ہم ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں
آنے دیں گے: نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ہم ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں آنے دیںگے‘‘ جو زیادہ تر برادرم اسحٰق ڈار صاحب کے ذریعے ہی آ رہی ہے جس سے ہم سب حصہ بقدر جُثہ مستفید ہو رہے ہیں‘ اگرچہ ان کے علاوہ بھی کئی نیازمند اندرون و بیرون ملک اس نیک کام میں لگے ہوئے ہیں اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی؛ تاہم کئی شرپسند اس ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ جن میں ہماری ٹانگیں کھینچنے والے بھی شامل ہیں اور اب کہیں جا کر راہِ راست پر آنے لگے ہیں‘ جب ہم نے بھی آنکھیں دکھانا شروع کی ہیں کہ آخر صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے؛ چنانچہ ہمارے صبر کا پیمانہ جب لبریز ہوگیا تو ہم نے بھی ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب دینا شروع کردیا‘ اگرچہ اس کے لیے ترکی زبان بھی سیکھنا پڑی اور عزیزی شہبازشریف نے اس زبان میں جو مہارت حاصل کر رکھی ہے‘ اس سے بھی استفادہ کر رہے ہیں جس سے جواب دینے میں کافی سہولت میسر آئی ہے۔ ہیں جی؟ آپ اگلے روز پیرس پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
سیاسی اور فوجی قیادت ایک
صفحے پر ہے: شہبازشریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''سیاسی اور فوجی قیادت ایک صفحے پر ہیں‘‘ اور وہ بھی بڑی کوششوں اور جتنوں سے ایک صفحے پر آئی ہیں ورنہ ہمارا تو کوئی حال ہی نہیں رہ گیا تھا؛ چنانچہ جب تنگ آ کر ہم بھی سیدھے ہوگئے تو مسئلہ حل ہوا کیونکہ گھی سیدھی انگلیوں سے کب نکلتا ہے اور وہ جو کہتے ہیں کہ اگلے کو یرکائو‘ اگر وہ نہ یرکے تو خود یرک جائو؛ چنانچہ خود یرکنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ہماری لگائی ہوئی دفعہ یرکانوے کام آگئی اور کافی دنوں سے سینہ تان کر پھر رہے ہیں اور حسب توفیق بڑھکیں وغیرہ بھی لگاتے رہتے ہیں اور اب پچھتا رہے ہیں کہ ہم نے خوامخواہ خوف کی ایک چادر اپنے سر پر تانی ہوئی تھی؛ البتہ ایک کام خراب ہوتا نظر آ رہا ہے جو عدلیہ نے بھی نام نہاد کرپشن وغیرہ کے حوالے سے ہمیں دھمکانا شروع کردیا ہے‘ جو ٹانگیں کھینچنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی کا باعث ہو سکتی ہے لیکن اللہ خیر کرے گا‘ کوئی بات نہیں۔ ہم نے بھی ہاتھوں میں چوڑیاں نہیں پہن رکھیں کہ عوامی مینڈیٹ سے آئے ہیں اور مینڈیٹ جیسا بھی ہو‘ مینڈیٹ ہی ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں خطاب کر رہے تھے۔
شکر ہے ایان علی کیس میں
میرا نام شامل نہیں کیا گیا: گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''شکر ہے ایان علی کیس میں میرا نام شامل نہیں کیا گیا‘‘ حالانکہ اگر کر بھی دیتے تو کوئی مضائقہ نہیں تھا‘ کیونکہ وہ بھی ہمارے ہی مہربان ہیں جن کے نام درپردہ طور پر آ رہے ہیں‘ جبکہ خاکسار خود بھی آرٹ کا بے حد دلدادہ ہے اور وزارت عظمیٰ کے دور میں جب انجلینا جولی پاکستان تشریف لائی تھیں تو مجھے بھی ان سے ہاتھ ملانے کی سعادت حاصل ہوئی تھی‘ اور وہ ہاتھ میں نے آج تک نہیں دھویا جس سے اس کی خوشبو آتی رہتی ہے‘ جبکہ میں اس سے کوئی کام بھی نہیں لیتا اور کھانا وغیرہ بھی بائیں ہاتھ سے کھاتا ہوں جس کی پہلے بھی کافی