مشکل یہ ہے کہ مایوسی نے دلوں میں گھر کر لیا ہے۔ یہی کفر ہے، یہ اٹوٹ مایوسی۔ یہ ہمت وحوصلے کو چاٹ جاتی اور جیتے جاگتے انسانوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتی ہے۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟
برادرم احمد بلال محبوب نے کمال کا مضمون لکھا ہے۔ قدیم عربوں نے خطبے کے لئے فصاحت کے جو اصول وضع کیے تھے، ان میں سے بیشتر تحریر پر صادق آتے ہیں۔ جس بات کو چھیڑا جائے، اسے مکمل کیا جائے، تکرار سے گریز رہے، الفاظ کم ہوں نہ زیادہ، ابہام نہ غیر ضروری وضاحت، مثال، تشبیہہ اور استعارہ موزوں تر ہوں اور دراز نہ کیے جائیں۔ فوج سول تعلقات یوں بھی ان کا موضوع ہے۔ معاملے کی اس خوبی سے انہوں نے وضاحت کر دی ہے کہ اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور نہ اس میں کوئی خاص اضافہ ممکن ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ تعلقات کا انحصار شخصیات پر نہیں، اداروں کی سطح پر ہونا چاہیے ،ایک نظام کار کے تحت۔ پاکستان کی تاریخ کا ملخص بیان کرنے کے بعد بھارت، برطانیہ اور امریکہ کی مثالیں انہوں نے دی ہیں۔ انگریزی نظام شاید سب سے بہتر ہے جہاں دو سو افراد کا عملہ ہے اور ہر ہفتے نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔
مشورہ ان کا یہ ہے کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔ بجا ارشاد، بجا ارشاد مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ وزیراعظم موجودہ برے بھلے نظام سے بھی بیزار ہیں۔ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس سال بھر سے نہیں ہوا۔ کون انہیں قائل کرسکتا ہے کہ وہ صدیوں کے سفر میں طے ہونے والے اصولوں کا سہارا لے کر دلدل سے نکلنے کی کوشش کریں۔ جو آدمی قومی سیاست کو اپنے خاندان اور ذات برادری تک محدود رکھنا چاہتا ہے۔ جس کے لوگ بلدیاتی الیکشن کے لیے اسلام آباد کی کچی آبادیوں میں روپیہ بانٹ رہے ہیں۔ تمام ملک کے برعکس پولنگ کے دن اسلام آباد میں مقامی تعطیل سے انکار کر دیا گیا ہے کہ ملازمت پیشہ لوگوں میں تحریک انصاف کے ووٹ شاید زیادہ ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کو فوجی آمر نے ،لیڈر کی بجائے جو تربیت کرتا اور مردانِ کار کی کھیپ پیدا کرتا ہے، جو اختیارات دیئے تھے ،وہ بھی واپس لے کر نوکر شاہی کو عطا کر دیئے گئے ہیں،یعنی واپس وزیراعلیٰ کے پاس جو فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بنے رہنے پر مصر ہیں۔ثانیاً، یہ الیکشن خوش دلی سے نہیں، سپریم کورٹ کے دبائو پر ہو رہے ہیں۔ ثالثاً، ریاستی مشینری اور وسائل کا بے دریغ استعمال ہے۔ اسلام آباد کی ایک کچی آبادی میں، عدم ادائیگی پر جس کی بجلی کاٹ دی گئی تھی، ایک امیدوار نے 37 لاکھ کے بل چکا دیئے ۔اب وہ خاک نشیں کس کو ووٹ دیں گے، اپنے قاتلوں کو۔ پھر جہاں تک ممکن ہوسکا، زیادہ سے زیادہ ٹکٹ جرائم پیشہ ارب پتیوں کو دیئے گئے۔ جمہوریت نہیں، یہ جمہوریت کے نام پر ایک مضحکہ خیز تماشا ہے۔ ملک اسی لئے ایوب خانوں، ضیاء الحقوں اور پرویز مشرفوں کو گوارا کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ ہم سب کی طرح احمد بلال محبوب بھی جانتے ہیںکہ ایک خوش پوش، عالم فاضل وفاقی وزیر نے اپنے حلقے میں غنڈے پال رکھے ہیں، اشتہاری مجرم۔ آزاد امیدوارکے طور پر وہ چند سو ووٹ
ہی لے سکے تھے۔ اب وہ شان و شوکت سے ظفرمند ہوتے اور دانش بھگارتے ہیں۔
دانش بھگارنا، ایک چیز ہے اور کام کر دکھانا بالکل دوسری۔ جس طرح بڑے موسیقار، شاعر اور مصور فراواں نہیں ہوتے، عظیم منتظم بھی کمیاب ہوتے ہیں۔ اولین اصول وہی ہے کہ وہ اپنے مقصد سے پوری طرح مخلص اور ایماندار ہوں۔ پھر حکمت و تدبیر اور ریاضت کا سوال اٹھتا ہے۔ جن لوگوں نے اخلاقی اقدار اور عوامی مفاد کو پامال کرنے کا تہیہ کر رکھا ہو۔خود غرضی جن کا دین ایمان ہو، حکمت عملی پر انہیں لیکچر دینے سے کیا حاصل؟۔
یہ 1991ء تھا، جب لندن سے پاکستانی نوجوانوں کا ایک وفد اسلام آباد پہنچا۔ فیصلہ صادر کرنے والوں کے سامنے انہوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت واضح کی،جو عہد آئندہ کو منور کرنے والی تھی۔ ایک منصوبہ پیش کیا، جس پر عمل کیا جاتا تو آج ملک دس بیس ارب ڈالر زرمبادلہ سالانہ کما رہا ہوتا۔ ہزاروں نہیں، لاکھوں ملازمتیں پیدا ہو چکی ہوتیں۔ اس اقتصادی بحران کا نام و نشان تک نہ ہوتا، جس نے اٹھارہ کروڑ انسانوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ کیوں یہ منصوبہ پروان نہ چڑھ سکا؟۔ اس لئے کہ کباب کی خوشبو پا کر بلی نے اپنا حصہ طے کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس نے کہا، اگر ایک کاروباری ادارہ تشکیل پائے گا، تو اس میں ان کے مفادات کا ابھی سے تعین کردیا جائے۔
یہ قصہ کئی بار بیان کیا جا چکا ہے کہ 2007ء میں عمران خان پہلی بار جدید ملائیشیا کے معمار مہاتیر محمد سے ملے تو انہوں نے معاشی فروغ کا سیدھا اور صاف راستہ انہیں بتا دیا۔ کہا کہ ملائیشیا کا ایک شہری جو کچھ سال بھر میں سیکھتا ہے، پاکستانی چھ ماہ میں کر دکھاتا ہے۔ بتایا کہ 50 ڈالر فی کس آمدن رکھنے والے، نیم تعلیم یافتہ ملک میں جدید آلات کی تیاری کا آغاز انہوں نے درآمدی پرزے جوڑنے سے کیا تھا۔ اس کے بعد سکول کھلے، کالج اور پھر یونیورسٹیاں۔ ادھر ڈاکٹر عطاء الرحمن فریاد کر رہے ہیں۔ مستقبل کی اہم ترین نینو ٹیکنالوجی کے لیے مختص کردہ اسی کروڑ روپے کہیں غائب ہو گئے۔ شاید کسی پل، سڑک یا میٹرو کی نذر ہوئے۔ سال گزشتہ نوروز کے موقع پر ایران جانے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ اہل فارس نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں تمام مسلم ممالک سے آگے ہیں۔ کینسر کی ایک دوا دکھائی گئی، جو اتنی ہی مؤثر تھی اور دس فیصد پہ دستیاب۔ یہاں عالم یہ ہے کہ سبزیوں اور پھلوں پر غیر ضروری سپرے، کینسر کے ان گنت مریض پیدا کر رہا ہے۔ کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ سرکاری کے علاوہ بھی ان کے ذاتی محلات ہیں اور ہزاروں ایکڑ پر پھیلے ہوئے کھیت۔ صرف ایک شہزادے نے گزشتہ چند برس میں ہزاروں ایکڑ مزید زرعی اراضی خریدی ہے۔ سندھ میں یہی کارنامہ زرداری صاحب نے انجام دیا ہے۔
سامنے کی بات یہ ہے کہ ملک کو جدید جمہوری سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔ لاکھوں ذہین اورپرجوش نوجوان موجود ہیں، جن کی بنیاد پر وہ ٹیمیں تشکیل دی جاسکتی ہیں، جو سٹیل مل، واپڈا، پی آئی اے اور ریل جیسے ادارے چلا سکیں۔ جو جدید پولیس اور جدید نوکر شاہی تشکیل دے سکیں۔ نواز شریف اور زرداری سے ہرگز کوئی امید نہیں۔ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ رہ گئے عمران خان تو انہیں ایک سیاسی جماعت کی اہمیت کا سرے سے ادراک ہی نہیں۔ تحریک انصاف کو وہ حصول اقتدار کا پلیٹ فارم سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ اگر ایک بار اقتدار مل گیا تو بتدریج ہر چیز وہ ٹھیک کر لیں گے۔ اول تو مغرب اور عرب ممالک کے علاوہ کاروباری فرعونوں کی مدد سے کام کرنے والا مافیا انہیں آسانی سے اقتدار میں آنے نہ دے گا۔ فرض کیجیے عوامی طوفان سے یہ مرحلہ وہ طے کر لیں تو اول دن سے سازشوں کا آغاز ہو جائے گا۔ ایک منظم اور تربیت یافتہ جماعت ہی جن کا مقابلہ کر سکتی ہے، فرد واحد نہیں۔ اس لیے کہ بگاڑ ہر کہیں ہے اور آئین پر عمل درآمد کی کوئی روایت موجود نہیں۔
پس چہ باید کرد؟ ناچیز کہتا ہے، ایک نئی سیاسی جماعت آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پانچ برس کے بعد لازماً بنانا ہو گی۔ تحریک انصاف پر عملی دبائو ڈال کر وہ اسے بھی راہ راست پر لانے میں مددگار ہو سکتی ہے، جب بھی آغاز ہو گا، اتنی ہی مسافت طے کرنی ہو گی۔ لگ بھگ ایک عشرے کی۔
مشکل یہ ہے کہ مایوسی نے دلوں میں گھر کر لیا ہے۔ یہی کفر ہے، یہ اٹوٹ مایوسی۔ یہ ہمت وحوصلے کو چاٹ جاتی اور جیتے جاگتے انسانوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتی ہے۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