ترک فضائیہ کی طرف سے روسی بمبار طیارے کو گرائے جانے کا واقعہ پیش آنے کا خدشہ موجود تھا کیونکہ شام کی فضا مختلف ممالک کے جنگی طیاروں کی پروازوں سے اس قدر بوجھل ہے کہ ایسا تصادم ناگزیر دکھائی دیتا تھا۔ اس وقت امریکہ ، برطانیہ، فرانس، اردن، یواے ای، آسٹریلیا، روس اور خود شامی فضائیہ کے طیارے مختلف اہداف کو مختلف، اور بسا اوقات متضاد ، مقاصد کے تحت نشانہ بنارہے ہیں۔ اس جنگ میں روس کی شمولیت کے بعدآشکار ہونے والی چشم کشا حقیقت یہ تھی کہ امریکی جنگی طیارے داعش کی تیل کی تنصیبات اور سپلائی نیٹ ورک سے اغماض برت رہے تھے۔ انداز ہ ہے کہ داعش یومیہ ایک ملین ڈالر کا تیل فروخت کرتی ہے اور یہ بھی ایک کھلاراز ہے کہ یہ تیل ٹرکوں کے ذریعے ترکی پہنچتا ہے۔ کچھ عرصے سے یہ افواہ بھی گردش میں تھی کہ ترکی کے تاجر، جو داعش کو اشیا کی فراہمی اور سستے تیل کی تجارت سے بھاری نفع کمارہے ہیں، اُن کا تعلق مبینہ طور پر موجودہ ترک صدر، طیب اردوان کی حکومت سے ہے۔ جو بھی حقیقت ہو، ایک بات سامنے دکھائی دیتی ہے کہ داعش سے سستا تیل خرید کر اور اُسے اشیا کی فراہمی سے ترکی کو بھاری فائدہ پہنچ رہا تھا، چنانچہ وہ ہر گز نہیں چاہتے تھا کہ روسی طیارے اس سپلائی لائن کو تباہ کریں۔پیرس حملوں سے پہلے تک امریکی اور فرانسیسی طیارے داعش کی تیل کی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنارہے تھے۔
اس دوران اہم پیش رفت دو مشہور ترک صحافیوں کی گرفتاری تھی۔ اُنھوں نے انکشاف کیا تھا کہ ترکی کے خفیہ ادارے شام میں ترکمان باغیوں کو ہتھیار فراہم کررہے ہیں۔ اگرچہ مغربی دنیا اور غیر ملکی صحافی اس بات سے کافی عرصہ سے باخبر تھے لیکن داخلی طور پر یہ بات طیب اردوان کے لیے شرمندگی کاباعث بنی کہ ایک تو اُن کا ملک دہشت گردوں سے لڑ رہا ہے اور پھر اس نے دہشت گردوں پر بمباری کرنے والے طیارے کو گرا کر ، بقول صدر پیوٹن، ''روس کی پشت میںخنجر گھونپا ہے‘‘۔اگرچہ ترکی کا موقف یہ ہے کہ روسی طیارے نے اُس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی اوراسے متعدد بار وارننگ دی گئی تھی۔ روس اس الزام کی ترید کرتا ہے۔ ترکی کا دعویٰ ہے کہ طیارے نے سترہ سیکنڈتک اُس کی سرزمین پر پرواز کی ، لیکن امریکہ کے مطابق پرواز کا دورانیہ صرف پانچ سیکنڈ تھا۔ حقیقت جو بھی ہو، ایک بات طے ہے کہ گرایا جانے والے طیارہ صرف اسد حکومت کے خلاف لڑنے والے ترکمان باغیوں کو ہدف بنارہا تھا، اس سے ترکی کو کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔ روس کے ریسکیو ہیلی کاپٹر پر فائرکیے جانے والا TOW میزائل امریکی ساختہ تھا اور اس کو خریدنے کے لیے رقم کی ادائیگی ایک اہم عرب ریاست نے کی تھی۔
ان تمام متضاد اور باہم متحارب مقاصد نے کم از کم ایک بات کو یقینی بنادیا ہے کہ شام میں موجود خطر ے کے تدارک کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ جس وقت پیرس حملوں کے بعد فرانسیسی صدر فرانکو اولاند داعش مخالف اتحاد بنانے کی کوشش کررہے تھے، روسی طیارہ گرانے کے واقعے نے مسائل کی پیچیدگی بڑھا دی۔ اس پس ِ منظر میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ترکی نے روسی طیارہ کیوں گرایا جو اس کی فضائی حدودمیں صرف چند سیکنڈ کے لیے آیا تھا۔ شاید کسی کو یا د ہو کہ 2012ء میں شام نے بھی ترکی کا ایک طیارہ ایسی ہی فضائی حدود کی خلاف ورزی کو جواز بنا کر مارگرایا تھا۔ اُس وقت مسٹر اردوان کا کہنا تھا ۔۔۔''فضائی حدود کی ہلکی سی خلاف ورزی پر حملہ کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔‘‘ نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے بھی اس واقعے کو ''شام کی طرف سے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی‘‘ کی ایک اور مثال قرار دیا تھا۔