پریکٹس حاصل ہو چکی تھی کہ جو کچھ میں نے اس دوران کیا وہ میرے بائیں ہاتھ ہی کا کرتب تھا؛ تاہم امید ہے کہ ایان علی سے ہاتھ ملانے کا موقعہ ضرور ملے گا جسے زرداری صاحب کے دستِ راست لطیف کھوسہ صاحب بری کرانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں اور امید ہے کہ میرے ہاتھ ملانے پر زرداری صاحب کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ آپ اگلے روز ملتان میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔
حکمرانوں کو اسلامی پاکستان
بنانا ہوگا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کو اسلامی پاکستان بنانا ہوگا‘‘ حالانکہ اصل میں تو یہ ہمارا کام تھا لیکن ہمیں پیٹ کے دھندوں سے ہی فرصت نہیں ملتی اور سمجھ میں نہیں آتا کہ اللہ میاں نے اتنا بڑا پیٹ کیوں لگا دیا ہے جو بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا؛ تاہم رزقِ حلال کمانا بجائے خود ایک عبادت ہے‘ اسی لیے ہم اس عبادت میں دن رات مشغول رہتے ہیں‘ یعنی ہم خرماد ہم ثواب۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم ملک کو کبھی لبرل نہیں بننے دیں گے‘‘ جس کا ایک مطلب تو یہ ہوگا کہ ملک عزیز میں مدرسوں کی جو بہار لگی ہوئی ہے اس پر خزاں چھا جائے گی جبکہ پہلے ہی حکومت انہیں خوامخواہ رجسٹر کرنے اور ان کی آمدن اور اثاثہ جات کے پیچھے پڑنے والی ہے‘ یا کم از کم اس کی دھمکیاں ضرور دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''امریکہ‘ برطانیہ اور روس کی قیادت میں یورپ اسلام کے خلاف متحد ہوگیا‘‘ اور یہ اتحاد صرف اور صرف ہمارے خلاف ہے کہ یہ کافر لوگ کسی کو پیٹ بھر کر کھاتا نہیں دیکھ سکتے۔ آپ اگلے روز لاڑکانہ میں شہدائے اسلام کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
شاعر علی شاعر
ایک بحر‘ 100غزلیں
یہ کراچی سے ہمارے دوست شاعر علی شاعر کا مجموعۂ کلام ہے جس کے بارے میں دیباچہ لکھتے ہوئے نقاد سرور جاوید کہتے ہیں کہ یہ ایک تجربہ ہے جو ناصر کاظمی ‘ سلیم احمد اور ظفراقبال نے بھی کیا ۔ اس سلسلے میں پہلی گزارش تو یہ ہے کہ میں نے ایک ہی بحر میں غزلیں لکھنے کا کوئی تجربہ نہیں کیا ۔ میں نے صرف قافیہ بدل کر اسی رویف میں بعض غزلیں کہی ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ ایک ہی بحر میں غزلیں کہنا کسلمندی اور تساہل تو ہو سکتا ہے‘ اسے تجربے کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اور یہ زیادہ مفید کچھ اس لیے بھی نہیں ہے کہ غزل تو قافیہ ردیف اور بحر کی پابندی کی وجہ سے پہلے ہی ایک طرح کی یکسانیت کی شکار ہے جبکہ اس میں کوئی ویرائٹی پیدا کرنے کی بجائے اسے ایک ہی بحر تک محدود کر دیناا سے مزید یکسانیت زدہ کر دینے کے مترادف ہے‘ بہرحال‘ شاعر علی شاعر ایک پختہ کار شاعر ہیں اور ان کی یہ غزلیں کسی بھی طرح کے فنّی عیوب سے بھی پاک ہیں‘ جگہ کی کمی کی وجہ سے نمونۂ کلام تو پیش نہیں کر سکا البتہ اپنے فلیپ میں فراست رضوی نے ان کی تعریف میں جو شعر درج کیے ہیں ‘ وہی پیش ہیں:
شاخِ شجر عشق کا ظاہر ہونا
تخلیق میں مصروف بہ غائر ہونا
قربانی بھی ‘ محنت بھی‘ مشقت بھی ہے
آساں نہیں شاعر علی شاعر ہونا
کتاب ظفر اکیڈمی نے چھاپی اور اس کی قیمت 300روپے رکھی ہے۔
آج کا مقطع
موجِ ہوس ابھر کے وہیں رہ گئی‘ ظفر
دیوارِ دوستی تھی مرے اُس کے درمیاں