عمران خان بھولے بادشاہ ہیں۔ ایک طرف ملک میں جمہوریت آمریت کا رونا روتے ''چور چور کا احتساب نہیں کر سکتا‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کرتے اور دوسری طرف نیب سے شکوہ کناں ہیں کہ فلاں شخص کے خلاف بارہ کیسز ہیں مگر نیب اُسے گرفتار نہیں کرتی۔ کیا خان صاحب کی باتوں میں کھلا تضاد نہیں۔ نیب نے اگر یہ کام کیا ہوتا تو پاکستان کو بھلا اندھیر نگری چوپٹ راج کا طعنہ کیوںسُننا پڑتا۔
جس ریاست میں گڈ گورننس حکمرانوں کے لیے طعنہ ہو اور بلا تفریق احتساب کا مطالبہ گالی‘ وہاں بھلا کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ طاقتور کی فائل کھول کر اپنی ملازمت اور اہل خانہ کی عزت وناموس کو خطرے میں ڈالے‘ نادرا کے سابق ایم ڈی طارق ملک اور سابق آڈیٹر جنرل پاکستان بلند اختر رانا کے انجام سے عبرت کیوں حاصل نہ کرے جو اوپر کے احکامات کی تعمیل نہ کرنے کے جرم میں اب تک اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔
ابھی ابھی جنوبی پنجاب سے واپس لوٹا ہوں۔ وسیب میں حکومت کی '' گڈ گورننس‘‘ کے چرچے ہیں اور لوگ جھولیاں اُٹھا کر تخت لاہور کو دعائیں دیتے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے حکمرانوں کی ترجیحات وسیب کی ترجیحات سے مختلف ہیں۔ نشتر گھاٹ کا پل برسوں سے زیر تعمیر ہے‘ مکمل ہونے میں نہیں آ رہا جو عوام کی اشد ضرورت ہے‘ مگر میٹرو تیزی سے تعمیر ہو رہی ہے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ یہ خواجہ فریدؒ ‘غوث بہائو الحق ؒ اور فیض محمد شاہ جمالیؒ کی دھرتی ہے جنہوں نے خدا ترسی‘ انسان دوستی اور ایثار کیشی کا درس دیا اور خیر تقسیم کیا۔یہاں اقبالؒ کے دوست اور مداح غلام مخدوم میراں شاہ مدفون ہیں جو اقبال نگر آباد کر کے علامہ اقبال ؒ کو منتقل ہونے کی دعوت دیتے رہے تاکہ وہ ذہنی سکون کے ساتھ ملّت کی فکری خدمت کر سکیں۔مگر اب جنوبی پنجاب کا نام آتے ہی دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور سرگرمیوں کا ذکر چھڑ جاتا ہے۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
کراچی اور شمالی وزیرستان کے دہشت گردوں نے ملک کے دیگر حصوں کی طرح یہاں پناہ لی ہو گی اور ممکن ہے یہ رسد کا ذریعہ بھی ہو مگر اب تک حکومت لمبی تان کرکیوں سوئی ہوئی ہے‘ ان اسباب و عوامل کا سدّباب کیوں نہیں کرتی جومحروم و مایوس نوجوان نسل کو جرائم کی دنیا میں دھکیلتے اور دہشت گرد‘ ٹارگٹ کلر‘ اغوا کار‘ بھتہ خور‘ ڈکیت اوررسہ گیر بناتے ہیں۔
رسول اکرمﷺ نے چودہ سو برس قبل تنبیہ فرمائی کہ کادالفُقران یکون کفراً(خبردار مفلسی انسان کو کفر کی طرف لے جاتی ہے)۔پنجاب میں غربت و افلاس کی بدترین صورتحال کا نظارہ ملتان‘ ڈیرہ غازی خاں اور بہاولپور کے بعض اضلاع میں کیا جا سکتا ہے۔ دور دراز علاقوں میں پینے کا پانی میّسر نہیں۔ کئی علاقوں میں انسان اب بھی بارشی پانی ٹوبوں میں ذخیرہ کر کے خشک موسم میں خود پیتے اور مویشیوں کو پلاتے ہیں۔ خواتین کو یہ گدلا پانی لانے کے لیے بسا اوقات میلوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور وہ بے چاری بھاری گھڑے سر پر اُٹھا کر گھر میں آب رسانی کا بندوبست کرتی ہیں۔ شادن لُنڈ میں مُضر صحت پانی سے ایک کیڑا ناروے جنم لیتا ہے جو انسانی جسم کو چھلنی کر دیتا ہے۔ کئی مقامات پر تالابوں کے کنارے انسانوں اور جانوروں کو ایک ساتھ پانی پیتے اور خواتین کو کپڑے دھوتے دیکھ کر آدمی سوچتا ہے کہ یہی وہ ملک ہے جس کے حکمرانوں کے اربوں ڈالر دوسرے ممالک میں جمع ہیں اور جو اپنے ہاتھ بھی معطر درآمدی ٹشو پیپرز سے صاف کرتے ہیں تاکہ جراثیم حملہ آور نہ ہو سکیں۔
شوگر ملیں اور فیکٹریاں اگرچہ یہاں قائم ہیں اور لشٹم پشٹم روزگار کے مواقع پیدا کر رہی ہیں مگر آبادی اور وسائل کے تناسب سے تعداد محدود ہے جبکہ سرکاری ملازمتیں مفقود‘ چنانچہ بے روزگاری ستم ڈھا رہی ہے۔ سنگین جرائم میں ملوث اشتہاریوں نے اپنے طاقتور گینگ بنا لیے ہیں جو اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرتے اور خلق خدا کی نیندیں حرام کیے رکھتے ہیں۔ مالدار افراد اور کاروباری خاندانوں کو پرچیاں بھیج کر بھتہ وصول کرتے ہیںاور معاوضے پر قتل کا کاروبار بھی۔ انکار پر بچوں اور خواتین کے اغوا کی دھمکی دی جاتی ہے جو کارگر ثابت ہوتی ہے۔
چھوٹو مزاری‘ علی بازگیر اور چوٹانی ‘ جتانی‘ گورے گینگ کی دہشت ملتان سے روجھان تک پھیلی ہے ۔ان کے کارندے ملتان‘ ڈیرہ غازی خاں‘ مظفر گڑھ‘ رحیم یار خان میں سراغرسانی کرتے ہیںاور نشاندہی پر مالداروں کو اغوا کر کے ان کی مالی حیثیت کے مطابق تاوان طلب کیا جاتا ہے۔ بیس لاکھ سے چار پانچ کروڑ تک معاوضہ معمول ہے۔انہیں بااثر سیاسی خاندانوں کی سرپرستی حاصل ہے اور پولیس کے بدعنوان افسر و اہلکار ان کے محافظ‘ یہی بااثر افراد اور پولیس اہلکار انہیں قانون کے شکنجے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے اور حصہ بقدر جُثہ وصول فرماتے ہیں۔
کراچی میں تو رینجرز نے کارروائی کر کے بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی حوصلہ شکنی کی ہے مگر جنوبی پنجاب میں یہ منافع بخش کاروبار اب تک دھڑلے سے جاری ہے اور مخدوموں‘جاگیرداروں‘ وڈیروں‘ تمنداروں کے علاوہ پولیس و انتظامیہ کے مظالم سے تنگ بے روزگار و بے آسرا نوجوان بالآخر کسی جرائم پیشہ گروہ یا دہشت گرد تنظیم کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ یہ سماج سے انتقام لینے پر قادر بھی ہوتے ہیں۔ پولیس و انتظامیہ کے علاوہ وڈیروں کی ستم رانی سے محفوظ بھی۔ کیونکہ ان اسلحہ برداروں سے سب ڈرتے اوربنا کر رکھنے کے عادی ہیں۔ روجھان اور دیگر علاقوںمیں ان جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کئی بار آپریشن ہوئے ‘توپیں اور ہیلی کاپٹر تک استعمال کئے گئے مگر مکمل سدّباب اب تک نہیں ہو سکا کہ موجودہ جاگیردارانہ‘ سرمایہ دارانہ اور وڈیرہ شاہی نظام ان کا پشت پناہ ہے اور بُرا طرز حکمرانی پشت پناہوں اور سہولت کاروں کے ناز نخرے اٹھانے پر مجبور۔
کوئی مانے نہ مانے موجودہ سیاسی‘ سماجی اور معاشی ڈھانچہ سنگین جرائم کی ساخت ‘پر داخت کے قابل تو ہے ان کے خاتمے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتاکہ یہ برقرار ہی ان مجرموں اور لٹیروں کے دم قدم سے ہے تو پھر کیوں نہ کوئی نیا تجربہ کیا جائے۔ صوبوں کی ازسر نو تقسیم‘ صدارتی نظام اور 1985ء سے اب تک اسمبلیوں کی زینت بننے والے ہر جاگیردار‘ سرمایہ دار‘ وڈیرے ‘ تمندار ‘ ملک ‘ خان اور سردار کا بے لاگ احتساب۔ جس نے قومی وسائل کی لوٹ مار میں حصہ نہیں لیا اور کوئی جرم نہیں کیا وہی مواخذے کے عمل سے گزر کر نئے نظام کا حصہ بنے‘ تاکہ ایک نئے دور کا آغاز ہو سکے۔ چور چور کا احتساب کرسکتا ہے نہ جمہوری آمریت میں انسان دوستی اور حقیقی جمہوریت پروان چڑھ سکتی ہے گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں۔