تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     28-11-2015

فکرِ رضا

اس سال 25صفر المظفر کو امام احمد رضا قادری محدثِ بریلی رحمہ اللہ تعالیٰ کا ستانواں عرس منایا جا رہا ہے ، اس کی مناسبت سے میں اپنی فہم اور علمی بساط کے مطابق فکرِ رضا کے چند گوشے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ بدقسمتی سے اہل سنت نے چند شعائر اور ظاہری علامات کو عملاً واجب کا درجہ دے رکھا ہے اور فرائض و واجبات اور سُنن کو حسبِ مراتب اہمیت نہیں دی جارہی، اس کے نتیجے میں بے عملی اور بے حسی فروغ پار ہی ہے اور مسلک کو Spiritual Entertainment یعنی روحانی حَظّ و سرور کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے اور نعت خواں و قوال مذہب کے ہیرو اور اسٹار قرار پائے ہیں ۔ اس حکمتِ عملی کے سبب دین کی ترجیحات پسِ منظر میں چلی گئیں ہیں ۔ پاکستان سے لے کر برطانیہ ، امریکا اور کینیڈا تک ان مجالس کے لیے پروموٹرزیعنی تر ویج دینے والے گروہ اور ادارے وجود میں آ گئے ہیں ۔ برطانیہ میں آرٹس اینڈ کلچرکے لائسنس یافتہ لوگ نعت خوانوں کو بھی اسپانسر کرتے ہیں ۔ 
کاش کہ ان لوگوں نے امام احمد رضا قادری کے علمی سرمائے اور فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ کیا ہوتا تو انہیں دین کی ترجیحات کا علم ہوتا ۔ آج سے کم و بیش سو سال قبل امام احمد رضا اہل سنت کی بے حسی اور دینی ترجیحات کی معکوس ترتیب کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں اور لکھتے ہیں : 
مرا سوزیست اند ردل ، اگر گویم زباں سو زد 
اگر دم در کشم ، ترسم کہ مغز استخواں سوزد 
یعنی اپنے لوگوں کی بے عملی اور بے حسی کو دیکھتا ہوں تو دل میں جذبات کا ایسا اشتعال موج زن ہو تا ہے کہ اگراِن جذبات و احساسات کو زبان پر لاؤں تو زبان جل جائے اور اگر ضبط کر کے سانس روکے رکھوں تو اندیشہ ہے کہ ان جذبات کی تپش سے ہڈیاں تو کیا ، ہڈیوں کا گودا تک جل جائے گا۔اردو شاعر نے کہا ہے :
جو سچ کہتا ہوں، مزا الفت کا جاتا ہے 
جو چُپ رہتا ہوں ، کلیجہ منہ کو آتا ہے 
امام احمد رضا قادری اسلام کی نشأ ۃ کے لیے چند اُمور کو لازمی قرار دیتے ہیں : 
ایک علماء کا اتفاق ، دوسرا ''تحملِ شاقّ بِقدرِ الطّاق‘‘ یعنی اپنی بساط کے مطابق دین کی راہ میں مشکلات کو برداشت کرنا، جبکہ مسلمان سہل پسند ہو چکے ہیں ۔ تیسرا'' اُمراء کا انفاق لوجہ الخلّاق‘‘ یعنی ہر طرح کے نام نمود اور ریاکاری سے بے نیاز ہو کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اُس کی عطا کی ہوئی نعمتِ مال سے اُس کی راہ میں خرچ کرنا، جیسا کہ حدیثِ پاک میں فرمایا : ''بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ؟‘‘ پھر لکھتے ہیں : یہ تمام چیزیں یہاں مفقود ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ کیا آج یہ سب چیزیں موجود ہیں ۔ ہمارے ہاں بہت سے مالی وسائل سِوم ، جمعرات، دسویں بیسویں ، چہلم اور اَعراس کی تقریبات پر خرچ ہوجاتے ہیں ۔ یہ تمام مواقع ایصالِ ثواب کے ہیں اوران کا جواز و استحباب مسلّم ، مگر رسول اللہ ﷺ نے انفاق فی سبیل اللہ کے لیے صدقاتِ جاریہ کو ترجیح دی ہے ۔ صدقاتِ جاریہ سے مراد ایسے شعبوں اور ایسی مدّات پر ایصالِ ثواب کے لیے مالی وسائل کو خرچ کرنا جن کے اثرات تا دیرقائم رہیں اور جن کا فیض ابدالآباد یا عرصۂ دراز تک جاری و ساری رہے۔ کیا مُحِبین امام احمد رضا نے اس شِعار نبوت کو اختیار کیا ہے اور قبول کیا ہے؟ بقولِ شاعر :
خیر گر چاہے ، پھر فیض کے اسباب بنا 
پل بنا ،چاہ بنا ، مسجد وتالاب بنا 
امام احمد رضا سے پوچھا گیا : ایک خاتون ہر سال گیارہویں شریف کی نیاز کرتی ہیں اور ڈیڑ ھ من چاول پکا کر غوث الاعظم کی ایصالِ ثواب کے لیے تقسیم کرتی ہیں ،فلاں جگہ ایک دینی مدرسے میں مستحق طلبہ ہیں ، اگر یہ اُن پر خرچ کر دیے جائیں توکیاگیارہویں شریف کی نیاز ہو جائے گی ؟ آپ نے جواب دیا: تم گیارہویںشریف کی نیاز کے جواز کی بات کرتے ہو، گیارہویں بھی ہو جائے گی اور چودہ سو گنا زیادہ اجر ملے گا ، کیونکہ یہ صدقۂ جاریہ ہو گا ۔انہوں نے عظیم الشان مدارس قائم کرنے ، طلبہ کو حسبِ ضرورت وظائف دے کر تعلیم کی طرف مائل کرنے ، مدرسین کو بیش قرار تنخواہیں دینے ، دین کے مختلف شعبہ جات کے لیے ماہرین تیار کرنے ، تصنیف و تالیف کے ادار ے قائم کرنے، دینی لٹریچر تیار کرنے اور مسلمانوں کا اپنا مالیاتی نظام قائم کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ عدالتی نظام پر پیسے لٹانے کی بجائے مسلمان اپنی ثالثی عدالتیں قائم کریں اور آپس کے تنازعات کو مل بیٹھ کر طے کریں ، اس سے وقت اور دولت دونوں کی بچت ہو گی اور برسوں تک عدالتوں میں خوارہونے اور وکلاء کے نخرے اٹھانے سے بھی نجات مل جائے گی ۔ 
لوگوں نے غلط طور پر یہ سمجھ رکھا ہے کہ تکفیری فتوے جاری کرنا اُن کا شِعار تھا ، یہ اُن کی فکر کی سو فیصد غلط تعبیر ہے۔ وہ لکھتے ہیں :'' فرضِ قطعی ہے کہ اہلِ کلمہ کے ہر قول و فعل کو، اگر چہ بظاہر کیسا ہی شنیع و فظیع(یعنی خراب سے خراب تر) ہو ، حتی الامکان کفر سے بچائیں۔ اگر ضعیف سے ضعیف ، نحیف سے نحیف (یعنی کمزور ترین) تاویل بھی پیدا ہو سکتی ہو ، جس کی رو سے حکمِ اسلام کی گنجائش نکلتی ہو تو اس کی طرف جائیں اور اس کے سوا ہزار احتمال اگر جانبِ کفر جاتے ہوں ، خیال میں نہ لائیں،(فتاویٰ رضویہ ، ج: 12ص: 317)‘‘۔ وہ حدیث نقل کرتے ہیں : ''لااِلٰہ الا اللّٰہ کہنے والوں سے زبان روکو ، انہیں کسی گناہ پر کافر نہ کہو ، لااِلٰہ الا اللّٰہ کہنے والوں کو جو کافر کہے ، وہ کفر سے نزدیک تر ہے ، (المعجم الکبیر، ج: 12، ص:272)‘‘۔وہ لکھتے ہیں : ہمارے امام اعظم رضی اللہ عنہ و دیگر ائمہ ٔ دین فرماتے ہیں : ''جو کسی مسلمان کی نسبت یہ چاہے کہ اُس سے کفر صادر ہو ، وہ کفر کرے یا نہ کرے ، یہ(خواہش رکھنے والا) ابھی کافر ہو گیا کہ مسلمان کا کافر ہو نا چاہا ،(فتاویٰ رضویہ ، ج: 12، ص : 403)‘‘۔ البتہ وہ لکھتے ہیں : ''جو ضروریاتِ دین میں سے کسی شے کا منکر ہو ، باجماعِ مسلمین یقینا قطعاً کافر ہے ، اگر چہ کروڑ بار کلمہ پڑھے ، مگر اس کی وضاحت تو کر دی جائے کہ فلاں شخص نے ضروریاتِ دین میں سے فلاں چیز کا انکار کیا ہے۔ اگرواقعی ایسا ہے تو علمائے کرام کو اتفاقِ رائے سے فیصلہ صادر کرنا چاہیے تاکہ جماعتی انتشار ختم ہو اور سب یک سُو ہوں ‘‘۔ امام احمد رضا قادری کا یہ مشورہ نہایت صائب ہے کہ ایسے اُمور میں ،جن کے نتائج دور رس ہو ں ، انفرادی کی بجائے ثقہ علما ء کو اجماعی اور متفقہ فتوے جاری کرنے چاہئیں تاکہ اگر کسی پہلو کے بارے میں کسی ایک عالم سے صرفِ نظر ہو جائے تو دوسرا اس کی اصلاح کر لے ۔ 
امام احمد رضا قادری کی ایک انتہائی دقیق عبارت کا خلاصہ آسان الفاظ میں پیشِ خدمت ہے ، جس سے ان کی فکر میں یُسر اور توسُّع کا اندازہ ہوتا ہے :''ان امور میں قاعدہ کلیہ جسے ضروریادرکھناچاہئے یہ ہے کہ فرائض کی ادائیگی اور حرام کاموں سے بچنے کو مخلوق کی خوشنودی پر ترجیح دے اور ان امورمیں کسی کی ناراضی کی پروا نہ کرے۔ دینی حکمت کے تحت مخلوق کی دلداری اور ان کے جذبات کومستحب کاموں پر ترجیح دے ، یعنی لوگوںکی دلداری کی خاطر افضل کاموں کو چھوڑا جاسکتا ہے اور دینی مصلحت کے تحت بعض اوقات خلافِ اَولیٰ کام بھی کیاجاسکتا ہے۔دین کے مُبلّغ کو لوگوں کے درمیان نفرت پیداکرنے سے گریز کرنا چاہئے، وہ لوگوںکے لئے اذیّت اور دل آزاری کاسبب نہ بنے۔ اسی طرح لوگوں میں جو رسمیں اور طریقے جاری ہیں ،اگر وہ شریعت کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی شرعی عیب ہے ،تو محض اپنی بڑائی ظاہر کرنے اور اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کے لئے عام لوگوں سے ہٹ کر کوئی شِعار اختیار نہ کرے ،بلکہ لوگوں کے ساتھ ان رسوم میں شامل ہو۔اگر وہ لوگوں کی عام روش سے ہٹ کر کوئی الگ راستہ اپناتا ہے، تو یہ لوگوں کے دلوں کو دین کی طرف مائل کرنے کے اعلیٰ مقصد کے خلاف ہے ۔خبر دار رہو!اس بات کوخوب توجہ سے سنو !کہ یہ بہت خوبصورت باریک علمی نُکتہ اور حکمت کی بات ہے اور دین کے معاملے میں سلامتی اور وقار کا راستہ ہے ،جس سے بہت سے خشک مزاج زاہد اور باطنی کشف کا دعویٰ کرنے والے غافل اور جاہل ہوتے ہیں۔وہ اپنے فاسدگمان میں بڑے دین دار بنتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ دین کی حکمت اورشریعت کے مقاصدسے بہت دور ہوتے ہیں ، حکمت ودانش کے اس پیغام کو مضبوطی سے پکڑو،یہ چند سطریں ہیں ، مگر اس میں علم کا بڑا خزانہ ہے،(فتاویٰ رضویہ ،جلد:4،ص:528 )۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved