تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     29-11-2015

لیہ کے بلدیاتی الیکشن کی اصل کہانی!

ضلع لیہ میں اپنی بستی، اپنے گھر آیا ہوں۔ سردیوں میں یہاں کچھ دن رہنے کا اپنا رومانس ہے۔ پرانے گھر کے لان میں پھیلی دھوپ میں بڑی چارپائی پر تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے، آنکھیں موندے دیر تک سونے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ جی چاہتا ہے سارا دن دھوپ میں لیٹا رہوں، کوئی کچھ نہ کہے۔ ہاں، اگر بھوک لگے تو تندور کی پکی گرم روٹی اور میری بڑی بہن کے ہاتھوں کی بنی ہوئی دال ضرور ملے۔
گائوں میں الیکشن کا ماحول ہے۔ دیہات میں جس کے پاس ڈنڈا ہو وہی کامیاب ہوتا ہے۔ اقتدار میں بیٹھے لوگوں نے انسانوں کو اس طرح غلام بنایا ہوا ہے کہ فوجی آمریت سے جان چھڑانا تو شاید آسان ہے‘ لیکن جمہوری آمریت سے جان چھڑانا اتنا آسان نہیں۔ علاقے میں پھیلی غربت کی کئی شکلیں ہیں۔ جو جتنا کمزور ہے اس کا جینا اتنا ہی مشکل ہے۔ گائوں کے چند چھوٹے موٹے بدمعاش کسی بھی ایم پی اے یا ایم این اے کے سہارے پورے گائوں پر اپنی بدمعاشی مسلط کر سکتے ہیں۔ استادوں، کرپٹ پولیس کانسٹیبلوں اور ان کے حواریوں کی ٹرانسفر پوسٹنگ کی آڑ میں آپ جو چاہیںکر لیں۔ چاہیں تو گائوں کے گائوں ہائی جیک کر لیں۔ ایک خوف ہے جو سب کے چہروں پر نمایاں ہے۔ تمام ذرائع ایک شخص کے ہاتھ میں ہیں۔ تھانہ، پٹواری، سکول کے اساتذہ کی ٹرانسفر پوسٹنگ اسی کی مرضی سے ہوتی ہے، ڈاکٹر بھی اسی کی مرضی سے سانس لیتے ہیں۔ ایک آقا باقی سب غلام! غلامی سب کو راس آ گئی ہے۔ کون سٹینڈ لے کر خطرات مول لے؟ سب کو ایک گاڈفادرکی ضرورت ہے۔ 
تحریک انصاف سے توقع تھی لیکن داد دیجیے شاہ محمود قریشی صاحب کو جنہوں نے دنیا بھر کا کچرا اور سیاسی گند تحریک انصاف میں بھر دیا ہے۔ لیہ میں بھی اسی طرح کا کچرا اکٹھا کیا گیا ہے۔ پورا ضلع ان لوگوں کے حوالے کر دیا گیا جو 2013ء میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن ہار چکے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے ان سب کا ہاتھ پکڑا اور عمران خان کے ساتھ بٹھا دیا۔ اب پورے ضلع میں بلدیاتی انتخابات کی ٹکٹیں عام انتخابات پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ہارنے والوں نے بانٹی ہیں۔ تحریک انصاف کے اصل ورکرز کو ٹکٹیں دینے کے بجائے پیپلز پارٹی کے لوگوں میں بندر بانٹ کی گئی۔ ایک صاحب نے پہلے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن ہارا، پھر ق لیگ میں جا گھسے، ان کے ٹکٹ پر بھی الیکشن ہارا اور 2013 ء میں معافی مانگ کر پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے، لیکن پھر ہار گئے۔ اب وہ لیہ میں تحریک انصاف کے سربراہ ہیں۔ لگتا ہے 2018ء کے الیکشن میں وہی امیدوار ہوں گے اور یہ بھی لگتا ہے کہ پھر ہاریں گے۔ وہ اس وقت تحریک انصاف کے بلدیاتی ٹکٹوں کے فیصلے اور الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ تحریک انصاف کا کیا حشر ہو رہا ہے! 
ہمارے علاقے میں ایک ایسا امیدوار یونین کونسل کی چیئرمین شپ کے لیے تحریک انصاف کی طرف سے امیدوار ہے‘ جو کسانوںکو بھاری سود پر قرض دیتا ہے اور انہیں لوٹ کر کھا گیا ہے۔ عمران خان کسانوں کے حقوق کے لیے تقریریںکرتے نہیں تھکتے‘ لیکن ہمارے علاقے میں ان کے بلدیاتی امیدوار وہ ہیں جنہوں نے علاقے میں سود کا کاروبار عروج پر پہنچا دیا۔ جو کسان ملتا ہے، روتا ملتا ہے۔ تحریک انصاف اسی لیے دن بدن تیزی سے ڈھلوان کا سفر کر رہی ہے۔ اللہ بھلا کرے شاہ محمود قریشی کا! 
ہر طرف دکھ بھری کہانیاں ہیں۔ ایک دفعہ گائوں کے کچلے ہوئے طبقات کے چند بچوں کو ڈیلی ویجز پر دو سو روپے روزانہ پر کام دلوایا تھا۔ ایک نیم خواندہ لیگی ایم این اے نے، جس کی روزی روٹی دربار کے چندے سے چلتی ہے اور جو تعویذ دھاگے کا کام بھی کرتا ہے، اسلام آباد جا کر متعلقہ افسر کے خلاف تحریک استحقاق پیش کر دی کہ اسے کیسے جرأت ہوئی، مجھ سے پوچھے بغیر بچوں کو ڈیلی ویجز پر رکھ لیا۔ دیگر ایم این ایز کو بھی ساتھ ملایا، اجلاس میں بُرا بھلا بھی کہا۔ اب وہ سب غریب بچے گائوں کی گلیوں میں پھرتے ہیں۔ لیگی ایم این اے نے بدلہ لے لیا۔ اعلی افسر کو دو سو روپے روزانہ کی نوکری دینے کے جرم کی معافی دینے کے لیے جو کچھ ایم این اے نے وصول کیا‘ اور نوکریاں بیچیں‘ وہ علیحدہ کہانی ہے۔ 
جیسل نشیب اورکھرل عظیم نشیب کے علاقوں میں سب لوگوں کے دکھ مشترکہ ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سیلاب اب ہر سال آنا شروع ہو گیا ہے۔ غربت دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ 2010ء کے سیلاب نے تباہ کر دیا تھا۔ 1992ء کے بعد یہ پہلا سیلاب تھا۔ آبادیاں دریائوںکے راستے میں بن چکی تھیں‘ اس لیے نقصان زیادہ ہوا۔ بے چارے متاثرین بچے اٹھائے خشکی پر آ بیٹھے۔ وہ دوسروںکے رحم وکرم پر تھے۔ ابھی معمول کی زندگی شروع کر رہے تھے کہ 2012 ء میں پھر سیلاب آ گیا اور گزشتہ برس ایک بار پھر سیلاب نے آ لیا۔ یکے بعد دیگرے سیلابوں نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ نفسیاتی خوف اس کے علاوہ ہے۔ ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی! وہ ناچیزکو ٹی وی پر دیکھتے رہتے ہیں، دیکھ کر پھٹ پڑے۔ ان کے علاقوں کا پورا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ کوئی سڑک نہیں بچی، پل تباہ ہو گئے، فصلیں برباد ہو گئیں۔ سیلاب کا پانی اب بھی کئی جگہوں پر کھڑا ہے۔ ہر طرف غربت نظر آتی ہے۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ ایک جگہ نوجوان قمیض اتارے دریا میں مچھلیاں پکڑ رہا تھا، مجھے وہ منظر اچھا لگا، میں نے فون کے کیمرے سے ڈوبتے سورج کے درمیان اس کا فوٹو لینے کی کوشش کی تو وہ ڈر گیا اور جال چھوڑ کر بھاگ گیا۔ میں حیران ہوا۔ پتا چلا کہ پولیس کی مدد سے چھاپے مارے جاتے ہیں کہ یہ لوگ مچھلی کا غیر قانونی شکار کرتے ہیں۔ مچھلی کا شکار ان کی آمدن کا واحد ذریعہ ہے، باقی سب کچھ تو سیلاب لے گیا۔ میں کتنی دیر تک افسردہ کھڑا رہا۔ اسے بلوایا‘ اور تسلی دی کہ جائو شکار کرو،کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ 
سیلاب زدگان کے کئی رونے ہیں۔ پہلے خادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھاگے بھاگے لیہ تشریف لائے۔ ٹی وی کیمروں کی روشنیوں میں امداد کا اعلان کیا۔ وہ حسب معمول وعدے کر کے چلے گئے، اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ سیلاب دراصل بیوروکریسی کے لیے نعمت اور برکت لاتے ہیں۔ یہ ان کے لیے راتوں رات مال پانی بنانے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ موجودہ ڈپٹی کمشنر لیہ کی ریپوٹیشن پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ کئی کہانیاں سننے میں آئیں۔ سنا ہے کہ لیہ جیسے ضلعوں میں ڈپٹی کمشنر دیہاڑیاں لگانے آتے ہیں۔ خیموں اور خوراک کے نام پر کروڑوں روپے نگل لیے گئے۔ شہباز شریف صاحب کے سامنے خوفزدہ ہونے کی اداکاری کرنے والے بیوروکریٹ علاقے میں فرعون سے کم نہیں ہوتے۔ چھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر گیا، ڈپٹی کمشنر لیہ اور دوسرے انتظامی افسروں نے نشیب کے علاقے کا دورہ نہیںکیا کہ لوگوں کو کیسے بحال کرنا ہے، ٹوٹی سڑکوں کی مرمت تو دور کی بات! سیلاب زدگان نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے‘ جو امداد تقسیم کرنے کی ذمہ دار تھی‘ انہیں نون لیگ کے لیڈروں کے ڈیرے پر بلایا۔ ان سے باقاعدہ یہ پوچھ گچھ کرکے کہ کس پارٹی سے تعلق ہے، کچھ پیسے دیے۔ یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے! 
سیلاب زدگان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نشیب کا فنڈ ایک لیگی لیڈر کے گھر کی سڑک بنانے پر خرچ ہو رہا ہے۔ سڑٖک پہلے بھی اچھی تھی، اب اسے ڈبل کیا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی عام ہے کہ جو پیسہ نشیب کے لوگوں کو ملنا تھا وہ اب تھل کے ریتلے ٹیلوں میں بسنے والے چند خوش نصیبوں کو مل رہا ہے۔ یہ کرتب پاکستان جیسے ملک میں ہی ہو سکتا ہے کہ سیلاب نشیب میں تباہی پھیلائے اور امداد تھل کے اپنے لوگوںکو ملے۔
نشیب کے ایک رہائشی نے ایسی بات کی جو مجھے پہلے تو سمجھ نہ آئی اور جب آئی تو حیرت زدہ ہو گیا۔ بعض دفعہ عام لوگ کتنی گہری بات کرتے ہیں۔ کہنے لگا، آپ کو ٹی وی پر دیکھتے رہتے ہیں، میرے کہنے پر ایک بات تو کہہ دیجیے گا۔ میں نے کہا: جی بتائیں۔ بولے: اس دفعہ سیلاب نے نیا کام کیا ہے جو صدیوں میں نہیں ہوا تھا۔ اس دفعہ دریائی سیلاب جیسل کلاسرا اورکھرل عظیم نشیب کے روایتی راستوں کی بجائے وہاں سے میلوں دور ریتلے تھل کے چند مخصوص علاقوں میں آیا ہے، امداد بھی وہیں بٹ رہی ہے اور سڑکیں بھی وہیں بن رہی ہیں۔ سیلاب کا یہ رخ بلدیاتی الیکشن میں بہت کام آ رہا ہے۔
یہ ہے ہماری بلدیاتی سیاست جس کے مروڑ ہمارے پیٹ میںکافی عرصے سے اٹھ رہے تھے۔ ووٹ لینے کا ایک ہی طریقہ ہے... بدمعاشی کرو، تھانے میں چھتر مروائو، ڈرائو دھمکائو، چھوٹے موٹے بدمعاش ہر گائوں میں پیدا کرو، درجہ چہارم کی نوکریاں بانٹ کر ملازمین کو اپنے گھر کا کام کروائو۔ اس کے علاوہ بدمعاشوں کو تحفط دو۔ بیشک وہ سب کا جینا حرام کر دیں۔ ایسا ماحول پیدا کروکہ ہر انسان ہر وقت خوفزدہ رہے‘ آپ کا شکر گزار رہے۔
میں جس سے بھی ملا اور پوچھا کس کو ووٹ دے رہے ہو تو سب کا ایک ہی جواب تھا... جو ہمیں تحفظ دے سکے، جو بھی ہماری جان چھڑانے کی سکت رکھتا ہو۔ یعنی پرانی تنخواہ پر اپنے پرانے آقا کو ہی ووٹ ڈالتے رہیں گے۔ کسی کو الیکشن کے بعد چھترول کرانے کا شوق نہیں رہا۔ یہ ہے ہماری جمہوریت کا دیہاتوں میں اصلی چہرہ! 
ہمارے علاقے کے کسی ایم این اے یا ایم پی اے کے نام سے لاہور، اسلام آباد میں کوئی واقف نہیں کیونکہ یہ گونگے سیاستدان اسمبلیوں میں بھیگی بلی بن کر بیٹھے رہتے ہیں۔ کبھی علاقے کے لیے بات نہیںکرتے، صرف ضلع میں غریب عوام پر رعب و دبدبہ قائم رکھتے ہیں۔ 
میں نے اپنے ایک عزیز سے کہا کہ الیکشن لڑو۔ ہنس کر بولے: یہ لوگ جو اب روتے ہیں، وہ ہمیں ووٹ نہیں دیں گے کیونکہ ہم انہیں تھانے، پٹواری سے بچا سکتے ہیں نہ مقامی سطح پر بدمعاش پال کر انہیں خوف زدہ کر سکتے ہیں۔ چھوڑیں ان باتوں کو۔ سیلاب کے ہاتھوں برباد اس غریب شخص کے جملے کو انجوائے کریں کہ سیلاب اس دفعہ نشیب کے بجائے میلوں دور تھل کے ریتلے ٹیلوں میں آیا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved