اس دیار میں‘ ہم میں سے اکثر اجنبی ہیں۔ جنت گم گشتہ سے نکالے ہوئے لوگ‘ جنت گم گشتہ کی آرزو میں مگن‘ ملاّ بھی‘ ملحد بھی۔
ماحولیات پر پیرس کی عالمی کانفرنس میں ہمارے لیے تو خبر مودی نواز ملاقات ہی تھی‘ مگر ایک اور بڑی خبر اس شور شرابے میں دب گئی۔ اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کی گئی نمائندہ محترمہ مارشیا میگنٹ نے کہا: آلودگی کل ایک تحریری تصور تھا‘ آج ایک المیہ ہے۔
اس جملے نے قاری کو چونکا دیا۔ کم از کم پون صدی قبل لکھی جانے والی علامہ اسد کی کتاب Road to Macca میں تو ہرگز یہ ایک موہوم خیال نہ تھا۔ چالیس برس ہوتے ہیں‘ جب اس کا خلاصہ ''اردو ڈائجسٹ‘‘ میں پڑھا اور پھر پورا متن۔ علامہ اسد اقبالؔ کے دوستوں میں سے ایک اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے اولین سفیر تھے۔ آخری صفحات میں قرآن کریم کی ایک آیت کا حوالہ تھا۔ ''بحر و بر میں فساد ظاہر ہو گیا اور یہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے‘‘۔ پھر پوری طرح انہوں نے وضاحت کی کہ اس سے ان کی مراد ماحولیاتی آلودگی ہے‘ جو بنی نوع انسان کے لیے ایک عظیم خطرہ ہے۔ اگر یہ کتاب 75 سال پہلے بھی چھپی ہو تو محترمہ کے اس ارشاد کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے کہ پندرہ بیس برس پہلے یہ ایک موہوم خیال تھا۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے‘ جو سطح سمندر پر زیرو سے لے کر 28 ہزار فٹ تک کی رفعت تک پھیلا ہے۔ ڈاکٹر قمر زمان نام کے ایک صاحب ہیں‘ جو پانچ برس پہلے تک محکمہ موسمیات پاکستان کے سربراہ تھے۔ اگر میرا حافظہ درست ہے تو ان کی فراہم کردہ معلومات کی بنا پر کم از کم سات برس پہلے اس کالم میں عرض کیا تھا کہ ملک خطرناک ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہونے والا ہے۔ تفصیل بھی عرض کی تھی۔
2009ء کا ہولناک سیلاب آیا تو وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے میں نے پوچھا: کیا آپ کو بروقت اطلاع تھی؟ انہوں نے کہا: قدرے تاخیر سے۔ اسلام آباد پہنچ کر میں نے ڈاکٹر قمر زمان سے ملاقات کی۔ دھیمے لہجے کا سرکاری افسر کوئی بیان جاری نہ کر سکتا تھا‘ مگر ایک واقعہ اس نے مجھے سنایا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نسبتاً کم درجے کے سیلاب نے تباہی مچائی تو سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب رحیم نے وزیر اعظم شوکت عزیز سے شکایت کی کہ طوفان بلاخیز کی انہیں بروقت خبر نہ دی گئی؛ چنانچہ تباہی کا ایک ہولناک باب لکھا گیا۔ شوکت عزیز ڈاکٹر صاحب کو اپنے ساتھ کراچی لے گئے۔ وزیر اعلیٰ کو انہوں نے یاد کیا اور ان کی موجودگی میں ڈاکٹر قمر زمان سے پوچھا کہ اپنے فرض میں انہوں نے غفلت کیوں برتی؟ انہوں نے شواہد پیش کر دیے کہ نہ صرف بروقت خبردار کیا تھا بلکہ کینٹ ڈویژن‘ جی ایچ کیو‘ ایوان صدر‘ ایوان وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو الگ الگ باضابطہ طور پر بتایا گیا اور مکمل تفصیلات کے ساتھ۔
اچھی طرح سے یاد ہے کہ 2005ء کا زلزلہ آیا تو ڈاکٹر صاحب کو میں نے فون کیا۔ وہ مرحوم دوست‘ وزارت خزانہ کے ایڈیشنل سیکرٹری سید فاروق گیلانی کے ہم جماعت تھے‘ کبھی کبھار فاروق صاحب کے ہاں کھانے پر ان سے ملاقات ہوا کرتی۔ ان سے پوچھا کہ زلزلے کی اطلاع انہوں نے کتنی دیر میں وفاقی حکومت کو فراہم کی۔ بتایا کہ بیس منٹ کے اندر‘ تمام متعلقہ دفاتر کو۔ وہی ایوان صدر‘ ایوان وزیر اعظم‘ کینٹ ڈویژن‘ جی ایچ کیو اور وزراء اعلیٰ۔ یہ بھی بتا دیا گیا کہ زلزلے سے پھیلنے والی تباہی اس سے کہیں زیادہ ہے‘ جتنی کہ گمان کی جا رہی ہے۔
8 اکتوبر کو زلزلہ آیا اور 9 اکتوبر کی صبح عازم برطانیہ شیخ رشید نے نجی چینلوں کو بتایا کہ زلزلے سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوا‘ ایک آدھ مکان گرا ہے اور بس۔ شیخ رشید باخبر سمجھے جاتے ہیں‘ مگر چار ہزار کلومیٹر دور لندن میں الطاف بھائی مگر ان سے کہیں زیادہ باخبر آدمی ہیں۔ اکتوبر 2009ء کا دوسرا ہفتہ ختم ہونے والا تھا‘ جب انہوں نے فون پر مجھ سے بات کی‘ پورے ساٹھ منٹ۔ انہوں نے چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ سیلاب مصنوعی ہے اور امریکیوں نے لیزر کی مدد سے پیدا کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ذاتی طور پر انہوں نے تحقیق کی ہے۔ اس پر ایک چھوٹا سا انکشاف اس اخبار نویس نے بھی کیا‘ جس سے ہرگز وہ متاثر نہ ہوئے۔ ڈاکٹر قمر زمان کے بھیجے ہوئے درجن بھر پیغامات میرے موبائل میں موجود ہیں‘ جن میں سیلاب کی پیش گوئی ہے۔ اس کا تحریری ریکارڈ بھی موجود ہے۔ سیلاب سے ایک دن قبل روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والا یہ کالم جس کا عنوان تھا: مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔ اسی موضوع پر ٹھیک اسی مفہوم کا ایک مضمون کراچی کے انگریزی اخبار میں بھی چھپا تھا۔
ایک بڑے انگریزی اور ایک بڑے اردو اخبار میں چیختی چلّاتی تحریریں شائع ہونے کے باوجود وزیر اعلیٰ شہباز شریف کیوں مطلع نہ ہو سکے؟ اس سے پہلے زلزلے پر ارباب رحیم اور آج محترمہ مارشیا میگنٹ؟
اس سوال کا جواب بہت واضح ہے۔ انگریزی کی ایک اصطلاح ہے۔ Willingness to Believe۔ ماننے کی آمادگی۔ تصورات کا ایک جہان آپ آباد کرتے ہیں اور پھر اس میں قیام پذیر ہو جاتے ہیں۔ تاریخ اس کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ تازہ ترین اپنے نریندر مودی صاحب ہیں‘ جن کا خیال یہ ہے کہ مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو نرے احمق تھے کہ اپنا ایجنڈا مسلم برصغیر پہ نافذ نہ کر سکے۔ وہ کر سکتے ہیں۔
نتیجہ اس کا یہ ہے کہ پیرس کی ماحولیاتی کانفرنس میں قدرے خفت کے ساتھ وہ وزیر اعظم نواز شریف کو سلام کرنے گئے۔ اندازہ ہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک کے مشورے پر جولائی میں یہی کارنامہ میاں صاحب نے انجام دیا تھا‘ انہی لوگوں کے مشورے پر‘ جو اب کی بار بھارتی وزیر اعظم کو قائل کرنے میں کامیاب رہے۔
ماحولیاتی آلودگی کبھی ایک موہوم تصور نہ تھا۔ پچھلے تیس چالیس برس سے سائنس دان چیخ رہے تھے۔ ایک عشرے سے ڈاکٹر قمر زمان بتا رہے ہیں کہ 70 برس میں ہمالیہ کے سب گلیشیئر پگھل جائیں گے۔ دنیا کی سب سے بلند وہ پہاڑی چوٹیاں ننگی ہو جائیں گی‘ جو لاکھوں برس سے برف کی سفید چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔ نویں برفانی دور میں برف کی یہ چادر 25 میل بلند تھی۔ خود ان پہاڑوں سے چار ہزار گنا زیادہ۔ پھر برف پگھلی اور امریکی مفکر ول ڈیوراں کے بقول پہلا سوچتا ہوا انسان ناگہاں حرکت میں آیا۔
ول ڈیوراں سے 8 سو سال پہلے یہ بات ابو عبداللہ شیخ محی الدین ابن عربی نے کہی تھی۔ ان کے الفاظ مختلف تھے۔ کہا: قادر مطلق آدم کو تخلیق کر چکا تو پچاس ہزار برس تک اس پر نظر کی۔ اس نورانی تجلی سے آدمی انسان بن گیا‘ اشرف المخلوقات۔ چودہ سو برس پہلے مدینہ منورہ میں ایک دن اپنے اصحاب سے آپؐ نے پوچھا تھا: کیا تم جانتے ہو کہ کائنات کے ساتھ زمین کا تناسب کیا ہے؟ ان کا جواب ہمیشہ کا وہی تھا: اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: جیسے جنگل میں ایک انگشتری پڑی ہو۔ اس انگشتری کا جو تناسب کرۂ خاک کے ساتھ ہے‘ وہی اس خاک دان کا کائنات سے (مفہوم)۔
پوچھا گیا: یا رسول اللہ زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے کیا تھا؟ فرمایا: دخّان‘ ابر آلود ہوائیں۔ وہ آیات نازل ہو چکی تھیں‘ جن میں ایک یہ ہے: کانتا رتقاً ففتقناھما۔ یہ سب کچھ ایک ہی تھا‘ پھر ہم نے اسے پھاڑ کر جدا کر دیا۔ ایک آدھ نہیں قرآن کریم کی کم از کم ایک درجن آیات ہیں‘ جن کا مفہوم سائنس دانوں پر ہزار بارہ سو برس کے بعد کھلنا شروع ہوا۔ ڈارون ان میں سے ایک تھا‘ اکبر الٰہ بادی نے جس کا مذاق اڑایا مگر اقبال خاموش رہے۔ ڈارون کی تھیوری مکمل طور پر درست نہ تھی مگر بنیادی طور پر بالکل صحیح۔ قرآن اس پر ناطق تھا مگر مولوی صاحبان نے مان کر نہ دیا۔ ''کتنے زمانے گزرے کہ انسان کوئی قابل ذکر چیزہی نہ تھا‘‘۔
میرے دوست علامہ صدیق اظہر نے نواب زادہ نصراللہ خان سے کہا: آپ جانتے ہیں کہ فلاں علامہ صاحب غالب کو نہیں مانتے تھے۔ عرض کیا: ہٹائیے علامہ صاحب‘ لوگ اللہ کو نہیں مانتے۔
جو تلے ہوئے ہوں‘ وہ سورج کے وجود سے انکار کر سکتے ہیں۔ ایک لطیفہ اسے بیان کرتا ہے۔ ساری رات دو سکھ بادہ نوشی کرتے رہے۔ صبح ایک چلایا: دیکھو‘ سورج نکل آیا۔ دوسرے نے کہا احمق یہ چودھویں کا چاند ہے۔ ایک راہگیر کو روک کر دھمکی آمیز انداز میں پہلے سردار جی نے پوچھا: بول یہ چاند ہے یا سورج؟ سہم کر اس نے جواب دیا: سردار جی‘ میں اس دیار میں اجنبی ہوں کسی اور سے پوچھ لیجئے۔
اس دیار میں‘ ہم میں سے اکثر اجنبی ہیں۔ جنت گم گشتہ سے نکالے ہوئے لوگ‘ جنت گم گشتہ کی آرزو میں مگن‘ ملاّ بھی‘ ملحد بھی۔