تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-11-2015

پاک مائی کا بیش قیمت پلاٹ

امریکہ میں میرے کافی سارے دوست ہیں۔ میرے ایم بی اے کے کلاس فیلو‘ کالج کے اور یونیورسٹی کے دوست طارق لطیف لودھی‘ طاہر احد‘ فہیم سومرو‘ ظہیر باجوہ‘ عارف‘ سرور چودھری‘ نثار گجر‘ ندیم صدیقی اور دیگر ۔ ان میں سے کئی کے ساتھ تو ملاقات ہوتی رہتی ہے اور کئی دوستوں سے صرف فون پر رابطہ ہوتا ہے۔ ہر بار کوئی نہ کوئی دوست سوال کرتا ہے کہ کیا میں ابھی تک ملتان میں ہی ہوں؟ میں جواب دیتا ہوں کہ بھلا میں ملتان کے علاوہ اور رہ بھی کہاں سکتا ہوں؟ میں یہ شہر چھوڑ کر کہیں اور جانے کی عمر گزار چکا ہوں۔ میں نے تو یہ شہر تب نہیں چھوڑا جب لوگ بہتر مستقبل کی خاطر ملک تک چھوڑ جاتے ہیں۔ جو دوست مجھے جانتے ہیں ان کا خیال ہے کہ میں نے ملتان میں رہ کر خود کو ضائع کیا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ میں لاہور یا اسلام آباد جا کر آگے نکل سکتا تھا۔ میں پوچھتا ہوں کہ آخر میں کس سے آگے نکل سکتا تھا؟ خود سے؟ بھلا خود سے آگے نکلنے کی کیا تُک ہے؟ اور کسی اور سے آگے نکلنے سے کیا فائدہ ہے؟ میرا نہ تو کسی سے مقابلہ ہے اور نہ ہی موازنہ‘ میں تو میں ہوں۔ اگر میں یہاں خوش ہوں تو بھلا اور مجھے کیا چاہیے؟
میں ملتان میں اپنی خوشی اور خواہش سے ہوں۔ ملتان رہنا میری پہلی اور آخری ترجیح ہے۔ یہ نہیں کہ مجھے مواقع نہیں ملے‘ لیکن میں نے ملتان رہنا قبول کیا۔ جب میں ایم بی اے کر کے فارغ ہوا تب یہ ڈگری رکھنے والے آج کی طرح تھوک کی تعداد میں نہیں ہوتے تھے۔ یہ تیس سال پرانی بات ہے۔ گنتی کی چند سرکاری یونیورسٹیوں سے لوگ ایم بی اے کیا کرتے تھے۔ میرے سارے کلاس فیلو لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد وغیرہ چلے گئے ‘میں نے ملتان رہنا پسند کیا۔ مجھے اپنے اس فیصلے پر کبھی افسوس یا ملال نہیں ہوا۔ میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں میں اپنے اکثر دوستوں سے زیادہ مزے کی زندگی گزار رہا ہوں۔ مزے کا تعلق پیسے سے صرف اس حد تک ہے کہ آپ بنیادی ضرورتوں کو پورا کر سکیں۔ باقی سب اضافی ہے اور آپ اضافی پیسے سے کیا کرتے ہیں؟ بینک میں جمع کرتے ہیں‘ مزید پلاٹ خریدتے ہیں‘ نئے نئے ماڈل کی گاڑیوں کے بارے میں سوچتے ہیں اور ایک عجیب دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ ان سب چیزوں میں مزا کہاں سے آ گیا؟
میرے دوست کہتے ہیں کہ اگر میں کسی بڑے شہر میں ہوتا تو اپنی صلاحیتوں کی بدولت کہیں سے کہیں پہنچ جاتا۔ میں پوچھتا ہوں کہاں پہنچ جاتا؟ آگے جانے کی تو کوئی حد نہیں۔ انسان کو کہاں تک آگے جانا چاہیے؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ Sky is the limit یعنی آسمان آخری حد ہے۔ لیکن یہ خیال غلط ہے، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ آسمان بھی ایک حد کا نام ہے۔ آسمان تک رکنا تو حد کے اندر رہ جانا ہے‘ اس لیے آسمان بھی آخری حد نہیں ہے۔ اگر آگے جانے کی کوئی آخری حد نہیں تو بھلا اس معقول اور نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شامل ہونے کا فائدہ !کیا اللہ نے یہ زندگی اس لیے دی ہے کہ اپنی دنیا کے لیے دنیا ہی برباد کر لی جائے؟میری اس منطق سے تنگ آ کر دوست پوچھ لیتے ہیں کہ آخر ملتان میں ایسی کیا بات ہے جو دوسرے شہروں میں نہیں۔ میں اس کا مختصر سا جواب دیتا ہوں کہ ملتان میں بڑے شہروں والی ساری سہولتیں بھی ہیں اور چھوٹے شہروں والی ساری خوبیاں بھی‘ مگر ابھی بڑے شہروں والی خرابیاں نہیں ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں بڑے شہروں کی خرابیوں سے تمہاری مراد کیا ہے؟ میں کہتا ہوں بڑے شہروں کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ وہ بہت بڑے ہوتے ہیں۔ فاصلے بڑھ جائیں تو رشتے کمزور ہو جاتے ہیں۔ لمبے فاصلوں کے چکر میں دوستیوں کا دم پھول جاتا ہے۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ ''رشتے ملتے رہنے سے اور زمین کاشت کرنے سے ہی آباد رہتی ہے‘‘۔ ملتان میں آپ ایک سرے سے دوسرے سرے تک بیس پچیس منٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔ آپ کو دوستوں سے ملنے کا سوچتے ہوئے فاصلوں کا مسئلہ درپیش نہیں آتا۔ آدھا شہر آپ کو جانتا ہے اور آدھے شہر کو آپ جانتے ہیں۔ گھر سے ائرپورٹ جائیں تو پندرہ منٹ لگتے ہیں۔ پہلے دس منٹ لگتے تھے‘ اب کینٹ کی چیک پوسٹ پر پانچ منٹ فالتو لگتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن جانے میں بھی اتنا ہی وقت لگتا ہے، کسی دوست کا گھر سات آٹھ میل سے زیادہ فاصلے پر نہیں۔ دیگر معاملات کو دیکھیں تو ہر ضروری چیز موجود ہے۔ دل قناعت پر آمادہ نہ ہو تو اور بات ہے وگرنہ ہر بنیادی سہولت موجود ہے۔ سکولوں سے شروع ہو جائیں ‘ہر اچھے پرائیویٹ سکول کی برانچ موجود ہے۔ یونیورسٹی ہے‘ انجینئرنگ کالج ہے‘ ایگری کلچر کالج بھی ہے اور اب ایک یونیورسٹی بھی‘ میڈیکل کالج ہیں‘ سرکاری بھی اور پرائیویٹ بھی۔ ائرپورٹ ہے اور دنیا بھر کے لیے پروازوں کی سہولت بھی ۔دل کے امراض کاہسپتال بھی ہے اور نشتر ہسپتال بھی۔ جیب میں پیسے کود رہے ہوں تو لندن جا کر کرامویل ہسپتال اور امریکہ میں ہارورڈ یونیورسٹی بھی ہے‘ لیکن مجھ جیسی کلاس کے بندے کے لیے یہ سب کچھ کافی ہے۔
اس شہر میں میری دوستیاں ہیں‘ایسی دوستیاں کہ رات گیارہ بجے میری اہلیہ کا ہسپتال میں انتقال ہوا‘ آدھے پونے گھنٹے میں ہسپتال کی کارروائی پوری کر کے رات ساڑھے گیارہ پونے بارہ بجے گھر پہنچا تو گلی دوستوں سے بھری ہوئی تھی۔ میں نے تو کسی کو اطلاع بھی نہیں کی تھی۔ خدا جانے کس نے کس کو بتایا اور ایمبولینس گھر پہنچنے سے پہلے دوست گھر کے سامنے کھڑے تھے۔ ابھی اس شہر میں پرانی اقدار ہیں‘ روایات ہیں‘ دوستیاں نبھانے کی رسم باقی ہے۔ محلہ داریاں ابھی بچی ہوئی ہیں۔ لوگوں میں مروت ہے۔ خاندانی تعلقات باقی ہیں۔ بھلا یہ متروک چیزیں اب بڑے شہروں میں کہاں بچی ہیں؟ ساتھ والے گھر میں حلیم پکے تو ڈونگہ ادھر بھی آتا ہے۔ رمضان میں ایک دوسرے کے گھر افطاری بھجوانے کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ والدین کے ملنے جلنے والوں سے تعلق نبھانے کی رسم ابھی تک چل رہی ہے۔ بھلا اور کیا چاہیے؟
زندگی سکون اور آرام سے گزارنے کے لیے ملتان ایک آئیڈیل شہر ہے۔ کوالٹی آف لائف کیا ہے؟ کوالٹی آف لائف دراصل ایسی زندگی کا نام ہے جیسی آپ گزارنا چاہتے ہوں اور آپ ویسی ہی زندگی گزار رہے ہوں۔ یہی وہ زندگی ہے جو کسی کو درکار ہو سکتی ہے۔ ملتان ایسی زندگی گزارنے کے لیے ایک بہترین شہر ہے۔ مجھے تو حیرانی ہوتی ہے ان لوگوں پر جو اچھی بھلی زندگی چھوڑ کر ترقی کے نام پر اس شہر کو چھوڑ جاتے ہیں۔ میں یہ بات کسی مجبوری یا موقع نکل جانے کے بعد ''ہاتھ نہ آئے تُھو کوڑی‘‘ کے مصداق نہیں کہہ رہا۔ جب ملکہ ازابیلا الحمرا میں داخل ہوئی تو اس نے محل کے درودیوار پر نظر ڈالی‘ محل کی خوبصورتی سے مبہوت ہو کر وہ ایک دم پکاری کہ اس سے بڑھ کر روئے ارض پر اور بدنصیب کون ہو گا؟ جو اس محل کو چھوڑ کر گیا ہے۔ تلاش رزق میں کہیں اور جانا دوسری بات ہے لیکن اگر رازق کا کرم ہو اور ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو تو بھلا کس کا دل چاہے گا کہ وہ ملتان کو چھوڑ کر کہیں اور جائے۔
اس عمر میں بھلا نئی دوستیاں بنائی جا سکتی ہیں؟ اب بنائے جانے والے دوست بھلا سکول‘ کالج اور یونیورسٹی میں ساتھ پڑھنے والے دوستوں جیسے بے لوث‘ خالص‘ کھرے اور غیر مشروط کیسے ہو سکتے ہیں؟ اب تو دوستیوں کی دنیاوی وجوہ ہوتی ہیں۔ تعلقات کا کوئی باقاعدہ مقصد ہوتا ہے۔ بھلا اب میں کہیں اور جا کر زندگی کا ایک نیا آغاز کیسے کر سکتا ہوں؟ میرے پاس اب اتنا وقت کہاں کہ چالیس پینتالیس کی کمائی ضائع کر سکوں اور نصف صدی پر محیط دوستیوں کو کھو کر خوش رہ سکوں۔ اب ہی تو عمر آئی ہے کہ ان دوستیوں سے‘ عمر بھر کی کمائی سے لطف اندوز ہو سکوں۔ یہ سب کچھ صرف ملتان میں ہے۔
ملتان اب بے شک ویسا نہیں ہے مگر کون سا شہر پہلے جیسا باقی بچا ہے؟ لاہور گیا تو قادر کے ساتھ گاڑی پر نیلا گنبد سے فیصل ٹائون ایک گھنٹے میں پہنچا۔ برادر عزیز مرحوم عطاء اللہ صدیقی کی بیٹی کی شادی پر قادر کے ساتھ رات کو فیصل ٹائون سے جی او آر کلب پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگا۔ میں نے قادر کو کہا بھلا اب یہ شہر رہنے کے قابل رہا ہے؟ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ٹوبہ ٹیک سنگھ چلے جانا۔ آخری عمر سہولت سے گزرنی چاہیے۔ میرے پاس ملتان میں ایک شاندار گھر ہے‘ گاڑیاں ہیں‘ دوست ہیں اور ان کی محبتیں ہیں‘ یہی ایک شاندار زندگی ہے۔
ایک دوست کہنے لگا اگر تم بھی لاہور یا اسلام آباد آ جائو تو بڑے فائدے میں رہو گے۔ میں نے پوچھا مثلاً کیا فائدے؟کہنے لگا شہرت اور دولت۔ میں نے کہا میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اتنی محبت اور اتنی شہرت بھی دے گا۔ یہ شہرت تو اب بھی میری اوقات سے بڑھ کر ہے اور مزید پیسے سے میں کیا کروں گا؟ بینک میں جمع کرونگا۔ ڈی ایچ اے میں پلاٹ لے لوں گا؟ پھر ان کا کیا کروں گا؟ ملتان چھوڑ کر میں جو چیزیں کھو دوں گا وہ اس پیسے سے نہیں خرید سکوں گا جو ملتان چھوڑ کر ملے گا۔ اگر اس پیسے سے میں وہ کچھ نہیں خرید سکتا جس سے میں محروم ہو جائوں گا تو اس پیسے کا میرے لیے کیا مصرف ہے؟
پاک مائی کے قبرستان میں میرے خاندانی احاطے میں قبروں کی چار قطاریں ہیں۔ پہلی قطار میں میری پڑدادی‘ ابا جی کی دو پھوپھیاں‘ چچا رئوف‘ اماں‘ دو اور رشتہ دار دفن ہیں۔ دوسری قطار میں تایا جی‘ دادا جی‘ دادی اماں‘ میری بڑی بہن‘ بڑا بھائی اور میری بیٹی دفن ہیں۔ تیسری قطار میں میری ماں اور ان کے پہلو میں ابا جی دفن ہیں۔ ابھی اس قطار میں کئی قبروں کی جگہ خالی ہے مگر میری اہلیہ چوتھی قطار میں دفن ہے۔ اس کے پہلو میں تین ضرب سات فٹ کا بیش بہا پلاٹ خالی ہے۔ یہ پلاٹ میری ماں کے قدموں کے عین نیچے ہے‘ یہ پلاٹ صرف میرے لیے خالی پڑا ہے ۔میں یہ پلاٹ پوری کائنات میں اور کسی جگہ پر نہیں خرید سکتا۔ پاک مائی کے قدیمی قبرستان میں موجود اس پلاٹ کو چھوڑ کر بھلا میں کہاں جا سکتا ہوں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved