تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     02-12-2015

حادثہ

روکنے والوں نے اسے روکا تھا مگر پاشا کی زندگی میں کوئی راز ایسا نہ تھا کہ وہ خوفزدہ ہوتا۔اس کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ خوف اور بے بسی کی زندگی پر وہ موت کو ترجیح دیتا۔وہ شجاعت اور شان و شوکت کی زندگی بسر کر تا آیا تھا۔ اس نے سو چ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا ۔ جاننے والے جانتے تھے کہ ایغور پاشا کے فیصلے حتمی ہوا کرتے ہیں ۔ 
تیس برس پہلے پاشا ہی نے اس جنگل بیابان کو آباد کیا تھا۔ اب یہ بلند و بالا عمارتوں کا شہر تھا۔ یہ زندہ دل لوگوں کا مسکن تھا۔ ہر ساعت یہاں ہنگامے برپا ہوتے۔ اس گہما گہمی سے اسے عشق تھا لیکن یہ بات سچ ہے کہ گلیوں بازاروں میں اب سنّا ٹا تھا۔وہاں موت کی سی خاموشی تھی ۔ پاشا کے نزدیک یوں بھی خاموشی موت ہی کے مترادف تھی ۔ بتانے والے بتاتے تھے کہ نئے آنے والے شخص کے پاس ایک خوفناک راز تھا۔ یکے بعد دیگرے کئی نامی، پاشا کے کئی دوست اس کے پاس گئے تھے ۔وہ سب اپنے حواس کھو بیٹھے تھے۔ بتانے والے بتاتے تھے کہ اس کے پاس ایک راز کی بات ہے ۔ پاشا کو روکنے والوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کے پاس ہر انسان کی ابتدا کا راز ہے ۔اس کے پاس اختتام کی کچھ خبریں ہیں ۔ 
ایغور پاشا نے اس پر یہ کہا تھا''میں ابرام کا بیٹا ، مشرق کا والی ۔ میری زندگی میں راز کوئی نہیں ۔ ابتدا اور اختتام ، ہر کہیں میں بالا
ہوں ۔ ‘‘ جاننے والے جانتے تھے کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ مملکتِ روس میں اس کے باپ کا طوطی بولتا تھا۔ وہ منہ میں سونے کا نوالا لے کر پیدا ہوا تھالیکن وہ کامیاب لوگوں کی ناکام اولادوں میں سے نہ تھا۔ وہ تو ان میں تھا، جن کے والدین، خاندان اور قبیلہ ان پہ فخر کیا کرتا ہے ۔اس کی زندگی فتوحات کی ایک لمبی داستان تھی ۔ جو چاہا اس نے حاصل کیا۔ جس چیز کی آرزو کی ، اسے پا لیا۔اس کے آبائو اجداد بے ننگ و نام نہ تھے۔ رہا وہ خود ، تو آنے والی نسلوں کو اس پہ فخر کرنا تھا۔وہ عزت کی زندگی بسر کر رہا تھا‘ اسے توقیر سے مرنا تھا۔ اس کی زندگی میں بھلا ایسا کون سا راز تھا کہ وہ خوفزدہ ہوتا۔ 
ایغور عالی ظرف تھا۔ کسی اوربستی کی بات ہوتی تو وہ خاموش ہو رہتا لیکن یہ اس کا محبوب شہر تھا۔اس کی بربادی‘ پاشا کی بربادی تھی اور اس کی آبادی میں وہ شاد تھا۔ خدّام سے پاشا نے ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کہا۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنی ابتدا کی ساری تصاویر اس جادوگر کو دکھائے۔ ان سب تصاویر میں یہ بات صاف ظاہر تھی کہ وہ ایک بے حد صحت منداور خوبصورت بچّہ تھا۔ ایک غیر معمولی نونہال، جس کے ماتھے پر کامیابی لکھی تھی ۔ اس نے اپنے اجداد کے مقبروں کی تصاویر ساتھ رکھوائی تھیں ۔ ان کے تابوت خالص سونے کے تھے اور بیرونی دیواروں پر چاندی کا کام تھا۔
