تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     01-12-2015

پہلی‘ دوسری اور تیسری ترجیح

ہزار اختلاف کے باوجود چودھری پرویز الٰہی جنوبی پنجاب اور خصوصاً ملتان کے لیے ایک محسن کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان سے ہزار اختلافات کے برابر ایک اختلاف تو وہی ہے کہ چودھری پرویز الٰہی ایک آمر اور غاصب جنرل (ر) پرویز مشرف کو دس بار وردی میں صدر بنوانا چاہتے تھے۔ گذشتہ دو نسلوں سے جمہوری سیاست میں بلند مرتبہ اور نمایاں قد کاٹھ رکھنے والی کوئی شخصیت ایسی بات کرے تو صرف صدمہ ہی نہیں ہوتا بلکہ گرمی بھی چڑھتی اور تائو بھی آتا ہے۔ کم از کم مجھے تو ضرور آتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کی اس بات سے اختلاف تھا اور اللہ نے چاہا تو آئندہ بھی رہے گا لیکن اس قصور کے طفیل ان کی اچھائیوں اور اچھے کاموں سے انکار بھی ناانصافی اور خیانت ہو گا۔ چودھری پرویز الٰہی نے ملتان کے لیے وہ کچھ کیا جو اس سے پہلے کسی ایک حکمران کو بھی کرنا نصیب نہ ہوا تھا۔ 
چودھری پرویزالٰہی کے ساتھ کام کرنے والے کئی افسروں نے جن کے ساتھ میرے پرانے ذاتی مراسم تھے یہ بتایا کہ چودھری پرویزالٰہی ذاتی طور پر درمیانے یعنی اوسط درجے کی ذہانت کے مالک ہیں لیکن سادہ طبیعت اور نیک نیت ہیں۔ مزید یہ کہ انہیں شاید خود بھی اپنی ذہانت کا تکبر اور غرور نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے کام کرنے والے افسروں کی ایک ٹیم بنائی اور انہیں کھل کر کام کرنے کا موقع دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انتظامی طور پر بہت زیادہ صلاحیتیں نہ رکھنے والے چودھری پرویز الٰہی کی ''گورننس‘‘ کم از کم خادم اعلیٰ سے تو بہتر تھی کہ خادم اعلیٰ اینڈ کمپنی کی پسند ناپسند کا تعلق کام سے نہیں بالکل ''ذاتی پسند ناپسند‘‘ سے ہے‘ بس جو شخص دل کو بھا گیا اس کا طوطی بولنے لگ گیا اور بس پھر ہر جگہ گھما پھرا کر اسی شخص کو دائیں بائیں کرتے رہے۔ میرٹ کا نعرہ لگانے والے میاں شہبازشریف کے زمانے میں جتنے جونیئر افسروں کو ان کے سینئر افسروں پر ترجیح دیتے ہوئے ان گنت اعلیٰ انتظامی عہدوں پر لگایا گیا ‘اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اسی ''جونیئر پروری‘‘ کے طفیل سینئر افسروں میں جو
بددلی اور مایوسی پھیلی اس کا اندازہ ہمیں تو بخوبی ہے تاہم خادم اعلیٰ کو ایسی فضول چیزوں پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ہے۔ اٹھارہ گریڈ کے ایسے افسر کو سیکرٹری ہائر ایجوکیشن لگا دیا جس کو اخلاقیات کی الف بے کا پتہ نہیں تھا۔ اس کے دروازے کے باہر بیس اور اکیس گریڈ کے پرنسپل اور معلم بنچوں پر ملاقات کے منتظر رہتے تھے اور اگر خوش قسمتی سے انہیں ملاقات کا شرف حاصل ہو بھی جاتا تھا تو وہ موصوف سے اپنی ''عزت افزائی‘‘ کروا کر آتے تھے۔ یہی حال دیگر بہت سے محکموں کا تھا اور ''تھا‘‘ سے کیا مطلب؟ اب بھی یہی حال ہے۔ صوبے میں انتظامی ناکامی اور ہر معاملے میں انحطاط کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ افسروں کی ایک بڑی تعداد میں کام کرنے کا جذبہ ہی ختم ہو چکا ہے کہ ان کے سروں پر نمبر بنانے میں ہوشیار لیکن عملی طور پر نالائق جونیئر افسروں کو مسلط کر دیا گیا ہے لہٰذا صوبے میں سارا انتظامی سلسلہ عملی طور پر ٹھپ ہو چکا ہے۔ صوبہ جس کسمپرسی اور بُرے حالوں میں ہے اس کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ نے صرف اسی ایک سال میں زیادتی کا شکار ہونے والے کتنے خاندانوں کو سرکاری خزانے سے پانچ پانچ لاکھ عطا کئے ہیں۔ اتفاق سے خادم اعلیٰ کو دو ذہین اور محنتی افسر میسر آئے تھے‘ ایک ڈاکٹر توقیر شاہ اور دوسرا اجمل خان۔ ایک آج کل جنیوا میں ہے دوسرے کا پتہ نہیں۔ باقی ساری ٹیم (چند ایک کو چھوڑ کر) انڈر نائنٹین ہے جسے ٹیسٹ میچ کھیلنے پر لگا دیا ہے لیکن تجربہ ہے نہ صلاحیت۔
صوبائی سطح پر چودھری پرویز الٰہی نے ریسکیو 1122 کا آغاز کیا اور لوگ پہلی بار ایک نئے اور خوشگوار تجربے سے گذرے۔ ہائی وے پٹرولنگ نے پنجاب کی بہت سی ایسی سڑکوں کو سفر کے لیے محفوظ بنایا جو رات کو ٹریفک کے لیے تقریباً بند ہو جایا کرتی تھیں۔ میں خود ایک بار بڑے خوشگوار تجربے سے گزرا۔ میں رات گئے وہاڑی سے خانیوال براستہ ماچھیوال آ رہا تھا کہ راستے میں میلسی سندھنائی لنک کینال کے پاس ایک گاڑی کھڑی نظر آئی جس میں خواتین اور بچے بھی تھے۔ ساتھ ہی دو پولیس اہلکار کھڑے تھے۔ میں نے ازراہ ہمدردی گاڑی روکی اور پوچھا کہ کسی مدد کی ضرورت تو نہیں۔ گاڑی والا کہنے لگا۔ فیول گیج خراب تھا‘ اندازہ نہیں ہو سکا تھا اور پٹرول ختم ہو گیا ہے۔ ہائی وے پولیس کی گاڑی پٹرول پمپ سے پٹرول لینے گئی ہے۔ اسی طرح شہروں میں ٹریفک وارڈنز کا نظام شروع کیا۔ چودھری پرویزالٰہی نے سٹی ٹریفک پولیس کا نظام ٹریفک میں بہتری اور لوگوں کی سہولت کے لیے بنایا تھا ۔خادم اعلیٰ کے دور میں اسے چالانوں کا ٹارگٹ دے کر ذریعہ آمدنی بنا لیا گیا۔ اس پر مجھے ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی جملہ یاد آ گیا۔ مرحوم بھٹو صاحب نے ایک موقعہ پر اپنے عدالتی بیان کے دوران کسی بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ''میں نے ملک میں رنگین ٹیلی ویژن کا آغاز کیا کہ عوام کو سستی تفریح میسر آئے‘ مدعا علیہ (جنرل ضیاء الحق) روز اپنی رنگین وردی پہن کر سکرین پر آ جاتا ہے‘‘۔
یہ بات تو صوبے کے مجموعی تناظر میں ہو رہی تھی‘ صرف ملتان کے حوالے سے بات کریں تو ملتان کے قلب میں امراض قلب کا ہسپتال نہ صرف پورے جنوبی پنجاب بلکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں کے مریضوں کے لیے آخری علاج گاہ ہے۔ جنوبی
پنجاب میں کوئی دل کے مرض کا ہسپتال نہیں تھا۔ اکثر مریض یا بغیر علاج مر جاتے تھے یا لاہور جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ دیتے تھے۔ بہت کم خوش نصیب مناسب علاج سے بہرہ مند ہوتے تھے پھر ملتان میں ایک اعلیٰ پائے کادل کے امراض کا ہسپتال بن گیا۔ اگر اس دور میں میاں صاحب کی حکومت ہوتی تو یہ خرچہ کسی اور مد میں لاہور میں ہو جاتا۔ اس سے پہلے یہ ہو چکا ہے کہ ملتان میں چلڈرن ہسپتال کا منصوبہ بنا اور بعدازاں اس کا سارا پیسہ لاہور شفٹ ہو گیا۔ اب بھی یہ صورتحال ہے کہ دل کے امراض کے اس ہسپتال کی ایمرجنسی اور آئوٹ ڈور کے لیے ملتان کے اکلوتے شیش محل کلب کو گرا کر میدان بنا دیا گیا اور گزشتہ پانچ سال سے نہ ایمرجنسی بن رہی ہے اور نہ ہی کلب باقی رہا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اس ہسپتال کا نام چودھری پرویزالٰہی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہے لہٰذا اس میں اگر بہتری اور توسیع ہو بھی گئی تو وہ خادم اعلیٰ کے کھاتے میں تو آئے گی نہیں۔ لہٰذا اس پر ''پیسہ ضائع‘‘ کرنے کا تخت لاہور کے موجودہ حاکموں کو کوئی فائدہ نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گذشتہ پانچ سال سے اس خالی گرائونڈ پر سامنے والے پلازوں اور کئی ستاروں والے ہوٹل کے مکین اپنی گاڑیاں مفت کھڑی کرتے ہیں کہ ہسپتال کی پارکنگ بہرحال خادم اعلیٰ نے بلامعاوضہ کر دی ہے۔ اس کا فائدہ مریضوں اور اس کے لواحقین سے زیادہ سامنے والے اٹھا رہے ہیں۔
ملتان میں چلڈرن ہسپتال کے قیام کا سہرا بھی چودھری پرویزالٰہی کے سر ہے اور ایک دفعہ چلڈرن کمپلیکس کے فنڈز لاہور منتقل ہونے کے بعد اہل ملتان بچوں کے ہسپتال کی امیدیں ختم کر چکے تھے مگر بھلا ہو چودھری پرویز الٰہی کا کہ انہوں نے ملتان میں یہ ہسپتال بنا کر پورے جنوبی پنجاب کے بچوں کو علاج کی خصوصی سہولت مہیا کی۔ اسی طرح ملتان میں ڈینٹل کالج کا سہرا بھی چودھری پرویز الٰہی کے سر جاتا ہے۔ نشتر ہسپتال میں موجود ڈینٹل ہسپتال عمارت کی تنگی اور ناکافی سہولیات کے باعث بڑی کسمپرسی میں چل رہا تھا۔ چودھری پرویزالٰہی کے دور حکومت میں ایک مکمل اور باقاعدہ مقصد کے ساتھ بنایا گیا‘ یہ ڈینٹل ہسپتال اس خوبی سے چل رہا ہے کہ غریب آدمی کو یہ مہنگا علاج کوڑیوں کے مول دستیاب ہے۔ اسی کے ساتھ نشتر ہسپتال کے سامنے سٹیٹ آف دی آرٹ ''برن ہسپتال‘‘ یعنی جلے ہوئے مریضوں کی علاج گاہ بنوائی۔ پاکستان میں جلے ہوئے مریضوں کے لیے صرف واہ کینٹ میں علاج معالجے کی جدید سہولت میسر ہے۔ اس کے علاوہ میو ہسپتال لاہور‘ ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی‘ الائیڈ ہسپتال فیصل آباد اور نشتر ہسپتال میں علاج کی سہولت بھی ہے مگر اس درجے کی سہولت کہیں نہیں جس درجے کی سہولتیں آج جدید برن یونٹس میں موجود ہیں۔ صرف گزارے لائق علاج ہو رہا ہے۔ جلنے کے سب سے زیادہ واقعات جنوبی پنجاب میں ہوتے ہیں۔ ملتان اور گردونواح کے تنگدستی اور جہالت میںڈوبے ہوئے مریضوں کو نہ تو واہ کے ہسپتال کا علم ہے اور نہ ہی وہاں جانا افورڈ کر سکتے ہیں لہٰذا جنوبی پنجاب کے جلے ہوئے مریض بغیر مناسب علاج کے تڑپتے رہتے تھے۔ یہ ہسپتال بن گیا تو چودھری پرویز الٰہی کی حکومت ختم ہو گئی۔ اس کے بعد یہ عمارت سالوں کھڑی رہی اور تقریباً سات سال بعد اسے مشینری نصیب ہوئی۔ یہی حال کڈنی سینٹر کا ہے جو کئی برس کے انتظار کے بعد بالآخر کام شروع کر رہا ہے۔
میاں صاحبان کی پہلی ترجیح موٹروے‘ دوسری میٹرو اور تیسری نہ ان کو یاد ہے نہ مجھے معلوم ہے۔ سو ملتان میں میٹرو بن رہی ہے۔ مریض کو دل کا مرض لاحق ہے مگر ڈاکٹر اس کا اپینڈکس کا آپریشن کرنے پر بضد ہے کہ ڈاکٹر کو اپینڈکس کا آپریشن کرنے کا نہ صرف شوق ہے بلکہ اسے شاید صرف یہی آپریشن آتا ہے۔ ہم اہل ملتان کے مسائل کچھ اور ہیں اور حکمران ہمیں کچھ اور دے دلا کر بہلانے میں مصروف ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved