تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-12-2015

بڑا اندھیرا ہے

قبولیت کا در کب سے بند ہو چکا۔ اب صرف ایک راستہ باقی ہے، جدوجہد کا... رانا مشہودوں کی جگہ شاہ محمودوں کو براجمان کرنے کا نہیں بلکہ انہیں تلاش کرنے کا جو شعبدہ بازی اور ریاکاری کی رسم واقعی تمام کر دیں۔
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلائو بڑا اندھیرا ہے
افغانوں کا ایک معتبر لیڈر کھانا کھانے کے بعد میزبان کے دسترخوان پر پڑے پھل اپنے رومال میں باندھ کر لے جاتا تھا۔ لمبی عمر پائی اور زندگی بھر اس طرح کی حرکتیں کرتا رہا۔
سوال ذرا مختلف ہے۔ کونسلر بننے کے لیے، اچھے بھلے معزز لوگ اتنے سستے کیوں ہو جاتے ہیں؟ صوفی نے کہا تھا: ہیضے کے مارے گائوں کے خربوزوں کی طرح سستے! تھوڑی سی، جعلی عزت کے لیے اتنی بے عزتی وہ گوارا کیسے کرتے ہیں؟
دریا کنارے، ہوا میں خاموشی و دل سوزی تھی، سرمستی و رعنائی۔ فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف اسد عمر تھے۔ پوچھا: کیا اسلام آباد کے آزاد ارکان نے آپ سے رابطہ کیا ہے، بولے: ''چار پانچ آدمی تیار ہیں۔ میئر اور ڈپٹی میئر کی سیٹ نون لیگ کے جبڑوں سے چھینی جا سکتی ہے... مگر‘‘۔ 25 برس اس شہر میں بیت چکے‘ اس ''مگر‘‘ کے بعد جو کچھ انہوں نے بتایا، پہلے ہی اس کا اندازہ تھا۔ موقع پرستوں کا ایک ناقابل اعتبار گروہ، جو شاید کل ہی حکمران پارٹی سے جا ملے۔ ڈاکٹر طارق فضل کے پیش رو اور ان سے کہیں بڑے فنکار۔ 
سیاست کی دنیا ابن الوقتوں سے بھری پڑی ہے اور آج ہی کیا، ہمیشہ سے۔ پاکستان ہی کیا، ساری دنیا میں۔ تین برس ہوتے ہیں مشہور برطانوی اخبار نویس کیتھی نے ایک بار مجھ سے کہا: ہمارے لیڈر بھی گھٹیا ہیں۔ فرق یہ ہے کہ انہیں مواقع کم ملتے ہیں۔ ''Disgusting‘‘ اس نے کہا تھا... قابل نفرت۔
زندہ لیڈر، زندہ معاشروں کو نصیب ہوتے ہیں۔ جیسی رعایا، ویسے حاکم۔ جو سماج اپنے لیڈر خود نہیں چنتا اس کے نصیب میں ایک المیہ مستقل ہوتا ہے۔ اکثر حلقہ ہائے انتخاب میں، دو تین فضول آدمیوں میں سے ایک کا انتخاب اسے کرنا ہوتا ہے۔ اگر زرداری صاحب کا نہیں تو میاں صاحب کا، میاں صاحب کا نہیں تو زرداری صاحب کی پارٹی سے‘ تحریک انصاف میں در آنے والا کوئی ریاکار۔ آج اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور اس کا دل گداز ہے۔ یہ مگر وہی ہے جو تیس برس تک بھٹو کو دیوتا کہتا رہا، پھر ان کی بیگم صاحبہ کو، پھر صاحبزادی کو، جسے خود اس کی ماں نے فوجی آمر سے بدتر قرار دیا تھا، پھر اس محترم خاتون کے شوہر کو۔ اس کے بعد فخر عوام کے نواسے کو۔ کل شام اسے پتہ چلا کہ دیوتا تو اصل میں عمران خان ہے۔ کل زرداری صاحب ایشیا کے نیلسن منڈیلا تھے، آج کپتان امید کی آخری کرن ہے۔
کل شام تجسّس میں وہ پروگرام پھر دیکھا کہ عصرِ حاضر کا سب سے بڑا مفکر آج کیا ارشاد کرتا ہے۔ آدھا وقت وہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ عمران خان تاریخ انسانی کا سب سے بد زبان آدمی ہے۔ آدھا وقت اس پر لیکچر دیتا رہا کہ فلاں کھرب پتی اولیاء کی طرح پاک باز ہے۔ وہ ایک ایک دھیلے پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ بجا ارشاد، لیکن پھر وہ مشکوک چینی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کوئلے کے از کار رفتہ بجلی گھر مسلط کرنے پر کیوں تلا ہے۔ جب کسی قوم کے اساتذہ، علمائے دین اور اخبار نویس ڈھٹائی پر تل جائیں؟ خبر یہ ہے کہ وہ ٹی وی میزبان خود بھی کروڑوں کا نادہندہ ہے۔
عمران خان کا میں ہرگز دفاع نہیں کرنا چاہتا۔ ہرگز اسے یہ نہ کہنا چاہئے تھا کہ ''ممکن ہے کل نواز شریف خود کشی کر لے‘‘ جو دوسروں کی عزت نہیں کرتا، وہ خود اپنی توہین کا دروازہ کھولتا ہے۔ خدا لگتی مگر یہ ہے کہ اس کی مراد سیاسی خود کشی سے تھی، میاں صاحب جس کا دو بار ارتکاب کر چکے اور تیسری بار کر سکتے ہیں۔ عمران خان اگر حاضر دماغ ہوتا تو فوراً ہی اپنے جملے کی تصحیح کر دیتا: ''میری مراد ہے، سیاسی خود کشی‘‘۔ اکثر لیڈروں کی طرح وہ فصاحت سے محروم ہے، لسانی افلاس کا شکار۔ سیاست دانوں کے قبیلے میں آخری فصیح آدمی شاید نواب زادہ نصراللہ تھے۔ ان سے پہلے بھٹو اور سید ابوالاعلیٰ مودودی۔ بھٹو مخالفین سے اظہارِ نفرت کرتے مگر سوچ سمجھ کر۔ غیر فصیح وہ کبھی نہ تھے۔ نواب زادہ اور سیّد صاحب کی زبان سے کبھی کوئی سستا لفظ نہ سنا گیا۔ جماعت اسلامی کی قیادت اب ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے، جو ناشائستہ تو ہرگز نہیں مگر یہ بھی نہیں جانتا کہ مؤنث اور مذکر کا احاطہ زیادہ سے زیادہ چند ہفتوں کی بات ہے۔ ایک درجن لفظوں پر کنفیوژن ہو گا۔ فہرست بنا لی جائے تو چند روز میں یہ کام نمٹ سکتا ہے۔ ترجیحات مگر مختلف ہیں۔ علمی اور سیاسی نہیں، عملی اور مادی۔ یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں کہ سلطانی بھی عیّاری ہے، درویشی بھی عیّاری!
جناب سراج الحق کو میں عیّار نہیں سمجھتا مگر وہی لکیر کے فقیر، وہی رسم و رواجِ دنیا کے مارے ہوئے، وہی تقلید کے خوگر، وہی نعرہ فروش۔ 
ابھی ابھی میں برادرم سلمان غنی کے کمرے سے نکلا ہوں، پرسوں شام نہر کنارے، انہیں ڈاکوئوں نے لوٹ لیا تھا۔ تیس ہزار روپے اور ایک عدد موبائل۔ ان کے ساتھ فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر رانا عظیم بھی تھے۔ سلمان غنی شاد تھے، جان بچی، سو لاکھوں پائے۔ چند ماہ قبل ان کے چچازاد، ہارون سلیم ایسے ہی ایک معرکے میں جان ہار گئے تھے۔ بہادر آدمی تھا، شہر کراچی اور ڈاکو لاہور والوں سے زیادہ سفاک۔ انہوں نے موبائل مانگا، دلیر آدمی نے انکار کیا: ''اگر نہ دوں‘‘۔ اس نے کہا: ''گولی مار دوں گا‘‘ کہا: ''مار دو‘‘۔ آدمی اپنے آپ پر دوسروں کو قیاس کرتا ہے۔ مرحوم کا خیال شاید یہ ہو: چور اچکّا ہے، قتل کرنے سے گھبرائے گا۔ جی نہیں، بے حیائی عجیب چیز ہے۔ شرم جب رخصت ہو جائے تو دل پتھر ہو جاتے ہیں۔
سلمان غنی مضبوط اعصاب کے آدمی ہیں۔ منگل کی شام دنیا ٹی وی کی ساتویں سالگرہ تھی۔ تقریب کے بعد کھانے کی میز پر یار دوست ٹھٹھا کرتے رہے: نون لیگ کے دور حکومت میں امن و امان کی حالت ایسی بھی خراب نہیں، کم از کم مال روڈ محفوظ ہے۔ وہ ہنستا رہا۔ آج اس سے روداد سنی۔ پھر پانچ عدد پولیس افسروں کا ایک گروپ اس کے کمرے میں داخل ہوا۔ ایک کمپیوٹر اٹھائے‘ شاید مشکوک لوگوں کی تصاویر دکھانے کے لئے، ایف آئی آر تو کل شام ہی درج کر لی گئی تھی۔ سلمان ہنسا۔ اس نے کہا: جس شہر کے ایس ایس پی کا موبائل چرا لیا جائے، وہاں اس کاوشِ فضول سے کیا حاصل؟ قلعہ گوجر سنگھ کا تھانے دار لیکن مصر تھا کہ کوشش تو کر لی جائے۔ میں نے تائید کی: خواہ دس فیصد ہی امکان ہو۔ اس نے کہا: خواہ ایک فیصد۔ مجھے لگا کہ سلمان غنی اور رانا عظیم کو لوٹنے والے ڈاکو گرفتار کر لئے جائیں گے۔ پنجاب پولیس تہیہ کرے تو کچھ بھی کر سکتی ہے۔ کبھی وہ قاتلوں اور غنڈوں کی شریک کار ہوتی ہے اور کبھی قاتلوں اور غنڈوں کا خس و خاشاک کی طرح صفایا کر دیتی ہے۔ شہر کا کوتوال، ایک دن ملنے آیا تھا۔ مجھے تو وہ معقول آدمی لگا۔ سلمان زیادہ جانتے ہوں گے۔
اپنے دفتری ساتھیوں کے لٹنے کا صدمہ ہوا۔ اس کے عم زاد حسب حال کے میزبان جنید سلیم کے سگے بھائی ہارون سلیم کے قتل کا صدمہ، ظاہر ہے کہ کہیں زیادہ تھا۔ تب ہم سب اخبار نویس کیا کر سکے کہ اب کر لیں گے۔ سرکار کی مرضی ہے کہ انڈا دے یا بچہ... اصولوں پر نہیں، آدم کی اولاد اپنی افتاد طبع پر زندگی کرتی ہے۔ سولہ برس ہوتے ہیں ریاض بسریٰ نے وزیر اعظم نواز شریف کو قتل کی دھمکی دی تو پولیس کو بہتر بنانے کی بجائے انہوں نے آئی جی جہاں زیب برکی کو بے نقط سنائیں۔ اپنی حفاظت کے لیے ان پر انحصار کرنے کی بجائے دہشت گردوں سے نامہ و پیام کیا تھا۔ وہ ''ناراض بھائیوں‘‘ سے بات چیت کے قائل تھے تاآنکہ فوج نے ضربِ عضب داغ دی۔
کہنے کو کل میاں شہباز شریف نے یہ کہا ''پولیس کو بہتر بنانے کے لئے ترقی یافتہ ملکوں کے تجربات سے استفادہ کیا جائے، ہم مگر جانتے ہیں کہ پرنالہ وہیں رہے گا۔ اگر ایک ایک ڈی آئی جی، ایک ایک ایس ایس پی، ایک ایک تھانیدار، مرضی اور منشا سے مقرر ہو۔ مرضی اور منشا سے تبادلہ اور ترقی پائے تو کوئی بھی ہارون سلیم قتل ہو سکتا ہے، کوئی بھی سلمان لٹ سکتا ہے۔ جب تک زرداریوں اور شریفوں کا اقتدار قائم ہے‘ اور جب تک اقتدار قائم رہے گا‘ جب تک قوم نے خود کو تقدیر کے سپرد کر رکھا ہے۔
فرمایا: برائی سے جب روکا نہ جائے گا اور بھلائی کی جب ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط ہوں گے۔ وہ تمہیں سخت ایذا دیں گے اور اس وقت تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں قبول نہ کی جائیں گی۔
قبولیت کا در کب سے بند ہو چکا۔ اب صرف ایک راستہ باقی ہے، جدوجہد کا... رانا مشہودوں کی جگہ شاہ محمودوں کو براجمان کرنے کا نہیں بلکہ انہیں تلاش کرنے کا جو شعبدہ بازی اور ریاکاری کا شعار واقعی تمام کر دیں۔
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلائو بڑا اندھیرا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved