بھارت میں آج کل قد آور دلت لیڈر اور آئین کے خالق ڈاکٹر بھیم رائو امبیدکر کی 125ویں سالگرہ کی تقریبات تزک و احتشام کے ساتھ منائی جا رہی ہیں۔ پچھلے دنوں پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس بھی 'آئین اور ڈاکٹر امبیدکر کی خدمات‘ کے موضوع پر بحث سے شروع ہوا۔ دونوں ایوانوں میں امبیدکر کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے قرارداد بھی منظور کی گئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی، کانگریس کی صدر سونیا گاندھی سمیت سبھی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے اپنی سیاست کی مناسبت سے امبیدکرکی تحریروں کے حوالے دے کر ان کے سیاسی وارث ہونے کا دعویٰ کیا۔ جب تاریخ کے حوالوں کا معاملہ ہو تو اکثر بھارتی لیڈر بخل سے کام لیتے ہیں۔ تاریخ کے ان اوراق کو، جو ان کی سیاست سے میل نہ کھاتے ہوں، اس طرح حذف کر دیتے ہیں جیسے یہ واقعات کبھی ظہور پذیر ہی نہیں ہوئے تھے۔ کشمیر کا معاملہ عیاں ہے۔ بھارت کی موجودہ تاریخ میں مہاراجہ ہری سنگھ کے الحاق نامہ کا تو تذکرہ ہے مگر بھارتی کابینہ کی طرف سے اس الحاق کے منظوری نامہ کے دوسرے پیراگراف کا ذکر ہی نہیں ہوتا، جس میں گورنر جنرل، مہاراجہ کی درخواست کے جواب میں کہتے ہیںکہ ''ان کی حکومت چاہتی ہے،نظم و نسق کی بحالی کے فوراً بعد ریاست کے عوام کو اپنا مستقبل طے کرنے کا موقع دیا جائے‘‘۔ اسی طرح جواہر لال نہرو کے وعدے، جونا گڑھ میں وزیر داخلہ سردار پٹیل کی تقریر اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کا اعادہ تو اب ملک دشمنی کے زمرے میں آتے ہیں۔
یہی کچھ پارلیمنٹ میں امبیدکر پر بحث کے دوران بھی مشاہدے میں آیا۔کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ قوم کو بتاتا کہ آخر امبیدکر کس طرح آئین ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بھارت کی جدید تاریخ کی یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اگر قائد اعظم محمد علی جناح، مسلم لیگی رہنما حسین شہید سہروردی اور پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل کی اعانت شامل نہ ہوتی تو نہ امبیدکر آئین ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے اور نہ ہی بھارت کو ایسا زیرک اور معاملہ فہم قانون دان میسر آتا۔ دوسرے لفظوں میں اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود دنیا کا ایک کامیاب ترین جمہوری آئین بنانے کا سہرا مسلم لیگ کے ہی سر ہے، یہ الگ بات کہ اپنے ملک (پاکستان) میں وہ اس طرح کا جمہوری اور مستحکم آئین برسوں تک نہیں دے سکی۔ انہوں نے آئین کا مسودہ اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے کہا تھا: ''انسان کا بنایا ہوا کوئی بھی آئین کامل نہیں ہوسکتا۔ آئین کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، اس کو لاگوکرنے والے اگر مفاد پرست اور برے ہوں تو وہ برا ہی رہے گا، مگرکوئی دستورکتنا ہی برا کیوں نہ ہو، اگر اس کو لاگو کرنے والے دیانتدار اور اچھے ہوں تو وہ اچھا ہی ثابت ہوگا‘‘۔
1946ء تک امبیدکر بھارت کی نچلی ذات کے جسے اچھوت کہا جاتا تھا، بطور لیڈر سیاست پر چھا چکے تھے۔ 1930ء کی پہلی گول میز کانفرنس میں انہوں نے دلتوں(شودروں) کو ہندوئوں سے علیٰحدہ قوم منوانے اور الگ الیکٹوریٹ کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے1946ء میںقانون ساز اسمبلی میں کا رکن بننے کی کوشش کی تو کانگریس اور خاص طور پر سردار پٹیل نے انہیں بمبئی کے صوبائی انتخابات میں ہروایا، مگر اس دوران بنگال کی مسلم لیگ حکومت میں اہم وزیر جوگندر ناتھ منڈل نے جو خود بھی دلت تھے، قائد اعظم اور حسین شہید سہروردی سے مشورہ کرکے ان کو مسلم سیٹ جیسورـکھلنا سے جتوا کر قانون ساز اسمبلی تک پہنچایا، جہاں انہیں آئین کی ڈرافٹنگ کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا۔ چونکہ اگست1947ء کے بعد یہ سیٹ پاکستان کے حصے میں آئی، نہرو نے شمالی بمبئی سے کانگریسی رکن ایم آر جیاکر سے یہ سیٹ خالی کروا کے امیدکر کو دوبارہ منتخب کروایا۔ ڈرافٹنگ کمیٹی میں نو ارکان تھے مگر اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ تحقیق کا بیشتر کام امبیدکر نے خود ہی انجام دیا۔ اس طرح آخری ڈاکومنٹ پرجو آئین کی شکل اختیارکرگیا ‘ ان کی شخصیت اور فکرکی چھاپ محسوس کی جاسکتی ہے۔ مگر یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ آئین کے نفاذ کے فوراً بعد 1951ء میں بھارت میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے تو آئین کے اس خالق کو ایک بار پھر بمبئی سے بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ 1954ء میں انہوں نے ایک بار پھر باندرہ (بمبئی) سے ضمنی انتخاب میں قسمت آزمائی کی مگر پھر ان کو شکست ہوئی۔ نہ صرف کانگریس بلکہ ہندوانتہا پسندوںکی مربی تنظیم آر ایس ایس ان سے خار کھاتی تھی۔ ان کو دستور ساز کمیٹی کا سربراہ بنانے کے پیچھے بھی صرف سیاست کارفرما تھی کہ کہیں دلت مسلم لیگ کی پناہ میں نہ چلے جائیں۔
امبیدکر نے بچپن کسمپرسی میں گزارا۔ 1890ء میں وہ وسطی بھارت کے شہر 'مہو‘ میں ایک غریب دلت خاندان میں پیدا ہوئے۔ تیرہ بھائی بہنوں میں صرف انہیں سکول بھیجا گیا۔ بقول ان کے دوسرے بچوں سے انہیں دور رکھا جاتاتھا۔ استاد سے سوال کرنے یا قریب آنے کی اجازت نہ تھی مبادا ان کے چھونے سے استاد کا دھرم بھرشٹ ہوجائے۔ وہ سکول میں رکھے پانی کے مٹکے سے پانی بھی نہیں پی سکتے تھے، استاد سے اجازت لینی پڑتی تھی، جو چپراسی کو بھیج کر پانی ان کے ہاتھ میں ٹپکاتا تھا۔ جس دن چپراسی چھٹی پر ہوتا، یہ بچہ دن بھر پیاسا ہی رہتا۔ سکول کے ٹاٹ پر بیٹھنے پر بھی پابندی تھی، اس لیے گھر سے پھٹی ہوئی پٹ سن کی بوری ساتھ لانا پڑتی۔ جب ان کے والد مہاراشٹر منتقل ہوگئے تو وہ پوری ریاست کے پہلے میٹرک پاس دلت تھے۔ انہیں سکالرشپ ملا جس کی مدد سے امبیدکر نے تعلیم کے میدان میں نمایاں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ انہوں نے لندن سکول آف اکنامکس اورکولمبیا سے ڈبل ایم اے، ایم ایس سی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔
امبیدکر کے سیاسی گرو جوگندر ناتھ منڈل تھے جو قائد اعظم کے قریبی ساتھی اور حسین شہید سہروردی کے دوست تھے۔ وہ دلت ـ مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنے 800 سالہ دور اقتدار میں مسلم حکمرانوں نے ہندوستان میں کبھی اسلام کے آفاقی سماجی نظام کو متعارف نہیںکروایا، الٹا ہندوئوںکی دیکھا دیکھی مسلمانوں میں بھی ذات پات اور تفرقے کو ہوا دی۔ اس کے برعکس افریقہ میں عرب مسلم حکمرانوں نے حبشیوں کو گلے لگایا، جس کی وجہ سے وہ جوق در جوق مشرف بہ اسلام ہوئے۔ بھارت میں برہمن ازم اور ہندوئوں کی دوسری اعلیٰ ذاتوں کے زیر اثر مسلم حکمرانوں نے دلتوں اور دوسرے پسماندہ طبقات کو دور رکھا، انہیں سماجی غلامی سے آزاد کروانے کے بجائے ان کی زنجیروں کو مزید مستحکم کیا۔
بھارت میں کئی دہائیوں سے ذات پات پر مبنی مردم شماری نہیں ہوئی ۔ 2012 ء کی مردم شماری کے اعداد وشمار ابھی تک جاری نہیں کیے گئے۔ 1990ء میں ایک سرکاری کمیشن نے جو اعداد و شمار دیے، وہ چونکا دینے والے ہیں۔ ان کے مطابق بھارت میں اعلیٰ ذات یعنی برہمن، کھشتری اور ویش کل آبادی کا محض 15 فیصد ہیں، مگر سیاست میں ان کا حصہ 60 فیصد، سروسز میں 80 ، تجارت میں 90 اور اراضی کی ملکیت میں 92 فیصد ہے۔ جبکہ مسلمان، دلت اور دیگر پسماندہ طبقات ، جو کل آبادی کا 85 فیصد ہیں، سیاست میں 34 ، سروسز میں 13 ، تجارت میں 6 اور اراضی کی ملکیت میں صرف 8 فیصد ہیں۔ برہمن کل آبادی کا صرف 3.50فیصد ہیں، مگر اعلیٰ سروسز میں ان کا حصہ 62 اور سیاست میں 41 فیصد ہے۔
ان اعداد وشمارکے تناظر میں یہ کہنا بر حق ہو گا کہ اگر پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جوگندر ناتھ منڈل اور دلتوں کی پذیرائی ہوئی ہوتی، انہیں دیگر ہندوئوں کے ساتھ ہانکا نہ جاتا تو شاید جنوبی ایشیا کا سیاسی اور سفارتی نقشہ ہی مختلف ہوتا۔ منڈل کا خیال تھا، چونکہ دلت اور مسلمان دونوں لیبر کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے ان کا اتحاد دیرپا اور قدرتی تھا۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب منو سمرتی کے مطابق دلت کا واحد کام صرف برہمن کی خدمت بجا لانا ہے، وہ کوئی جائداد نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے منڈل نے بنگال میں مسلم لیگ کا بھر پور ساتھ دیا۔ بقول ان کے دلت، کانگریس کی قیادت والے بھارت کے بجائے، جناح کے پاکستان میں نسبتاً زیادہ راحت محسوس کریں گے۔ وہ جناح کو گاندھی اور نہرو سے زیادہ قد آور اور اقلیتوں کا محافظ مانتا تھا۔ منڈل کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون بننے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ عہدہ بھارت میں ان کے شاگرد امیبیدکر کے پاس تھا، مگر ان کی خوش فہمی قائد اعظم کی وفات کے بعد جلد ہی دور ہوگئی۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان اور کابینہ کے رفقاء کے ساتھ جلد ہی ان کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ 1950ء میں مشرقی پاکستان میں دلتوں کے قتل عام نے منڈل کو اس حد تک دلبرداشتہ کیا کہ وہ راتوں رات کلکتہ فرار ہوگئے اور پاکستانی وزیر اعظم کے نام استعفیٰ بھیج کر دلت ـ مسلم اتحاد کو پروان چڑھنے سے پہلے ہی دفن کردیا۔ بھارت واپسی پر منڈل کو ہمیشہ شک کی نظر سے ہی دیکھا گیا، وہ کبھی آزادی سے پہلے والا مقام حاصل نہیں کرسکے۔ ان کا پورا وقت مشرقی پاکستان سے آئے پناہ گزینوں (جن میں اکثریت دلتوں کی تھی) کی دیکھ بھال میں ہی صرف ہوتا تھا۔کوئی سیاسی جماعت انہیں اپنانے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ اخبارات تو ان کو حقارت سے جوگندر علی ملا لکھتے تھے۔ آخرکار 1968ء میںکلکتہ انتقال کیا۔