صدر مملکت ممنون حسین سلجھے ہوئے اور سمجھدار انسان ہیں۔ چند ماہ قبل انہوں نے پاکستان کے تمام مکاتب فکرکے نمائندہ علمائے کرام کو ایوان صدر میں مدعو کیا اور ان سے مالی بدعنوانیوں کے خاتمے کے لیے تجاویز طلب کیں۔ میں بھی اجلاس میں موجود تھا۔ صدر مملکت نے اس موقع پر علماء کو اس امر سے آگاہ کیا کہ وہ دین سے نہ صرف دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ مدرسے سے باقاعدہ ابتدائی دینی تعلیم بھی حاصل کر چکے ہیں۔ صدر مملکت کا دینی ذوق اور معلومات سن کر علمائے کرام بہت متاثر ہوئے۔ اس مجلس میں جن علمائے کرام کو تجاویز پیش کرنے کا موقع میسر آیا ان میں، میں بھی شامل تھا۔ میں نے اس موقع پر عرض کیا تھا کہ مالی بد عنوانیوں کا کوئی اخلاقی، قانونی اور شرعی جواز نہیں اور اس قسم کے جرائم میـں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی سفارش اور اثر و رسوخ قبول نہیں کرنا چاہیے۔ پارٹی سے بالا تر ہو کر احتساب کے عمل کو آگے بڑھانا چاہیے۔ میں نے نبی کریمﷺ کے عہد مبارک کی ایک مثال بھی پیش کی ۔ کہ جب بنو مخزوم کی ایک معروف عورت نے چوری کا ارتکاب کیا تو حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارگاہ رسالت مآب میں سفارش کے لیے روانہ کیا گیا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوںگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر سابقہ امتوں کی تباہی کے ایک بڑے سبب کا بھی ذکر کیا کہ ان میں سے اگر کوئی چھوٹا جرم کرتا تو اس کو سزا دی جاتی اور اگر کوئی بڑا جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا۔ صدر مملکت نے تمام علماء کو نہایت توجہ سے سنا اوربعد ازاں بڑے پرتپاک انداز میں فرداً فرداً تمام علماء سے ملاقات بھی کی۔ تقریب کے اختتام پر بڑی شاندار ضیافت کا بھی اہتمام تھا۔ ایوان صدر سے نکلتے وقت تمام علماء توقع کر رہے تھے کہ صدر مملکت اپنی حیثیت کے لحاظ سے ملک کی اصلاح کے لیے ضرور کوئی کردار ادا کریں گے۔علماء سمجھتے تھے کہ پارلیمانی نظام میں گو اختیارات کا اصل مرکز وزیراعظم ہے لیکن سربراہ مملکت بھی کسی نہ کسی اعتبار سے پالیسی سازی کا رخ متعین کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
صدر مملکت کی تواضع اور انکساری کے مثبت تاثر کو اپنے اذہان وقلوب میں لیے تمام علماء اپنے مدارس ، اداروں اور گھروں کو لوٹ آئے۔ علمائے کرام کو امید تھی کہ صدر مملکت اپنے دور صدارت میں اسلام اور نظریہ پاکستان پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔لیکن حال ہی میں ہونے والی ایک تقریب کے مندرجات نے علماء کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا۔ صدر مملکت نے فیصل آباد میں ایکسپورٹ ایکسی لینس ایوارڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہاؤس بلڈنگ پر قرضے کی گنجائش پیدا کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ علمائے کرام اس مسئلے پر غور کریں کیونکہ یہ مجبوری ہے اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہاؤس بلڈنگ کی تعمیر کے لیے سود کو جائز قرار دیا جائے اور اس پر ملک کے نامور علماء بحث کریں۔ اس ضمن میں انہوں نے ممتاز سکالر ڈاکٹر حمید اللہ کا حوالہ دیا۔صدر مملکت کے اس بیان نے مذہبی حلقوں میں بے چینی کی لہر پیدا کر دی ہے اس لیے کہ جناب ممنون حسین کسی عام ملک کے سربراہ نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اور قرار داد مقاصد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قرآن وسنت کی بالادستی کی ضمانت دیتے ہیں۔ اس لیے صدر مملکت کو قرآن وسنت اورآئین ِ پاکستان کی پاسداری کرتے ہوئے کوئی بھی ایسا بیان نہیں دینا چاہیے جس کے نتیجے میں حرام کو حلال بنانے کی کوشش کی جائے۔صدر مملکت کا یہ بیان ان کے دینی ذوق اور دینی معلومات سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ یقینا وہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہیں کہ کتاب وسنت میں سود کو کلی طور پر حرام کیا گیا ہے۔
فقط یاد دہانی کے لیے قرآن مجید کے بعض مقامات سے سود کی حرمت اور قباحتوں کو بیان کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔اسی سورہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیںکہ اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جوسودوہ کھا چکا سو کھا چکا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دورزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سود کا لین دین کرنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والا قرار دیا ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ ضروریات زندگی کے لیے قرضے لینے والے لوگ تو ریاست اور اصحاب خیر کی توجہ کے مستحق ہیںجب کہ ملک کی اہم ترین شخصیات ان کو ضروریات زندگی کے لیے دئیے جانے والے قرضوں پر سود کی ادائیگی کی تلقین کر رہی ہیںاور اس حوالے سے علماء کے تعاون کو بھی طلب کیا جا رہا ہے ۔قرآن مجید میں جہاں تجارت کی حوصلہ افزائی اور باطل طریقوں سے لوگوں کا مال کھانے والے کی مذمت کی گئی ہے وہیں پر اسلام نے بدحال ، ضرورت مند اور حاجت مند طبقات کی معاونت کے لیے زکوٰۃ وصدقات کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔
قرآن مجید کے بعض مقامات پر سود اور زکوٰۃ کا ذکر ایک ہی مقام پرکرکے ان کے فرق کو واضح کیا گیاہے۔ سو رہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اسی طرح سورہ روم میں اللہ تعالیٰ نے سود کے ذریعے اموال کی افزائش کی نفی اور زکوٰۃ کے ذریعے اموال میں اضافے کا ذکر کیا ہے۔ ان آیات پر غورو فکرکرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ایک مسلمان کا کام ایک ضرورت مند آدمی کی ضرورت سے ناجائز فائدہ اُٹھانا نہیں بلکہ مشکل کی گھڑی میں اس کی معاونت کرنا ہے۔ ضرورت مند اور حاجت مند افراد کی مشکل کو نظر انداز کرکے مال جمع کرنا کسی طرح بھی مثبت نہیں۔ اس ناجائز کام کے ذریعے وقتی طور پر مال تو جمع کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا نتیجہ بالآخر دنیا میں مال کی بربادی اور آخرت میں اللہ کی ناراضگی کی شکل میں نکلتا ہے۔ ضرورت مند افراد کی دو وقت کی روٹی ، علاج معالجے کی سہولیات اور سر چھپانے کے لیے ایک اوسط در جے کے گھر کا انتظام کرنا فلاحی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اس کارخیر کو انجام دینے کے لیے ریاست کو اپنے مالی وسائل کے ساتھ ساتھ اصحاب خیر سے معاونت طلب کرنی چاہیے۔ ہاؤس بلڈنگ کے لیے قرضہ لینے والے لوگ بالعموم غریب یا متوسط طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قرضہ دے کر ان سے اضافی رقم طلب کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں۔ اگر وہ محنت مزدوری کرکے قرضے کی اصل رقم اتار دیتے ہیں تو اس پر اکتفا کرنا چاہیے اور ان پر کسی بھی طور پر اضافی بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔
پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر بنا تھا اور امید ہے ہمارے ملک کے حکمران اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کی بجائے ان کی تابعداری کے راستے کو اختیار کرکے دنیا وآخرت کی کامیابیوں کو سمیٹنے کی طرف توجہ کریں گے اور صدر مملکت اپنے دینی علم سے استفادہ کرتے ہوئے ایسے معاملات میں اجتہاد کا دروازہ کھولنے کی اپیل نہیں کریں گے ،جن معاملات کوساڑھے چودہ سو برس قبل اللہ سبحانہُ وتعالیٰ نے اپنی کتاب اور حضرت رسولﷺ نے اپنی سنت مبارکہ و مطہرہ میں طے کر دیا۔
پس نوشت:کالم پریس میں جا رہا تھا کہ صدارتی ترجمان کی طرف سے تردید آ گئی اور بتایا گیا کہ جناب صدر نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔ صدر محترم کی دین سے وابستگی کے تناظر میں ان سے یہی توقع تھی۔ یقینا وہ ایسی بات منہ سے نہیں نکال سکتے جو شعائرِ اسلام کے خلاف ہو۔