تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-12-2015

آسانیوں کی دلدل

قدم قدم پر آسانی کی تلاش نے انسان کو عجیب و غریب مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ اللہ نے ہمیں چند سانسوں کی شکل میں جو زندگی عطا کی ہے وہ یقیناً ایسی بے وقعت نہیں کہ محض آسانیاں تلاش کرنے پر صرف یا ضائع کردی جائے۔ مگر کیا کیجیے کہ یہی ہو رہا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر بہت کچھ، بلکہ سب کچھ مل جائے۔ یعنی محنت کچھ نہ کرنی پڑے اور زندگی کے ہر پہلو پر سُکون کا راج ہو۔ 
آپ سوچیں گے اگر لوگ ہر معاملے میں آسانی چاہتے ہیں تو اِس میں حیرت کی بات کیا ہے۔ انسان تو ہر دور میں ایسا ہی رہا ہے۔ ٹھیک ہے، مگر اب تو حد ہی ہوگئی ہے۔ زندگی کو آسان سے آسان تر بنانے کی خواہش اور کوشش نے جو گل کھلائے ہیں اُن کی ''خوشبو‘‘ سے دماغ پھٹے جارہے ہیں! لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ جب کرنے کو کچھ نہ تھا تب انسان کیسی کیسی ذہنی پیچیدگیوں سے دوچار رہا کرتا تھا۔ اور اگر ہم نے بھی ہاتھ پیر ہلانے سے گریز کی راہ اپنائی تو ہمارا بھی حشر مختلف نہ ہوگا۔ 
سچ پوچھیے تو یہ سارا کیا دھرا ترقی یافتہ دنیا کا ہے۔ اُس نے تو جیسے ہر معاملے کو آسان سے آسان تر بنانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ماہرین رات دن ایسی چیزیں تیار کرنے میں مصروف رہتے ہیں جو کسی بھی کام کو کام ہی نہ رہنے دیں، حلوہ بنادیں کہ جب جی چاہیے چٹ کر جائیے۔ یعنی کوشش یہ کی جارہی ہے کہ معاشی اور غیر معاشی سرگرمی کا فرق یکسر مٹ جائیں، ایسا ماحول کھڑا کردیا جائے جس میں کسی طرح کی کوئی محنت نہ پائی جائے اور مزے بھرپور ہوں۔ یہ تو مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ لگتا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا آسانیوں کے بوجھ تلے مرنا چاہتی ہے۔ بیشتر کام بٹن دباتے ہی ہو رہے ہیں مگر پھر بھی آسانیاں پیدا کرنے والے آلات کا ڈھیر ہے کہ بڑا ہی ہوتا جارہا ہے۔ ایسی ہی کیفیت کو استاد قمرؔ جلالوی نے یُوں بیان کیا ہے ؎ 
دعا بہار کی مانگی تو اِتنے پھول کھلے 
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو! 
مغربی ماہرین دن رات ایک کرکے اپنے خطے کے لوگوں کے شب و روز آسان تر بنائے ہیں۔ قدم قدم پر آسائشیں مہیّا کرنے والی اشیاء ہیں مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان تمام آسائشوں سے کماحقہ استفادہ کرنے کا وقت میسّر نہیں! مغرب کی بہت سی نفسی پیچیدگیاں دراصل اِس تن آسانی ہی کی پیدا کردہ ہیں۔ 
جب سے انسان پر ہر معاملے میں خود کار آلات سے استفادہ کرنے کا بھوت سوار ہوا ہے، ہر طرف خود کاریت کا غلغلہ ہے۔ زندگی کا کوئی بھی پہلو آٹومیشن سے بچا ہوا نہیں۔ ایسی مشینیں عام ہیں جو اشارا پاتے ہی یعنی بٹن کے دبتے ہی کام شروع کرتی ہیں اور جب تک دیا ہوا کام کر نہیں لیتیں، سُکون کا سانس نہیں لیتیں۔ بظاہر یہ عمل انسان کو سُکون کا سانس لینے کا موقع دینے کے لیے ہے مگر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اِس کے برعکس ہے۔ یعنی کچھ کرنے کی تھکن سے بڑھ کر وہ تھکن ہے جو کچھ نہ کرنے سے پیدا ہو رہی ہے اور اعصاب و حواس کے بارہ بجا رہی ہے! 
یہ آٹومیشن ہی کا کمال ہے کہ آج کا انسان اپنی بیشتر فطری صلاحیتوں سے یا تو محروم ہوچکا ہے یا اُنہیں بالائے طاق رکھ کر ڈیوائسز، اپلائنسز اور گیجٹس کی غلامی اختیار کرچکا ہے۔ حد یہ ہے کہ انتہائی معمولی نوعیت کے کام بھی مشینوں کے بغیر نہیں ہو پاتے۔ دو اور دو چار ٹکے کا حساب بھی لگانا ہو تو کیلکیولیٹر سے مدد لی جاتی ہے۔ 
حافظے کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اگر کچھ یاد رکھنا ہو تو سیل فون سے مدد لی جاتی ہے۔ کچھ یاد نہ آرہا ہو تو حافظے کو زحمت دینے کے بجائے فوراً گوگل سے مدد لی جاتی ہے۔ لوگوں کو بات بات پر گوگل سے کنسلٹ کرنے کی ایسی عادت پڑی ہے کہ اب وہ بُھولتے جارہے ہیں کہ حافظہ بھی کوئی چیز ہوا کرتا ہے! اگر کوئی ذہن پر زور دے کر کچھ یاد کرنے کی کوشش کرے تو اُسے گزرے ہوئے زمانوں کا یا دقیانوسی سمجھا جاتا ہے۔ 
گھریلو کام بھی اب مشینوں کی مہربانی کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں۔ خواتین خانہ سے سِل بٹّے پر کام نہیں ہوتا۔ کچھ پیسنا ہو تو گرنڈر حاضر ہے۔ دو چیزوں کو ملانا ہو تو بلینڈر سے مدد لیجیے۔ اب پھل کھانے کی زحمت کون گوارا کرے، جُوسر ہے تو سہی۔ 
دیہی علاقوں میں تو روٹی اب بھی گھر میں بنائے ہوئے تنور پر پکائی جاتی ہے۔ شہروں میں کبھی یہ رواج بھی تھا کہ پیڑے رکھ کر تسلا بچے کو تھمادیا جاتا تھا جو علاقے میں بنے ہوئے تنور پر جاکر روٹیاں پکوا لاتا تھا۔ پھر پیڑے بنانا بھی جاں گُسل مرحلہ ٹھہرا۔ یعنی تنور سے روٹیاں ہی لے آئیے۔ بیچ میں کچھ مدت روٹی میکر کا غلغلہ بھی رہا۔ آٹا گوندھ کر پیڑا روٹی میکر پر رکھنا ہوتا تھا۔ باقی کام روٹی میکر کا تھا یعنی ہر طرف سے سِنکی ہوئی تیار روٹی باہر آتی تھی۔ مگر پھر روٹی میکر بھی ناکام ہوگیا کہ اُس کے لیے پیڑا تو بنانا ہی پڑتا تھا اور پیڑا بنانے کے لیے آتا بھی گوندھنا پڑتا تھا! 
باقی دنیا میں آٹومیشن نے کسی مثبت نتیجے یا تبدیلی کو جنم دیا ہو تو دیا ہو، ہمارے ہاں تو اِس کے نتیجے میں تن آسانی بڑھتی گئی ہے اور مختلف کاموں کی زحمت سے چُھٹ جانے پر جو وقت بچتا ہے وہ بہت سے فضول مشاغل پر صرف کرنے کے کام آتا ہے! اگر یہی حال رہا تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب انسان چاہے گا کہ اُسے بُھوک لگے تو کوئی مشین اُس کی جگہ کھانا کھائے اور ''فطرت کی پُکار‘‘ پر کوئی روبوٹ اُس کی نمائندگی کرے! 
انسان کہاں سے چلا تھا اور کہاں آکر اٹک گیا ہے۔ ہزاروں سال کی علمی و فنی پیش رفت کا حاصل یہ ہے کہ تن آسانی جسم و جاں پر غلبہ پاچکی ہے۔ کچھ کرنے سے بچنے کی کوشش انسان کو بالآخر اُس مقام تک لے آئی ہے جہاں وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہا۔ جسم کو سُکون سے ہم کنار رکھنے کی خواہش نے ذہن کو بھی آلات کی غلامی میں دے دیا ہے۔ حافظے کے کمالات دکھانے کا مَحل اب رہا نہیں کہ اِس نابغے کو بھی اب گوگل کا پُوڈل بنادیا گیا ہے! 
زندگی کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کا نام ہے۔ جو لوگ زندگی بھر محنت کرتے ہیں، اپنے جسم و جاں کو مصروف رکھتے ہیں ان کی زندگی میں بھرپور توازن اور استحکام پایا جاتا ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی آسائش سے ہم کنار ہونے پر اُس سے بھرپور لطف بھی کشید کرتے ہیں۔ کوئی بھی آسائش ہمیں بھرپور لطف اسی وقت دے سکتی ہے جب ہم سخت محنت کرتے آئے ہوں، مشکلات کا سامنا کیا ہو اور اِس کے نتیجے میں ہم پر تھکن بھی سوار ہوئی ہو۔ پانی پینے کا مزا صرف اُس وقت ہے جب ہمیں پیاس لگی ہو یعنی جسم پانی مانگ رہا ہو۔ اگر جسم کی طلب نہ ہو تو پانی پینے سے لطف حاصل ہوتا ہے نہ فائدہ۔ انسان کو اگر کچھ کرنا ہی نہ پڑے تو زندگی کس کام کی، جسم و جاں کا مصرف کیا؟ 
چین کے اساطیر میں ایک ایسے اژدہے کا ذکر ملتا ہے جو بُھوک لگنے پر کچھ بھی ہاتھ نہ لگنے کی صورت میں اپنے ہی وجود کو کھانا شروع کرتا تھا اور بالآخر ختم ہو جاتا تھا! ہم بھی اُس اژدہے کی راہ پر گامزن دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم نے بھی ایسا بہت کچھ کرنے کی ٹھان لی ہے جو بالآخر ہمارے خاتمے پر منتج ہوگا۔ آسانیوں کی کھوج میں ہم ایسے نکلے کہ پیچیدہ مشکلات کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ آسانیاں تلاش کرتے رہنے سے اب ہم پر تساہل طاری ہوچکا ہے، کچھ بھی ایسا کرنے کو جی نہیں چاہتا جس میں کوئی معنویت اور مقصدیت ہو۔ یہی زندگی کے زوال آمادہ ہونے کی سب سے بڑی نشانی یا علامت ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ سب کچھ مشینوں اور آلات کے حوالے کرنے کی روش ترک کرکے خود بھی کچھ کرنے کا سوچا جائے، بلکہ کچھ کیا جائے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved