تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     29-11-2015

ڈونالڈ ٹرمپ کو شرم آنی چاہیے!

امریکی ارب پتی ڈونالڈ ٹرمپ ریئل اسٹیٹ کے شعبے کا ایک بڑا نام ہے۔ اگلے برس ہونے والا صدارتی انتخاب اگر وہ جیت گئے تو وہی اگلے امریکی صدر ہوں گے۔ مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائیاں ان کا شو ق ہے۔ مسلمانوں کے لیے اپنے تعصب کے حوالے سے ان کا رویہ معذرت خواہانہ ہرگز نہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی والے انہیں ''Caravan barker‘‘ یعنی قافلے کا بھونکُو کہتے ہیں۔ اس سے ان کا اشارہ در اصل انگریزی کی اس ضرب المثل کی جانب ہوتا ہے کہThe dogs bark, but the caravan moves on یعنی کتے چاہے بھونکتے رہیں، قافلہ رواں دواں رہتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے نیوجرسی کے رہنے والے عرب مسلمانوں پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ جب گیارہ ستمبر کا سانحہ ہوا توانہوں نے اس کا جشن منایا تھا۔ ایسی بے ہودہ باتیں ڈونالڈ ٹرمپ کے لیے بے حد آسان ہیں۔ صرف ووٹ پانے کے لیے انہوں نے ایسا مضحکہ خیز بیان دیا؛ حالانکہ مین سٹریم میڈیا ان کی اس بات کی تردید کر چکا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے جرسی سٹی کے میئر سٹیون فل اپ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی یا تو یادداشت خراب ہے یا پھر وہ جانتے بوجھتے سچائی کو مسخ کرتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں ری پبلکن پارٹی کے لیے قابلِ تشویش ہونی چاہئیں۔ رائے عامہ کے لحاظ سے ڈونالڈ ٹرمپ اس وقت سب سے آگے ہیں اور اسی لیے وہ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف بھی پوری شدت کے ساتھ بول رہے ہیں۔ ایسا وہ اکیلے نہیں کر رہے، ری پبلکن پارٹی کے سبھی صدارتی امیدواروںکی جانب سے اسلام کے حوالے سے اسی طرح کی یاوہ گوئیوں کی کوئی حد نظر نہیں آتی۔ پیرس حملوں کے بعد سے تو ان میں بطور خاص خطرناک شدت آئی ہے‘ جس کے نتائج یقیناً مثبت نہیں ہوں گے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے سرعام ، کھلے لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا کہ چند مساجد کوبند کر دیا جائے۔ موصوف کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کا ایک ڈیٹا بیس بنوائیں گے۔ ایسی تجاویز دینے اور ایسی باتیں کرنے پر ڈونالڈ ٹرمپ کو شرم آنی چاہیے۔ ری پبلکن پارٹی کے ایک اور صدارتی امیدوار ڈاکٹر بین کارسن نیورو سرجن ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائیوں میں وہ بھی ڈونالڈ ٹرمپ سے پیچھے نہیں ہیں۔ پچھلے دنوں جب شامی مہاجرین کو امریکہ میں پناہ دینے کا سوال اٹھا تو ڈاکٹر کارسن کا کہنا تھا کہ ''اگر ایسا ہوا تو یہ بالکل ایسا ہی ہو گا جیسے آپ اپنے گھر کے قریب پاگل کتوں کو آزاد چھوڑ دیں‘‘۔ بقول ان کے اگر وہ صدر بنے تو وہ شامی مسلمانوں کو نہیں بلکہ صرف شامی عیسائیوں کو امریکہ میں پناہ دیں گے۔ جیب بش بھی ری پبلکن پارٹی ہی کے ایک اور امیدوار ہیں۔ انہوں نے بھی یہی بات کہی ہے۔ امریکی اسلامی روابط کونسل کے ایک ترجمان نے الجزیرہ ٹی وی کے ساتھ گفتگو کے دوران کہا کہ ڈاکٹر کارسن کی باتیں انسان کے لیے ناقابلِ تصور ہیں کیونکہ ''پاگل کتوں کا صرف یہی حل ہوتا ہے کہ انہیں مار دیا جائے‘‘۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک صدارتی امیدوار برنی سینڈرز کہتے ہیں کہ امریکہ میں بڑھتی ہوئی اسلامو فوبیا ان کے لیے ''ایک قابلِ تشویش بات ہے۔ لوگ ووٹ ہتھیانے کے لیے ایک مذہبی گروہ کو دائو پر لگا رہے ہیں۔ امریکہ ایسی باتوں کے لیے نہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے دیگر ہم نوا اسی نکتے کو سمجھنے سے قاصر ہیں‘‘۔ ایک زمانے میں امریکہ میں سیاہ فاموں پر پابندی تھی کہ وہ سفید فام امریکیوں کے ساتھ مل کر کھا پی سکتے تھے‘ نہ ان کے ساتھ بیٹھ سکتے تھے ‘اور نہ ہی ایک ساتھ رہ سکتے تھے۔ اس کی وجہ ان کی چمڑی کی رنگت تھی۔ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ نے‘ جو امریکہ میں سیاہ فاموں کے حقوق کی جدوجہد کے لیے شہرت رکھتے ہیں، 1967ء میں ہی خبردار کر دیا تھا کہ ''نسلی تعصب بہت بری شے ہے کیونکہ اس کا نتیجہ بالآخر نسل کشی ہوتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ محض اپنی نسلی جڑوں کے باعث میں کوئی اس کے گھر کے قریب رہنے کے لائق نہیں، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ میں کھانے کی میز پر اس کے ساتھ کھانا کھانے کے لائق نہیں یا میں اس لائق نہیں کہ اسی کی مانند ایک اچھا اور باوقار ذریعہ روزگار مجھے بھی میسر ہو یا اس کے ساتھ ایک ہی سکول میں پڑھنے کے میں لائق نہیں تو شعوری یا لاشعوری طور پر وہ یہ کہہ رہا ہے کہ میں زندہ رہنے کے بھی لائق نہیں ہوں‘‘۔
امریکہ میں نسلی تعصب آج بھی موجود ہے اور پنپ رہا ہے۔ ''بلیک لائیوز میٹر‘‘ نامی ایک تنظیم ہے جس کی بنیاد ان سیاہ فام امریکی نوجوانوں نے رکھی ‘جو محسوس کرتے ہیں کہ امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے سیاہ فاموں کے ساتھ تعصب روا رکھتے ہیں اور اپنے تحفظ کی آڑ میں سیاہ فاموں کو بے دریغ گولی مار دی جاتی ہے۔ جہاں تک ملازمتوں کے حصول کا تعلق ہے، تحقیقی مطالعات سے ثابت ہوا ہے کہ جن علاقوں میں ری پبلکن پارٹی کا تسلط ہے‘ وہاں ملازمتیں دینے والے اُن امیدواروں کو شاذ ہی انٹرویو کے لیے بلاتے ہیں جن کے سوشل نیٹ ورکنگ پروفائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ Pew ریسرچ سنٹر کے مطابق جن دس امریکی ریاستوں میں 2012ء کے صدارتی انتخابات کے لیے ری پبلکن پارٹی کے امیدواروں کا تناسب سب سے زیادہ تھا، وہاں ملازمتوں کے لیے درخواست دینے والے سترہ فیصد عیسائی امیدواروں کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا تھا‘ جبکہ اس کے مقابلے میں مسلمان امیدواروں کی شرح صرف دو فیصد تھی۔ ہم اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر جانتے ہیں کہ اگر آپ کے نام میں ''محمد‘‘ آتا ہے تو امریکہ میں ملازمت ڈھونڈنے میں آپ کو بے حد مشکل پیش آئے گی۔ بد قسمتی سے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار کوئی بھی نہیں کر سکتا؛ حالانکہ اگر آپ گوگل کریں تو معلوم ہوگا کہ ''محمد‘‘ دنیا بھر کا مقبول ترین نام ہے۔ اس کے باوجود عام امریکی اس قدر جاہل، تنگ نظر اور متعصب ہیں کہ ان کا خیال ہے چونکہ چند ایک دہشت گردوں کے نام میں ''محمد‘‘ آیا تھا‘اس لیے ہر وہ آدمی جس کے نام میں یہ لفظ آتا ہے وہ یقیناً دہشت گرد ہوگا۔ قارئین کو وہ ''گھڑی والا بچہ‘‘ احمد محمد تو یاد ہوگا‘ جس کی گرفتاری ایک عالمی خبر بنی تھی اور اسے اس لیے گرفتار کیا گیا تھا کہ وہ ایک گھڑی بنا کر سکول لایا تھا تاکہ اپنے 
اساتذہ کو دکھا سکے۔ اس کے اساتذہ اس گھڑی کو ایک بم سمجھ بیٹھے اور انہوں نے پولیس بلا لی۔ پولیس نے آکر احمد محمد نامی اس بچے کو ہتھکڑی لگا دی ۔ یہ بچہ اور اس کا خاندان اب امریکہ سے نقل مکانی کر کے قطر میں مقیم ہے۔ احمد محمد سے جبری اعترافی بیان لینے پر اس کا وکیل ذمہ دار افراد کے خلاف پندرہ ملین ڈالر ہرجانے کا مقدمہ تیار کر رہا ہے۔ اس کے گھر والے کہتے ہیں کہ احمد کی ساکھ پر ایک مستقل دھبہ پڑ چکا ہے۔ انہیں صرف ہرجانہ ہی نہیں چاہیے بلکہ وہ شہر کے میئر اور پولیس چیف سے تحریری معافی کا بھی تقاضا کر رہے ہیں۔ احمد محمد نے صدر اوباما کی توجہ بھی حاصل کی تھی جس کے بعد اسے اور اس کے گھر والوں کو وائٹ ہائوس بلایا گیا تھا۔ فیس بک کے خالق مارک ذکر برگ نے بھی ایک منفر د گھڑی تخلیق کرنے پر احمد محمد کو سراہتے ہوئے اسے ملاقات کی دعوت دی تھی۔ یہ خاندان اکتوبر ہی میں امریکہ چھوڑ چکا ہے لیکن ٹیکساس میں یہ قصہ ابھی تک مشہور ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے وہاں ایک مسجد کے باہر چند لوگوں کے ایک گروپ نے ہاتھوں میں ہتھیار اٹھا کر مسلمانوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ان لوگوں نے ایک جھنڈا بھی اٹھا رکھا تھا جس پہ لکھا تھا کہ امریکہ کو اسلامیانا بند کرو۔ امریکہ میں شہری آزادیوں کی یونین ACLU کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی جانب اشارہ کر کے انہیں یوں الگ کرنا اور اس خیال کو فروغ دینا کہ ہر اسلامی چیز غیر امریکی ہے، ناانصافی اور امتیازی رویے کی انتہا ہے اور اسے رد کر دینا چاہیے۔ ایک مذہبی گروہ کا یوں ہوّا کھڑا کر دیناکسی پھسلواں ڈھلوان پر چلنے کے مترادف ہے۔ اس سے صرف ایک ایسی چیز کو فروغ مل رہا ہے جو اس ملک میں اچھائی کے پرچارکوں کے سنجیدہ ترین مقصد یعنی سب کے لیے برابری کے اصول کے قیام کے صریحاً برعکس ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved