دنیا بھر کے قابل ذکر نیوز چینلز پر موسم کی خبریں اور ان میں قابل ذکر ردو بدل کا دن میں کئی بار ذکر سننے کو ملتا ہے۔ ایک مشہور ماہر موسمیات سے جب نومبر کے بعد آنے والے دسمبر میں موسمی تبدیلی کا پوچھا تو انہوں نے بس اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا ''نومبر جانے والا ہے اور دسمبر آنے والا ہے‘‘ ہم اس ماہر موسمیات کی شکل دیکھتے رہ گئے کہ یہ کون سی خبر ہے جو کسی کو بتائی جا سکے‘ اس بات سے تو ہر کوئی واقف ہے کہ نومبر کے بعد دسمبر نے آنا ہی ہوتا ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے باری باری آنا ہوتا ہے۔
جب مشہورماہرموسمیات کی اس نرالی پیشین گوئی کاتذکرہ اپنے استاد محترم گوگا دانشور سے کیا تو انہوں نے بھی ماہر موسمیات کی تائید کرتے ہوئے کہا‘ اے شاگرد نالائق سن لو کہ نومبر کے بعد دسمبر آیا ہی چاہتا ہے اور اس دسمبر میں سخت سردی کی لہر بھی ساتھ ہی آئے گی اور اس کیلئے ابھی سے خود کو تیار کر لو‘ اس سردی میں نہ تو کوئی اکڑ کر چل سکے گا اور نہ ہی کوئی اپنا بناوٹی کبڑا پن دکھا سکے گا ۔میرے اس فقرے کو قارئین اگر یاد رکھ سکے تو کل کو ہو سکتا ہے کہ انہیں یاد آ جائے کہ ایک فقیر نے تو یہ صدا پہلے ہی بلند کر تے ہوئے اس قسم کا ایک فقرہ کہا تھا کہ'' نومبر کے بعد دسمبر آنے والا ہے‘‘ اور اگر دسمبر بھی بغیر بارش اور کپکپاتی ہوئی سردی کے گذر جائے تو اسے محکمہ موسمیات کے کسی نااہل اہلکار کی پیشین گوئی اور میرے استاد محترم گوگا دانشور کی بے خبری اور مدہوشی سمجھتے ہوئے بھلا دیجئے گا۔
بہر حال ایک بات تو طے ہے کہ سردی کی لہر آنے ہی والی ہے جو کسی بھی وقت ٹھنڈی اور برفیلی ہوائوں کے ساتھ پاکستان کا رخ کرنے کو ہے۔ یہ سردی کیسی ہو گی‘ اس میں اور پہلے آنے والی سردیوں میں کچھ فرق ہو گا کہ نہیں‘ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کر سکے گا لیکن اگر تو اب کے آنے والی یہ سردی معمول کے مطا بق ہو ئی اوراس سے پہلی آنے والی سردیوں سے مختلف نہ ہوئی اور اس کے اثرات پہلے والی سردیوں جیسے ہی رہے تو پھر نہ تو خشک میوے کھانے والوں کی لذت میں کمی ہو گی اور نہ ہی ٹھٹھر ٹھٹھر کر مرنے والوں کی تعداد میں کمی،نہ ہی گرم گرم کافی اور سوپ پینے والوں کے عیش و عشرت میں کوئی فرق پڑے گا اور نہ ہی گیس کے ایک ہلکے سے شعلے کو ترسنے والے ہزاروں خاندانوں کی بے بسی میں۔۔۔ تو پھر ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا زلزلہ آجائے گا جس کی شدت کو ناپنے یا جانچنے کیلئے نہ تو کوئی آلہ کام آئے گا اور نہ ہی اس کے اثرات اور آفٹر شاکس کا ہی کسی کو اندازہ ہو سکے گا۔ بہر حال آثار یہی بتا رہے ہیں کہ کوئٹہ اور کابل کے رستے سے آنے والی سرد ہوائیں جو اب کراچی پہنچی ہوئی ہیں‘ بہت جلد وہاں سے باہر کا رخ کرنے ہی والی ہیں اور ظاہر ہے کہ سردی کی یہ لہر پھر ملک بھر میں اپنا اثر دکھائے گی ۔ گلوبل وارمنگ نے ہمارے ملکی موسم میں جو حدت پیدا کر رکھی ہے‘ اس سے ہو سکتا ہے اب کی بار دھند میں بھی کمی آ جائے۔
اگر موسمی تبدیلیوں کی خبریں سنانے سے پہلے اور بعد میں ملک میں ہونے والی دھواں دار مشہوریوں کا ذکر بھی ہو جائے تو منا سب ہو گا کیونکہ ایک جانب ہمارے اینکرز حضرات کا ایک گروہ کرپشن کی کہانی سناتا ہے تو جواب میں سرکار کا خزانہ دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے نہیں تھکتا۔ اس سلسلے میںنندی پور ہر جگہ چھایا ہوا ہے کیونکہ یہ بات کسی کو بھی ہضم نہیں ہو رہی کہ احتساب کا چکر صرف ایک شہر تک ہی کیوں محدود ہو چکا ہے اور ایک سال سے کراچی میں ہی کیوں گھوم رہا ہے۔ اب ماہر موسمیات سے پوچھا کہ نندی پور سے کیا خطا ہو ئی ہے کہ اس کے سوا کوئی ذکر سننے کو ہی نہیں مل رہا تو ان کا کہنا تھا کہ کوئی ایک ماہ پیشتر کسی نے یہ بے پر کی اڑا دی تھی کہ چھڑی والی سرکار نندی پور کے خراب موسم سے سخت ناراض ہیں اور شائد ان کی ناراضگی کو ختم کرنے کیلئے یا ان کو بتانے کیلئے شور مچا جا رہا ہے کہ حضور والا نندی پور کا موسم تو پہلے سے ہی خراب تھا‘ یہ تو ہم ہیں جو اسے بہتر کر رہے ہیں ۔بہر حال یہ طے ہے کہ کراچی کے بھنور میں پھنسا ہوا احتساب کا بیڑا اب بہت جلد اپنا حصار توڑ کر با ہر آنے ہی والا ہے۔
موسم میں تبدیلی لانے کیلئے بعض لوگ مصنوعی بارشیں برسانے کی کوششوں میں بھی دن رات مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں وہ مطلوبہ کیمیکل اور مواد باہر سے حاصل کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ مصنوعی بارش برسانے والے کامیاب ہوتے ہیں یا محکمہ مو سمیات کی ٹھیک ٹھیک خبر دینے والے؟۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ احتساب کے نام سے کام کرنے والے اداروں میں آنے والی سردی کا مقابلہ کرنے یا اس سے بچنے کیلئے کی جانے والی تیاریاں بھی ظاہر ہو نا شروع ہو گئی ہیں اور اس بار شائد اس ادارے
میں گھسے ہوئے اور ان سردیوں میں ہمیشہ کی طرح گندے انڈے بیچنے والوں کی چاندی نہ ہوسکے۔ کسی بھی ملک میں بہت سے احتسابی ادارے وجود میں آتے رہے ہیں جن کے فرائض میں سب سے پہلی بات یہی ہوتی ہے کہ اس ملک کے موسمی حالات خراب کرنے والوں کا ہر حالت میں احتساب کرنا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایک کو زبردستی چھٹی بھیج کر خود کو ''امتیازی سلوک‘‘ کا حق دار بنا لے گا تو یہ غلط فہمی ہو گی کیونکہ اس طرح وہ چاہے جتنی بھی اپنی پسند کی '' امتیازی سندیں‘‘ لے آئیں‘ کوئی بھی آنے والی سردی کی رگڑ سے بچ نہیںسکے گا کیونکہ آنے والے موسم کے تیور بتا رہے ہیں کہ بس‘ بہت ہو چکا ہے اور اس حد تک ہو چکا ہے کہ اپنی تمام حدیں عبور کر چکا ہے اور وہ آخری حد جسے عبور کرنے کی خواہشات اب شدت سے سر ابھارنے لگی ہیں ان کی تکمیل اب بہت ہی دشوار ہو چکی ہے۔
تیس مئی کواپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ آئس لینڈ کے سب سے بڑے گروسری Chain ''ہیگ کاپ‘‘ کے 49 فیصد حصص ایک اہم ترین پاکستانی شخصیت نے اکتوبر2014 ء میں90 ملین ڈالر میں خرید لئے تھے۔ اب تک تو ملک کے سب ادارے اس چھوٹی سی منی لانڈرنگ کی خبر پر خاموش ہیں‘ ہو سکتا ہے کہ موسمی تبدیلی سے چلنے والی ہوائیں جب پنجاب کا رخ کریں تو کسی کو اس کا خیال بھی آ جائے۔۔۔!!