تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     28-11-2015

دہشت گردی کے کچھ انجانے پہلو

پیرس حملے کے بعد توجہ دینا ضروری ہو گئی ہے کہ جس دہشت گردی کے خلاف دنیا کے سبھی ممالک ایک جٹ ہو رہے ہیں‘ اس کی اصلی صورت کیا ہے اور اس کے پھیلنے کے اسباب کون کون سے ہیں؟ یہ جاننا بھی بہتر رہے گا کہ کیا یہ سب مغربی ممالک اس دہشت گردی کو ختم کر سکیں گے؟ اکیسویں صدی کے باقی وقت کی دنیا کیا دہشت گردوں سے پاک رہ سکے گی؟
جس دہشت گردی سے ساری دنیا پریشان ہے‘ اسے اسلامی دہشت گردی کہا جاتا ہے ۔ کیا حقیقت میں یہ دہشت گرد اسلامی ہیں؟ ممکن ہے اس دہشت گردی کی ابتدا مسلم ملک میں ہوئی ہو‘ لیکن اس دہشت گردی کا ناچ کچھ غیرمسلم ممالک میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس جیسے ملک بھی اس کی چپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ اب داعش نے باقاعدہ اسلامک سٹیٹ‘ کے ایک خلیفہ کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کا نام ہے ابوبکر البغدادی۔ شام کے ایک شہر کو انہوں نے اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنا لیا ہے۔ شام اور عراق کے کئی حصوں پر 'داعش‘ نے قبضہ جما لیا ہے۔ عرب اور افریقہ کے کئی ممالک میںاس تنظیم کے لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑ رہے ہیں۔ ان کی مدد کیلئے فرانس‘امریکہ‘ برطانیہ‘ مصر اور دوسرے ممالک کے سیکڑوں جوان شام اور عراق پہنچ گئے ہیں۔ 
اصلیت یہ ہے کہ ایسی تنظیمیں نام تو اسلام کا لیتی ہیں لیکن یہ قائم ہوئی ہیں اپنے اندرونی‘ باہمی اور بین الاقوامی جھگڑوں کے سبب۔شام میں کچھ قوتیں بشارالاسد خاندان کو ہٹانا چاہتی ہیں۔ اس پر تانا شاہی‘ لوٹ‘ بدعنوانی اور ظلم کرنے کے الزام ہیں۔ علاوہ ازیں بشارالاسد روس کی طرف داری کرتے ہیں اور خطے کے کچھ ممالک یہ چیز برداشت نہیں کرسکتے۔ مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک کے مفاد امریکہ‘ فرانس اور انگلینڈ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں‘ اس لئے ان سارے ملکوں نے مل کر 'داعش‘ کے چھاپہ ماروں کے لئے کروڑوں ڈالر اور اسلحہ فراہم کیا تاکہ وہ اسد کا تختہ پلٹ کر سکیں۔ شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے تین لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں اور لاکھوں لوگ وہاں سے بھاگ کر دوسرے ملکوں میں پناہ 
لے رہے ہیں۔ اب شام کے باغیوں پر روس بم برسا رہا تھا۔ دوسرے الفاظ میں لڑائی روس اور امریکہ لڑ رہے ہیں‘ زمین شام کی ہے اور نام اسلام کا ۔ امریکہ اور روس کا اسلام سے کیا لینا دینا؟ ان کا ہدف تو تیل پر قبضہ کرنا ہے۔ اسی طرح جو نوجوان اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں‘ انہیں اسلام کے نام پر گمراہ کیا جا رہا ہے۔ داعش اور القاعدہ کے جن بڑے سرغنوں کو ابھی تک پکڑا گیا ہے‘ ان کے نجی برتائو کے کئی پہلو ایسے ہیں‘ جو اسلام کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہیں۔ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ کسی ایک بے قصور آدمی کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ! کیا آپ نے کبھی سوچا کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مرنے والے ہزاروں افراد میں سے کتنے قصوروار ہوتے ہیں اور کتنے بے قصور؟ جنہیں دہشت گرد قصوروار مانتے ہیں وہ ان کی پرچھائیں تک بھی نہیں پہنچ سکتے؟ کیا کوئی دہشت گرد آج تک صدام حسین یا کرنل قذافی یا حامد کرزئی یا بشارالاسد تک پہنچ سکا؟ جو بیچارے مارے جاتے ہیں‘ وہ بے قصور ہوتے ہیں اور زیادہ تر مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ پیرس میں بھی آٹھ دس مسلمان مارے گئے اور افغانستان اور پاکستان میں کون سے ہندو‘ یہودی یا عیسائی مارے جاتے ہیں۔ کیا کوئی سچی اسلامی جماعت کبھی مسلمانوں کا اس طرح قتل عام کر سکتی ہے؟ 
یہی بات ان گورے ممالک پر بھی نافذ ہوتی ہے۔ امریکہ‘ فرانس‘ جرمنی اور انگلینڈ جیسے ملکوں نے کس کس ملک میں چھاپہ ماروں‘ دہشت گردوں اور باغیوں کی پشت نہیں ٹھونکی ہے؟ ریگن‘ بش اور کلنٹن کے زمانے میں امریکہ دہشت گردی کا سب سے بڑا گڑھ رہا۔ صدام حسین‘ قذافی‘ نجیب اللہ کے قتل کس نے کروائے؟ اسامہ بن لادن کو کس نے کھڑا کیا؟ مجاہدین‘ طالبان‘ داعش اور القاعدہ کو کس نے پالا پوسا؟ یہ ساری قاتل جماعتیں مغربی ملکوں نے کھڑی کی تھیں۔ اب میاں کی جوتی میاں کے سر ہی بج رہی ہے۔
جب کسی غیریورپی ملک پر دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تو عظیم قوتیں زبانی جمع خرچ کر کے چپ ہو جاتی ہیں لیکن پیرس کے حملے نے انہیں پہلی بار ایک کردیا ہے۔ وہ اپنے باہمی اختلافات بھول کر اب اسی طرح ایک جُٹ ہو رہی ہیں‘ جیسے 75 برس پہلے وہ ہٹلر کے خلاف ایک جُٹ ہوئی تھیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیرس کے سوا سو افراد کی جانیں دیگر ممالک کے ہزاروں افراد کی جانوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔ جو بھی ہو‘ یہ رنگ میں فرق کرنے والا عمل داعش کو کچل تو سکتا ہے لیکن یہ دہشت گردوں کا عارضی علاج ہے۔ جب تک بڑی طاقتیں دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں سیدھی مداخلت بند نہیں کریں گی‘ کسی نہ کسی شکل میں دہشت گرد ابھرتے رہیں گے۔ بڑی طاقتوں کو وسطی ایشیا میں شیعہ اور سنی کے اختلافات کو بھی نہیں ابھارنا چاہیے۔ جیسے اوباما اور پیوٹن ترکی میں گلے مل لیے‘ ویسے مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی باہمی دشمنی بھول کر اچھے تعلقات کیوں نہیں قائم کر سکتے؟ اس معاملے میں فرانس کے صدر اولاند اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ چاہیں تو بڑی قوتوں کی سیاست اور اسلامی سیاست کے ٹوٹے تاروں کو جوڑنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ 
غیر ملک میں بولیں ذرا سنبھل کر!
منی شنکر ایر اور سلمان خورشید پر بھاجپائی اور کانگریسی دونوں ہی لال پیلے ہو رہے ہیں۔ چینلوں اور اخباروں کی چاندی ہو گئی ہے۔ انہیں ایک گرماگرم مدعہ مل گیا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ وہ غدارِ وطن ہیں‘ کوئی مانگ کر رہا ہے کہ منی شنکر کو پارلیمنٹ سے باہر کرو‘ کوئی چاہ رہا ہے کہ یہ دونوں پاکستان میںجا بسیں۔ یہ سب ردعمل عادتاً ہے لیکن بہت ہی افسوسناک ۔ یہ اس لئے عادتاً ہے کہ وہ بیان منی شنکر اور خورشید نے پاکستانی اخباروں اور چینلوں میں دیے ہیں‘ اس لئے بھارتیوں کے لیے تکلیف دہ ہیں‘ اگر یہی باتیں منی شنکر اور خورشید نے بھارت میں کہی ہوتیں تو شاید اتنا بوال نہیں مچتا۔
دونوں نے آخر کیا کہہ دیا؟ کہا کہ جب تک مودی کو نہیں ہٹائو گے‘ پاک بھارت تعلقات بہتر نہیں ہوں گے۔ بھلا‘ ایک کانگریسی لیڈر سے آپ اس کے علاوہ کیا امید کریں گے؟ منی شنکر تو کیا‘ سبھی کانگریسی لیڈر تہ دل سے چاہتے ہیں کہ مودی ہٹے‘ چاہے کسی بھی بہانے سے ہٹے۔ مودی کو ہٹانے کے لئے پاکستانیوں کو اکسانے کی تُک کیا ہے؟ وہ کیا کر سکتے ہیں؟ دقت یہ ہے کہ جب ہمارے لوگ دوسرے ممالک میں جا کر وہاں بولتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ پردیس میں ہیں، بھارت میں نہیں ہیں۔ ہماری اپنی اندرونی سیاست کوکسی غیر ملک میں گھسیٹ لے جانا نامناسب ہے۔ یہ کام مودی خود زوروں سے کرتے آئے ہیں۔ وہ اپنے بیرونی ممالک کے جلسوں میں مخالفین پر جم کر برستے رہتے ہیں۔ یہی کام منی شنکر نے بھی کر دیا توکیا ہوا؟ خورشید نے نواز شریف کی تعریف کی‘ یہ تو سیاست کا ایک حصہ ہے۔ اس میں کوئی برائی نہیں،لیکن مودی کا گلہ کرنا ضروری تھا؟ مودی پر تنقید مناسب ہے تو پھر یہ بات ساتھ میں ہی کیوں نہیں جوڑی گئی کہ مودی ایسا پہلا بھارتی وزیر اعظم ہے‘ جس نے اپنی حلف برداری تقریب میں پاکستانی وزیر اعظم کو مدعو کیا۔پاک بھارت مذاکرات توڑنے کی جو غلطی ہوئی‘ مودی نے اوفا میں اسے سدھارا۔ آگے ہوکر انہوں میاں نوازشریف کو بلایا۔ مان لیا کہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں مودی ابھی نئے ہیں اور انہیں منی شنکر اور خورشید کی طرح گہری سمجھ نہیں‘ لیکن مودی کو ہٹانے سے نہیں سمجھانے سے بھارت پاک تعلقات بہتر ہوں گے۔ 
ہوائی لٹھ بازی یا نوٹنکی بازی
ہمارے ٹی وی چینلوںاور اخباروں کے اچھے دن لوٹ آئے ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی کی تقاریر سے اوبے ہوئے ہمارے چینلوں کو عامر خان کا بُھرتہ بنانے میں مزہ آ رہا ہے ۔جو بھی لوگ عامر کی طرف داری اور مخالفت میں گولے داغ رہے ہیں ‘ان میں سے شاید ہی کسی نے عامر کا پورا انٹرویودیکھا یا سنا ہو۔سارا ہنگامہ صرف ایک جملے کے چاروںطرف گھوم رہا ہے ۔وہ جملہ ہے ''کرن نے مجھ سے کہا کہ ہم لوگ بھارت کے باہر کیوں نہ رہیں ؟مجھے بچے کاڈر ہے‘‘ ۔
عامر نے یہ کیا بول دیا ؟میاں بیوی کی نجی بات چیت کو انہوں نے سر عام کیوں کیا ؟یہ شاید ان کا سیدھا پن ہے یا شاید انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اس جملے کو خبرچی اس طرح لے اڑیں گے ۔ظاہر ہے کہ یہ بات عامر نے نہیں کہی۔یہ ان کی بیوی نے کہی ہے ۔وہ مسلمان نہیں ہیں۔وہ کرن راؤ ہیں ۔ہندو ہیں ۔جب عامر کا انٹرویو میں نے دیکھا تواس کے دوجملے سن کر میں دنگ رہ گیا ۔وہ جملے چینلوں نے دبا دیے۔ وہ انہیں اتنے آہستہ سے سنا رہے تھے کہ ان کا کوئی مطلب ہی نہیں نکلتا تھا، لیکن ایک چینل نے انہیں سنوا ہی دیا ۔اپنی بیوی کرن کی بات کہنے کے بعد عامر نے کہا کہ ''تم اتنی خطرناک بات کیوں کر رہی ہو ‘‘عامر کے اس رد عمل پر کوئی کچھ بول ہی نہیں رہا ہے،اس لئے مجھے لگتا ہے کہ عامر کو لے کر جو بحث چل رہی ہے وہ کوری ہوائی لٹھ بازی ہے۔اس میں حقیقت اور مثال کی کوئی موجودگی نہیں ہے ۔عامر خان کا پورا انٹرویودیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں وہ نہ تو ان کے ساتھ انصاف کر رہے ہیںاور نہ ہی صحافت کے ساتھ ۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کچھ فنکاروں اور ادیبوں کی اس بات سے متفق ہوں کہ بھارت میں تنک مزاجی کا ماحول بڑھ گیا ہے ۔میرے خیال میں وہ میڈیا کے پرچار میں پھسل گئے ہیں۔انہوں نے ناٹک کرتے کرتے سچائی کو بھی نوٹنکی میں بدل دیا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved