امریکہ اور یورپ کے ہاتھوں جو کچھ مسلمانوں پر بیت رہی ہے اُسے دیکھتے ہوئے ٹام ہینکز کی مشہور فلم ''کاسٹ اوے‘‘ بے ساختہ یاد آجاتی ہے۔ فلم کا ہیرو مشہور کوریئر کمپنی کا ملازم ہے۔ ایک بار وہ کمپنی کے طیارے میں سفر رہا ہوتا ہے کہ طیارہ حادثے کا شکار ہوجاتا ہے۔ طیارہ سمندر میں گرتا ہے اور ہیرو کسی طور جان بچاکر تیرتا ہوا ایک جزیرے تک پہنچتا ہے۔ یہ ویران جزیرہ ہے اور بہت الگ تھلگ بھی یعنی کہیں آدم ہے نہ آدم زاد۔ کوئی حیوان بھی نہیں۔ جزیرے پر ہیرو تنہا بس جاتا ہے۔ کوئی ہمدم نہ پاکر وہ اپنے سامان میں سے ایک بیس بال نکالتا ہے اور اُس کے چہرے پر چند نقوش تراش کر اُسے انسانی چہرے سے مشابہ بناتا ہے اور پھر گھنٹوں اُس سے باتیں کرتا رہتا ہے۔ بیس بال پر بنائے ہوئے چہرے سے وہ باتیں ہی نہیں کرتا ہے، کبھی کبھی اُس سے بہت خوش بھی ہوتا ہے اور کبھی سخت ناراض بھی ہو جاتا ہے۔
امریکہ اور یورپ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل سے سرد جنگ بھی ختم ہوگئی۔ جب تک سرد جنگ تھی، گرم جنگ کا امکان معدوم تھا۔ ایک سپر پاور دوسری بڑی طاقت کے مدمقابل تھی۔ سوویت یونین نے ایک بلاک تشکیل دے رکھا تھا۔ اس بلاک میں شامل اُس کے ہم نواؤں نے امریکہ اور یورپ کو کسی حد تک منہ دے رکھا تھا۔ جب تک یہ تگڑا حریف سامنے تھا، امریکہ اور یورپ کے لیے کسی اور طرف دیکھنا اور منہ مارنا بہت حد تک ناممکن تھا۔ وہ اِس پوزیشن ہی میں نہ تھے کہ اپنی طاقت کے برہنہ رقص کا اہتمام کرسکتے۔ روس نے مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ مل کر امریکہ اور مین لینڈ یورپ کو لگام دینے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ سازشوں کا جال وسیع ہوتا گیا اور مغربی دنیا نے پاکستان اور چند دوسرے اسلامی ممالک کو ساتھ ملاکر سوویت یونین کی شکست و ریخت کا اہتمام کیا۔
مغرب نے جو طرزِ زندگی وضع کی ہے وہ مادر پدر آزادی کی داغ بیل ڈالتی ہے اور انسان کو اسفل السافلین کے درجے پر پہنچادیتی ہے۔ طرزِ زندگی کے نام پر پنپنے اور رواج پانے والے طوفانِ بدتمیزی کے آگے بند باندھنے کی صلاحیت (اور وہ بھی بدرجۂ اتم) صرف اسلام میں پائی جاتی ہے۔ یہ بات مغرب کے تمام عالی دماغ بھی اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں۔ مغربی پالیسی میکرز کو نیا حریف درکار تھا جسے بنیاد بناکر دنیا کو دو حصوں میں بانٹا جاسکے۔ امریکہ اور یورپ کو اندازہ تھا کہ یک قطبی دنیا انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔ عالمی نظام کو متوازن رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی مدمقابل درکار تھا۔ اسلام کے بارے میں بے بنیاد باتیں پھیلاکر اسلامی دنیا میں مغرب مخالف جذبات ابھارے گئے تاکہ لوگ مشتعل ہوکر امریکہ اور یورپ کو اپنا حریف ہی نہیں، دشمن اور بدخواہ بھی تصور کریں اور ہتھیار اٹھالیں۔ سوویت یونین کے خلاف جہادی کلچر کو پروان چڑھانے والے امریکہ اور یورپ نے جب اسلامی دنیا کے بارے میں بے بنیاد باتیں پھیلانا شروع کیا تو سوویت بلاک کے خلاف لڑنے والے جہادیوں نے اپنے ہتھیاروں کا رخ مغربی دنیا کی طرف کرلیا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد مغرب نے جہادیوں سے قطعِ تعلق ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اُنہیں تمام بُرائیوں اور خرابیوں کی جڑ بھی گرداننا شروع کیا۔
جب اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور مسلمانون کو مجموعی طور پر جنگجو اور خوں خوار ملت کی حیثیت سے پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو اسلامی دنیا میں مغرب مخالف جذبات بھڑک اٹھے اور یوں ایک نئی جنگ شروع ہوئی۔
نائن الیون کے بعد امر یکہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمگیر جنگ کے نام پر مسلم ممالک کو نشانے پر لینا شروع کیا۔ خلیج کی پہلی جنگ بھی اِسی سلسلے کی کڑی تھی۔ عراق کو کویت پر حملے کے لیے اُکساکر خطے پر امریکہ نے دھاوا بول دیا اور کویت کو آزاد کرانے کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ جو کچھ خلیج کی پہلی جنگ میں ہوا وہ اس بات کے لیے کافی تھا کہ اسلامی دنیا کا ماتھا ٹھنکے۔
نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے شدید ترین حالات کا سامنا کرنے والے افغانستان کو مزید برباد کرنے کا ڈول ڈالا تو اسلامی دنیا میں ایسے نوجوانوں کی کھیپ تیار ہوگئی جو مغرب کی عسکریت پسندی کو لگام دینے کا عزم رکھتے تھے اور اس کے لیے جان دینے میں بھی انہیں کچھ باک محسوس نہ ہوتا تھا۔
7 اکتوبر کو افغانستان پر حملے سے اس جنگ کی ابتداء ہوئی جس کے ذریعے امریکہ اور یورپ مل کر اسلامی دنیا کو مزید صدیوں تک غیر موثر رکھنا چاہتے ہیں۔ القاعدہ کو جواز بناکر اس کے خلاف جنگ چھیڑی گئی۔ القاعدہ کے ہم خیال گروپوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کے بعد عراق کی باری آئی اور پھر لیبیا، شام اور مصر بھی خرابی کی زد میں آئے۔ القاعدہ کو جواز یا بہانہ بناکر افغانستان اور عراق کو مکمل تباہی سے دوچار کردیا گیا۔ عراق اور لیبیا میں آئل انڈسٹری کی بنیاد ہی ختم کردی گئی۔ اور پھر نئے سِرے سے بنیاد ڈالنے کے لیے امریکی کمپنیوں کو انتہائی پرکشش ٹھیکے دیئے گئے۔
القاعدہ کا راگ الاپتے الاپتے جب امریکہ اور یورپ تھک گئے اور اہلِ جہاں بھی جھوٹ کو پاگئے تب کوئی نیا بُت کھڑا کرنے کا سوچا گیا تاکہ اُسے پاش پاش کرنے کی تگ و دَو کے نام پر اسلامی دنیا کو مزید تباہی سے دوچار کیا جاسکے۔
اب مرحلہ ''داعش‘‘ (دولتِ اسلامیہ فی العراق والشّام) کا تھا۔ عراق اور شام میں اسلامی ریاست کے قیام کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ایک گروپ اٹھا۔ اس گروپ نے جو کچھ اب تک کیا ہے وہ انتہائی مشکوک ہے۔ اسلامی دنیا میں داعش کی نیت پر بھروسہ کرنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں۔ القاعدہ کی چھتری تلے لڑنے والے تمام ''مجاہدین‘‘ کی نیت کے اخلاص پر بھروسہ کرنے والے بھی زیادہ نہ تھے۔ داعش کی چھتری تلے امریکہ اور یورپ کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں نے اسلام کی بات کی ہے مگر اسلام کے یکسر منافی کام کیے ہیں۔ انہوں نے جس طور قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہے وہ کوئی اور ہی کہانی سُناتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کو شراب تو ہی بیچنی ہے مگر القاعدہ اور اس کے ہم خیال گروپ پُرانی بوتل کے مانند ہوچلے تھے۔ دنیا والوں کے لیے اِس پُرانی بوتل میں کشش برائے نام بھی نہ رہی تھی۔ ایسے میں نئی بوتل کا سوچا گیا اور یُوں امریکہ اور یورپ نے پُرانی شراب بیچنے کے لیے داعش کی شکل میں نئی بوتل متعارف کرائی ہے!
امریکہ اور یورپ کی طاقت میں کمی واقع ہونے کا عمل تیز ہوگیا ہے۔ چین اور روس مل کر پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر ایک نئی دنیا تشکیل دینا چاہتے ہیں جس میں طاقت کا مرکز ایشیا ہوگا۔ داعش جیسے بُت تراش اُنہیں پاش پاش کرنے کی جدوجہد کا ناٹک کرکے کر امریکہ اور یورپ دنیا والوں کو زیادہ دیر بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ اُنہیں اب دجل و فریب کی یہ دکان بند کرنا ہی پڑے گی۔