یہ عالمی اصول کیا ہیں؟عام طور پر ائیرفورسز اپنی حریف ریاست کی دفاعی تیاری کا جائزہ لینے کے لیے کبھی کبھار اپنے لڑاکا طیارے اُس کی سرحد کے قریب بھیج دیتی ہے۔ اس کے رد ِعمل میں دوسرے ملک کا دفاعی نظام اُن طیاروں کو ریڈیو پر وارننگ دیتاہے کہ وہ سرحد سے دور رہیں۔ اگر وہ باز نہ آئیں تو اپنے جنگی طیارے فضا میں بھیج کر اُن کے قریب لے آتا ہے۔ اگلے قدم میں اُن کے قریب سے گزرنے والا میزائل فائر کیا جائے گا۔ جب تک اُن سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو، اُنہیں گرایا نہیں جاتا۔ ایک دفاعی ماہر کا کہنا ہے کہ اگر ہلکی سی فضائی خلاف ورزی پر طیاروں کو گرانا روا رکھا جائے تودنیا میں بہت کم طیارے باقی بچیں۔ عام طور پر ہلکی فضائی خلاف ورزی کے زیادہ تر واقعات رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔ درحقیقت ترک فضائیہ نے گزشتہ چند ایک عشروںکے دوران یونا ن کی فضائی حدود کی سینکڑوںمرتبہ خلاف ورزی کی ہے لیکن دوسری طرف سے کسی رد ِعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔
اگرچہ عوامی سطح پر نیٹو میں شامل ریاست(ترکی) کے ایکشن کی حمایت کی جارہی ہے لیکن زیادہ مغربی ریاستیں اس پر ناخوش ہیں۔ کچھ مغربی دارالحکومتوں میں تو طیارہ گرائے جانے پر غصہ بھی پایا جاتا ہے کیونکہ اُنہیں امید تھی کہ روس کے فوجی اور سفارتی تعاون سے وہ داعش کے خلاف ایک طاقتور کولیشن بنانے میں کامیاب ہوجائیںگے۔ کچھ تو داعش کی تباہی سے پہلے بشارالاسد کو وقت دینے کے لیے تیار تھے۔ تاہم اب صدر پیوٹن ترکی پر غصے میں ہیں ، چنانچہ داعش کو شکست دینے کے لیے کسی کولیشن کے وجود میں آنے کے امکانات دم توڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترکی نے روسی طیارے کو گرا کر اتنا بڑا رسک کیوں لیا؟یقینا اسد مخالف قوتوں کے خلاف روسی مہم بہت موثر ثابت ہورہی تھی۔اس پر انقرہ اور ایک عرب ملک، دونوں کو تشویش تھی۔ اس کے علاوہ شام کے ترکمان جنگجو ، جو روسی طیاروں کا نشانہ تھے، کے نسلی تعلقات ترکی سے ہیں۔ یہ شام کی خانہ جنگی میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور نسلی رقابت کی صرف ایک مثال ہے۔ ابھی تک شام میں کارروائیاں کرنے والوں کو یہ بھی سمجھ نہیں آرہی کہ داعش درحقیقت کیا ہے؟جب کنفیوژن کی فضااتنی گہری ہوتو کس طرح جنگ جیتی جاسکتی ہے؟یہ بھی حقیقت ہے کہ ترکی، یواے ای ، امریکہ اور ایک اہم خلیجی ملک جو ہتھیار اسد حکومت کے باغیوں کو فراہم کررہے ہیں، وہ آخر کار داعش کے جنگجووں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔
پیچیدہ ہوتی ہوئی اس صورت ِحال میں روس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مغرب کے ساتھ روابط بہتر بنائے تاکہ یوکرائن کے بحران کے بعد اس پر عائد پابندیاں ختم ہوسکیں۔ اس وقت روس کی طرف سے ترکی پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ چونکہ ہر سال لاکھوں روسی شہری ترکی کے سیاحتی مقامات پر رخ کرتے تھے، اس لیے ترکی کے محصولات میں یقینا کمی واقع ہوگی۔ روسی سیاحوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ وہ دنیا میں دیگر منازل کا رخ کریں۔ ا س کے علاوہ روس ترکی کے ساتھ کی جانے والی تجارت اور معاہدوں پر نظر ِ ثانی کررہا ہے۔ حالیہ دنوں ترک معیشت پہلے ہی دبائو کا شکار ہے، ان اقدامات سے اسے مزید صدمہ پہنچے گا۔
But whatever happens, the civil war in Syria is likely to grind on, spawning more refugees and taking even more lives. Only a more rational campaign devoid of sectarian passions and tribal rivalries will succeed.