ایگور پاشا ان لوگوں میں سے نہیں تھا، مشرق کے شاعر نے جن کے لیے دہ خدایا کا استعارہ استعمال کیا تھا۔ اسے تو خدائے مشرق پکارا جاتا تھا۔ اس کی زندگی میں شرمندگی کا ایک لمحہ بھی نہیں تھا۔ کسی سے بھلا وہ کیوں ڈرتا؟پاشا نے اپنی شان و شوکت بیان کی۔ اس نے بتایا کہ وہ یورپ کی درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہے ۔ اس کا کاروبار سارے مشرق میں پھیلا ہوا ہے ۔ وہ کروڑوں لوگوں میں رزق بانٹتا ہے ۔اپنے آغاز او راپنے اجداد کے آخری لمحات سے اسے آگاہ کیا۔ اس نے کہا تھا کہ وہ اس خوفناک راز سے آگاہی چاہتا ہے ۔ اسے یقین تھا کہ وہ ایک شعبدے باز ہے ۔ وہ لوگوں کے ذہنوں پر سحر پھونکتا ہے ۔ پاشا انتہائی مضبوط قوتِ ارادی کا مالک تھا۔ اس پہ سحر پھونکنا ممکن نہ تھا۔ وہ یورپ کی درسگاہوں سے فارغ التحصیل تھا۔ اسے چکما دینا ممکن نہ تھا۔ 
اجنبی نے اسے بہتیرا روکا تھا۔ یہ کہا تھا کہ وہ اس کی تاب نہیں رکھتا۔ پاشا اس پہ آگ بگولا ہو گیا تھا۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس پر اجنبی نے ایک ورق اسے دکھایا تھا۔ اس پر دو مکروہ شکل کے کیڑے بنے تھے ۔ اس نے یہ کہا تھا کہ پاشا ان دونوں کے ملاپ سے بنا ہے ۔ اس نے کہا تھا کہ اس کے باپ نے اپنی پوری زندگی میں اپنے جسم کے اندر کم و بیش ایسے 1ارب جرثوموں کو جنم دیا تھا۔ ان میں سے ایک پاشا کی پیدائش میں صرف ہوا۔ اگر ان میں سے کوئی دوسرا چن لیاجاتا تو پاشا کچھ سے کچھ ہو جاتا۔ اگر اس عمل میں کوئی سقم پیدا ہوجاتا تو عین ممکن تھا کہ پاشا عجیب الخلقت ہوجاتا۔ اس کے دو سر ، چار ٹانگیں ہوتیں ۔ اس نے کہا تھا کہ اس عمل میں نہ تو تیرا کوئی اختیار تھا، نہ تیرے باپ کا۔ تم سب مجبورِ محض ہو۔ اجنبی نے اسے ایک ورق اور دیا تھا۔ اس پر ریڑھ کی ہڈی کے چند مہرے بنے تھے ۔ اس نے کہا تھا کہ وہ اپنے اجداد کے مقبرے کھود کر دیکھ لے ۔ اس نے پورے دعوے سے کہا تھا کہ اندر صرف یہ چند مہرے موجود ہوں گے ۔ اس کے علاوہ باقی سب گوشت اور سب ہڈیاں ، اس کے اجدا کا پورا وجود گل سڑ چکا ہے ۔ 
پاشا یورپ کی درسگاہوں سے فارغ التحصیل تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اجنبی درست کہہ رہا ہے ۔ وہ اسے جھٹلا نہیں سکتا تھا۔ یہاں اس پر یہ بات عیاں ہوئی تھی کہ ہرگز ہرگز وہ خدائے مشرق نہیں ۔ وہ مشرق و مغرب کی بے شمار مخلوقات میں سے ایک مجبورِ محض مخلوق تھا۔ ان خطوط پر پاشا نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ اسے اس بے توقیری سے یہ بتایا جائے گا کہ وہ دو مکروہ جرثوموں کا ملاپ ہے ، یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھااور آخر میں ریڑھ کی ہڈی کے صرف چند مہرے بچ رہیں گے، اسے اس بات کا بھی اندازہ نہ تھا۔ 
یوں پاشا کو معلوم ہوا تھا کہ د ومکروہ کیڑے اس کا آغاز اور چند مہرے اس کا اختتام ہیں ۔ میں سچ کہتا ہوں کہ حرف بحرف یہی واقعہ ایغور پاشا کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اگر وہ اس اجنبی کے پاس نہ جاتا تو آج بھی خدائے مشر ق کہلا رہا ہوتا۔ اس حادثے نے اس کا دماغ الٹا دیا تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved