمایت کی دعویدار ہوتی ہے اوردرحقیقت وہ اسی کمیونٹی کی تباہی کے حالات پیدا کرتی ہے۔ جب اسامہ بن لادن کو اچانک ایک مذہب کے پیروکاروں کا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا‘ تومذہب کے نام پر ایک جنونی کیفیت پیدا کر دی گئی تھی۔ اسامہ کو ایک مذہبی ہیرو کا درجہ دے کر‘ بڑی طاقتوں کے اس سلوک کا جواب سمجھا گیا‘ جو ان کے پٹھو حکمرانوں کے طرزعمل سے تنگ آئے ہوئے تھے اور ان کی جذباتی سوچ نے انہیں قائل کر لیا کہ وہ امریکہ اور اس کے حواریوں کے خلاف‘ اپنے مجروح جذبات کا حساب چکا رہے ہیں۔ کوئی یہ سوچنے کو تیار نہیں تھا کہ اسامہ صاحب آئے کہاں سے؟ کارنامہ کیا انجام دیا؟ مسلمانوں کو فائدہ کیا پہنچایا؟ ستم ظریفی یہ کہ پاکستان کے اس وقت کے حکمران بھی جذبات کی اندھی لہروں میں بہہ کر وہی پالیسی اختیار کر بیٹھے‘ جو اسامہ کو بطورکٹھ پتلی کے استعمال کر رہے تھے۔
پاگل پن اور جنون کی ایک ایسی لہر تھی‘ جس میں ہر مسلمان بہہ گیا ۔ جس نے بھی نیویارک میں کئے گئے وحشیانہ کھیل کی مذمت کی ‘ اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مجھے ان سارے مظلوم لکھنے والوں اور بولنے والوں کے المیے یاد آ رہے ہیں‘ جنہیں اسامہ بن لادن کی مخالفت کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی زندگیاں اجیرن کی گئیں۔ ان پر گولیاں چلائی گئیں۔ ان کے گھر جلائے گئے اور نتیجہ کیا نکلا؟ اسلام سے محبت کرنے والے سادہ لوح انسان ‘ احساس ہزیمت کا شکار ہو کرحوصلے ہار بیٹھے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ‘ وہ نوجوان جو اسامہ کی لہر کی لپیٹ میں آ کر‘ مغربی دنیا کو تباہ کرنے پر تل گئے تھے‘ آج ان کی جذباتی کیفیت کیا ہے؟ ان کا جوش و خروش کیوں ختم ہو گیا؟ انہیں اپنی توانائیاں صرف کرنے کے راستے کیوں دکھائی نہیں دے رہے؟ اسامہ کو جن مسلمانوں کاہیرو بنا کر پیش کیا گیا ‘ ان کی دہشت گردی اور انجام کے نتیجے میں‘ حوصلہ شکنی کس کی ہوئی؟ نقصان کس کو پہنچا؟ اب مجھے یہ باتیں سمجھانے کی ضرورت نہیں رہ گئی۔ حقائق اپنا وجود خود منوا لیتے ہیں اور جذبات کے اس طوفانی دور سے نکل آنے کے بعد‘ اب اسامہ کے پرستاروں کی حالت کیا ہے؟ جس امریکہ کے خلاف وہ نفرت و حقارت کے جذبات بھڑکا رہے تھے‘ آج ان کے ضرورت مند بھائی بندوں کو امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں ملتی‘ جہاں 9/11 کے واقعات سے پہلے وہ آسانی سے جا کر ‘ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے اچھی زندگی تلاش کر لیا کرتے تھے۔ آج دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے بیروزگار بچے بھٹکتے پھر رہے ہیں‘ جو کبھی مغرب میں جا کر اپنی محنت کی اجرت حاصل کر لیا کرتے تھے۔ ہمارے کئی معاشروں میں تویہ حالت ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ ہنرمند اور تعلیم یافتہ نوجوان کے لئے بھی روزگار دستیاب نہیں اور وہ اگر بھوک اور بیروزگاری سے بچنے کے لئے دنیا میں کہیں اور جانا چاہے‘ تو اسے ایسے گناہوں کی سزا بھگتنا پڑتی ہے‘ جن کا اس نے ارتکاب ہی نہیں کیا۔ مغربی معاشروں میں بسنے والے تمام مسلمان ‘بلاامتیاز شک و شبے کا نشانہ بن گئے۔ ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں میں‘ اظہار نفرت کے جاہلانہ طریقے متروک ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود وہاں پرتہذیب کے نچلے درجوں میں رہنے والے‘ اپنے گھٹیا جذبات کے اظہار سے نہیں چوکتے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں روزی کمانے کے لئے گئے ہوئے‘ ان گنت مسلمانوں کو محض اسامہ کے نام سے دہشت گردی کرنے والوں کے جرائم کی سزا ‘ نفرت اور بے عزتی کی صورت میں بھگتنا پڑتی ہے۔ خدا خدا کر کے اسامہ کی لہر ختم ہونے لگی تھی کہ اب داعش پیدا کر دی گئی ہے۔
یہ اسامہ کے تجربے کو دہرانے کا نیا منصوبہ ہے۔ میں کسی شک و شبے میں مبتلا نہیں کہ داعش پورے مغربی بلاک کی مشترکہ پیداوار ہے۔ اسے کسی مذہبی نعرے پر طاقت حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ مذہب کے نہایت ہی دقیانوسی نظریات کے تحت ‘طاقت پکڑ رہی ہے۔ بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ دنیا میں اتنے جاہل اور انتہاپسند لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پہ رکھ کر‘ تشدد کی راہ کیوں اختیار کر رہے ہیں؟ یہ داعش کچھ بھی نہیں اور اس کا امیر البغدادی‘ اسامہ کی طرح ہیرو بھی نہیں۔ وہ ایک مخصوص حلقے میں ‘ پیسوں کے ذریعے خریدے ہوئے ‘اپنے حامیوں کو اسلام کے مسخ شدہ تصورات سے بہکاتا اور ان سے بدترین جرائم کا ارتکاب کراتا ہے۔ وہ انتہاپسند وہابی طرز کے خیالات کا پرچار کرتا ہے۔ اسے ہتھیاروں کے ذخیروں پر قبضہ کرنے کے لئے‘ سہولتیں مہیا کی گئیں۔ شام اور عراق کے ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے مواقع فراہم کئے گئے‘ جن کا کچھ حصہ تیل کی دولت سے مالامال تھا۔ یہ حیرت انگیز واقعہ ان لوگوں کے لئے ‘بے حد تکلیف دہ ہے‘ جو مسلمانوں سے مذہب کی بنیاد پر ہمدردی رکھتے ہیں اور اب داعش کے کمانڈروں کی جذباتی فرمانبرداری کر کے وحشیانہ حرکات کررہے ہیں ۔ داعش کے پاس دوسرا حربہ فریب کاری کا ہے۔ وہ مذہب کے مقدس نام پر ‘ دنیا بھر میں مسلمان
نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہے۔ بیشتر حالات میں بیروزگاروں کو بھاری تنخواہوں کا لالچ دے کر‘ اپنے علاقے میں لے جاتی ہے۔ ان بدبختوں نے فریب کاریوں کے ایسے ایسے جال بنے ہیںکہ بہت سے خاندان اپنی سادہ لوحی میں اسلام کی خدمت کرنے کے لئے داعش کے علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔ ان میں نوجوان لڑکیاں اور درمیانی عمر کی خواتین بھی ہوتی ہیں۔ وہاں پہنچنے کے بعد کس کا کیا حال ہوتا ہے؟اس کی تفصیل بیان کرنا بھی باعث آزار ہے۔ صرف اتنا بتا دیتا ہوں کہ داعش کے فریب میں آ کر‘ اس کے علاقوں میں جانے والوں کی زندگی غلاموں سے بدتر ہو جاتی ہے۔ ان کے پاسپورٹ جلا دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ کہیں جانے کے قابل نہ رہیں۔ عورتوں اور بچیوں کو گھٹیا جذبات کی تسکین کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ نوجوانوں اور ادھیڑ عمر کے افراد کو‘ انسانیت سے گرے ہوئے کاموں پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بغدادی کے پسندیدہ افراد کی تعداد زیادہ نہیں۔ لیکن انہیں خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔ وہ سب اعلیٰ ترین اسلحہ سے لیس ہیں۔ دنیا بھر سے بھرتی حاصل کرنے کے لئے‘ داعش میڈیا کا زبردست استعمال کر کے‘ سادہ لوح نوجوانوں کو گمراہ کرتی ہے۔ اصل واقعات کی روشنی میں اگرداعش کی جڑوں کا تجزیہ کیا جائے‘ تو صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ سامراجی قوتوں کی پیداوار ہے۔ اس نے اپنے پیدا کرنے والوں کے اصل مقاصد پورے کرنے کے سلسلے میں ‘فرانس میں ابتدائی اقدام کیا ۔ ایسی مزید اشتعال انگیزیاں کی جائیں گی اور ان کے جواب میں ترقی یافتہ قوتوں کے تیار شدہ منصوبوں پر عمل کیا جائے گا۔ تیل کی دولت سے مالامال علاقوں کی قریباً ساری حکومتوں کو متزلزل کیا جا چکا ہے۔ اب ان کے خاتموں کا سلسلہ شروع ہو گا اور عبرتناک تباہیوں کے بعد‘ وہاں کوئی نظام مسلط کیا جا سکتا ہے۔ غیرمستحکم علاقوں پر قبضوں کے لئے ‘ترقی یافتہ ملکوں میں باہمی جھگڑے بھی ہو سکتے ہیں۔ مسلمان ملکوں کے بعد‘ بھارت آبادی کے درمیان فسادات اور نفرتوں کے اعتبار سے دوسرا بڑا خطہ ہے۔ مسلمانوں میں فرقہ واریت کی بنیاد پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح کے جذبات بھارت کے اندر بھی موجود ہیں۔ اس بدنصیب ملک کے حکمران طبقے تاریخی تعصبات کو اپنے اقتدار کا ذریعہ بناتے ہیں۔ کانگریس محتاط اور عیار کھلاڑی تھی۔ لیکن مودی ٹولہ کسی احتیاط کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ ہمارے دونوں طرف ‘آگ کے شعلے بلند ہونے والے ہیں۔ پچھواڑے میں شرق اوسط اور اگاڑی میں بھارت ہے۔ صرف چین ایک ایسا ملک ہے‘ جو تباہی کے اس خطے پر حکمرانی کے لئے ‘بڑا حصہ لے گا۔ نئے نظام کی نوعیت کیاگی؟ اس کا فیصلہ دنیا پر‘ قبضہ کرنے والے طویل مدتی سمجھوتوں سے کریںگے۔ ایک نیا عالمی کارپوریٹ سیکٹر وجود میں آئے گا۔ حکمرانی کی نئی عالمی مشینری تیار ہو گی۔ عہد حاضر میں دوسرے درجے کی ترقی یافتہ قومیں‘ نئے نظام کے انتظامی امور سنبھالیں گی اور مالکانہ حقوق تین سپرپاورز کے پاس ہوں گے.... امریکہ‘ روس اور چین۔ بھارت کو دوسرے درجے کی طاقتوں میں بھی کوئی مقام نہیں مل پائے گا۔