بھارت کے دیرینہ دوست اور اتحادی ‘روس نے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور عدم برداشت کی وجہ سے اپنے شہریوں کوبھارت کا سفر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ایک دیرینہ دوست اور اتحادی کی طرف سے یہ فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت میں گزشتہ ایک سال کے دوران‘ عدم برداشت کے جو پے در پے واقعات رونما ہو رہے ہیں‘ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی سماج میں بڑھتی ہوئی تنگ نظری‘ وبا کی طرح تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس کا آغاز‘ مودی حکومت کے بر سراقتدار آتے ہی ہو گیا تھا۔ بی جے پی حقیقت میں بھارت کے تمام تنگ نظر ہندو گروہوں کے مجموعے کا نام ہے۔ ماضی میں تنگ نظر ہندو گروہ‘ جو الگ الگ کام کر رہے تھے‘ انتخابی ضروریات کے تحت وہ سارے مل کر‘ ایک سیاسی چھتری تلے جمع ہوئے اور اس کا نام بھارتیہ جنتا پارٹی رکھا گیا۔جو متعصب ‘جارحیت پسند اور تشدد کے حامی گروہ‘ اس پارٹی کا حصہ بنے ان میں آر ایس ایس‘ ویشوا ہندو پریشد‘ شیو سینا ‘ آریہ سماجی ‘ شدھی تحریک‘شاتریہ سوامی‘ سیوک سنگھ‘ جن سنگھ اور خدا جانے کتنے چھوٹے چھوٹے گروپ شامل تھے۔1998ء میں سارے گروپ جو نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس کے نام سے اکٹھے ہوئے‘ ان انتخابات میں انہیں قابل ذکر کامیابی حاصل ہوئی لیکن ایوان میںاکثریت سے محروم رہے۔ایک دو اور چھوٹے چھوٹے گروہوں کو ساتھ ملا کرنیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے ‘ اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت مخلوط حکومت قائم کی گئی۔ اس سے پہلے کہ واجپائی ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرتے‘ انہیں اندازہ ہو گیا کہ وہ اکثریت حاصل نہیں کر پائیں گے ؛چنانچہ 13دن کے بعد ‘وہ استعفیٰ دے گئے ۔ 2004ء کے عام انتخابات میںبی جے پی کے بنائے گئے اتحاد‘ این ڈی اے کو شکست ہوئی۔ بی جے پی نے پرانے انتخابی اتحاد سے نکل کر‘ ایوان کے اندر‘ اپوزیشن پارٹی کی حیثیت سے کام کیا اور 2014ء کے عام انتخابات میں‘ بی جے پی کی پوری سنیئر قیادت‘ وزارت عظمیٰ کے منصب سے دستبردار ہو گئی(یا کر دی گئی) اور گجرات کے سابق وزیراعلیٰ‘نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا گیا۔
بی جے پی کا پس منظر پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ یہ مذہبی انتہا پسند ہندوئوں کا اجتماع تھا۔ کچھ گروپ بی جے پی میں شامل ہوئے اور دیگر نے اتحادیو ں کی حیثیت سے کام کیا لیکن 2014ء کی بی جے پی‘ جس کی قیادت مودی نے سنبھال لی تھی‘ وہ انتہا پسند ہندو جماعت کی حیثیت اختیار کر گئی۔ انتخابی مہم کے دوران ‘مودی نے ہندو رائے دہندگان کو صرف اپنی طرف متوجہ کیا۔ دو چار مسلمان برائے نام ‘بی جے پی کی صفوں میں شامل رہے اور موجودہ پارلیمنٹ میں بی جے پی کی اکثریت‘ ہندو اراکین پر مشتمل ہے۔اس کی مرکزی اور علاقائی فیصلہ سازی کا اختیار‘ متعصب ہندوئوں کے ہاتھ میں چلا گیا ۔آر ایس ایس‘ در پردہ رہنمائی کی ذمہ داریاں نبھاتی ہے ۔ تشدد پسند ہندوئوں کو کھلی آزادی مل گئی کہ وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف متشدد تحریکیں چلائیں ۔ ابتدا میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا لیکن جلد ہی بیرونی طاقتوں کی طرف سے دبائو آنے پر صرف مسلمان نشانہ بننے لگے۔مسلمان دشمنی میں انتہا پر گئے ہوئے ہندو گروہوں نے مسلمانوں کا جینا مشکل کر دیا۔ دیہات میں ان کے گھر جلائے گئے۔ انہیں قتل کیا گیا۔ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔مگر یہ خبریں بھارتی میڈیا میں نمایاں طور سے سامنے نہیں آسکیں۔حکومت ان سارے واقعات سے بخوبی واقف تھی لیکن کسی صوبے کی پولیس نے ‘ہندو قاتلوں اور درندوں کے خلاف‘ کوئی کارروائی نہیں کی۔ حکومت نے بھی چپ سادھے رکھی۔ یہ طرز عمل دیکھ کر‘ شہری انتہا پسندوں کے حوصلے بھی بڑھ گئے اور وہ مختلف شہروں میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے لگے۔مہاراشٹر کی شیو سینا نے مسلمانوں پر جگہ جگہ وحشیانہ حملے کئے۔وہاں کی صوبائی حکومت بی جے پی کے پاس ہے۔شیو سینا‘ اس میں شامل تو نہیں لیکن نظریاتی اعتبار سے وہ بھی انتہا پسندوں کی حامی ہے۔شیو سینا منظم اور طاقتور ہے۔ اس نے اپنے بانی‘ بال ٹھاکرے کی قیادت میں ‘مسلم دشمنی کی بھر پور تحریک چلائی لیکن اسے کبھی عوامی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔واجپائی کے دور میں‘ انہوں نے بی جے پی کے انتہا پسند لیڈروں کی شہ پا کر‘ اقلیتوں پر مظالم ڈھائے۔ میڈیا نے بھی ان عناصر کی بڑی حد تک حوصلہ شکنی کی۔واجپائی ایک سیاسی مدبر اور وسیع النظر ہندو لیڈرتھے۔ وہ گورننس میں وسیع النظری اور تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقلیتوں کو کافی حد تک حقوق دینے پر یقین رکھتے تھے۔انہوں نے جب لاہورآکر پاکستان کے ساتھ امن کے نئے دور کی بنیاد رکھی تو ان کی جماعت کے ہندو انتہا پسند گروہ‘ بہت تلملائے مگر عوامی سطح پر‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور تعاون کے امکانات دیکھ کر‘انہوں نے مصلحتاً خاموشی اختیار کر لی۔پاک بھارت سمجھوتے کے بعد‘ دونوں ملکوں میں امن کے خوش گوار دورکا انتظار ہونے لگا اور تنازع کشمیر پر کشیدگی ختم کر کے‘ مسئلے کے حل کی مہلت پر بڑی حد تک اتفاق بھی ہو گیا۔ لیکن متعصب ہندوئوں کا انتظار‘ زیادہ دیر باقی نہ رہا اور پاکستان کے سابق چیف آف آرمی سٹاف اور ان کے کچھ ساتھیوں نے کارگل کا محاذ کھول کر ‘ ہندپاک مفاہمت کے تاریخی عہد کے شروع ہونے سے پہلے ہی‘ نفرت کی آگ زیادہ شدت سے بھڑکا دی۔ یہ اچانک حملہ انتہائی غیر متوقع طور سے کیا گیا۔ آج تک کسی کو سمجھ نہیں آئی کہ یہ احمقانہ حملہ کس منصوبے کے تحت کیا گیا تھا؟ چند ہی دنوں کے بعد‘ حملے کا فیصلہ کرنے والے جرنیل‘وزیراعظم کی خوشامدیں کر رہے تھے کہ وہ بری طرح پھنس گئے ہیں۔ وزیراعظم فوری طور پر کوئی ہنگامی اقدام کر یں تاکہ پاکستانی فوجیوں کو بھارت کے نرغے سے نکالا جا سکے‘ جن کے رابطے اپنی فوج سے ٹوٹ چکے ہیں۔ سپلائی کے راستے مسدود ہو گئے ہیں اور انہیں کئی دنوں سے راشن بھی نہیں مل رہا۔ یہ واقعہ برصغیر کے تمام باخبر لوگوں کے حافظے سے ابھی محو نہیں ہوا۔وزیراعظم نوازشریف نے واشنگٹن جا کر‘ صدر کلنٹن کو منوایا۔ پہلے نرغے میں آئے ہوئے پاکستانی فوجیوں کے لئے مہلت مانگی اور جب وہ مہلت کے عرصے کے درمیان واپس نہ آسکے تو دوبارہ نوازشریف سے کہا گیا کہ وہ مہلت میں اضافہ کرائیں۔ صدرکلنٹن نے ذاتی دلچسپی لے کر‘ واجپائی سے واپسی کی مہلت میں اضافہ کرایا۔ بھارتی بیوروکریسی اور فوج کی انتہا پسند لابی‘ واجپائی پر دبائو ڈالتی رہی کہ'' وہ موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ پاکستان ‘خود جارحیت کر کے پھنس گیا ہے ۔ ہمیں اس کا فائدہ اٹھانا چاہئے‘‘ لیکن واجپائی نے پاکستانی فوجیوں کو نکلنے کا وقت مہیا کر کے جنگ بندی کرا دی۔
پورے برصغیر کے عوام میں امن کی جو امید پیدا ہوئی تھی‘ وہ خاک میں مل گئی اور وہ بھارتی عوام‘ جو امن کے سمجھوتے کی امید میںخوشیاں منا رہے تھے‘ انہیں جلد ہی کشمیر کے محاذ سے اپنے فوجیوں کی لاشیں ملنے لگیں اور پورے بھارت میں اشتعال کا ماحول پیدا ہو گیا۔ بھارت میں‘ جہاں کے عوام ‘ہندو مسلم کی تفریق بھول کر‘ پاک بھارت امن کی امید میں خوشیوں کا اظہار کر رہے تھے‘ میںدیکھتے ہی دیکھتے‘ فضا بدل گئی۔واجپائی نے دانائی اور بہترین سیاسی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے‘ تشدد کی متوقع لہر کو روکا اور اس کے بعد‘ دونوں ملکوں میں امن اور دوستی کی توقعات کبھی پیدا نہ ہو سکیں۔بھارت کی بدقسمتی کہ مئی2014ء میں ہندو انتہا پسندوں کے پیروکار‘ نریندر مودی ‘وزارت عظمیٰ پر فائز ہو گئے اور تنگ نظر ہندوئوں کے وہ سارے گروہ‘ جو مدتوں سے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے جتن کر رہے تھے‘ سب کی بن آئی اور صرف ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میں بھارت کو اس حال میں پہنچا دیا کہ اس کے روس جیسے دیرینہ اور آزمودہ دوست نے اپنے شہریوں کو بھارت کے سفر سے روک دیا۔یہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ بھارت کا معاشرہ‘ اب قوت برداشت سے محروم ہو رہا ہے۔ وہاں پر امن سیاحوں کی زندگی بھی محفوظ نہیں اور صدیوں سے وہاں رہنے والے مسلمان ‘ تنگ نظر ہندوئوں کا ہدف ہیں‘ اب انہیں حکومت کی پشت پناہی بھی دستیاب ہو گئی ہے۔ وحشت و بربریت کے حامی‘ انتہا پسند ہندوئوں کو اپنی مرادیں پوری ہوتی نظر آرہی ہیں۔بھار ت میں رہنے والے مسلمانوں کو مزید آزمائشوں سے گزرنا ہو گا۔ا ب صرف بھارت کے اعتدال پسند اور انسان دوست حلقے ہی وحشت و درندگی کی لہر کو روک سکتے ہیں۔ مودی حکومت جلد ہی اپنی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے غیر مقبول ہونا شروع کر دے گی۔ اس وقت آزاد خیال اور انسان دوست‘ بھارتی عوام آگے بڑھیں گے اور آنے والے انتخابات میںلبرل قیادت ‘ عوام کی اکثریت کی حمایت سے اقتدار میں آسکے گی۔افسوس یہ ہے کہ امتحان کے اس موقعے پر‘ پاکستان کی وزارت خارجہ‘ بے سمت اور قیادت سے محروم ہے۔پاکستان کی سول سوسائٹی ‘ بھارتی سول سوسائٹی سے بھی گئی گزری ہے‘ جو ایک عدم برداشت کے ماحول میں رہتے ہوئے ‘ تنگ نظر سماجی طاقتوں اور حکومت کا بیک وقت سامنا کر رہی ہے۔