تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     04-12-2015

یہی تو مزہ ہے

جو لوگ مہنگائی کا واویلا کرتے ہیں‘ میں تو انہیں احسان فرمواش ہی کہوں گا۔ ہمارے وزیر اعظم نے اپنے ایک انتہائی قریبی دوست اور عزیز کو‘ جو اللہ کے فضل و کرم سے کھرب پتی ہیں‘ پاکستان کا وزیر خزانہ بنا کر‘ ہم پر احسان فرمایا ہے۔ ورنہ ڈار صاحب کو کیا ضرورت تھی کہ اپنی ذاتی دولت کے انبار چھوڑ کر پاکستان کے ایک چھوٹے سے خزانے کی دیکھ بھال پر اپنا قیمتی وقت ضائع کریں۔ یہ ڈار صاحب کی مہربانی ہے کہ وہ‘ ہم غریبوں سے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کر کے‘ پاکستان جیسا ملک چلاتے ہیں۔ جہاں تھوڑی سی بجلی بنانے کی گنجائش نہیں‘ وہاں وہ لوڈ شیڈنگ میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر‘ ہمیں بجلی فراہم کر دیتے ہیں۔ ہم اپنے گھروں کے اندر دن اور رات میں‘ کبھی کبھی بجلی کا بلب جلا کر اور کبھی پانچ دس منٹ کے لئے ٹی وی آن کر کے‘ بچوں کو دکھاتے ہیں کہ ''دیکھو بچو! تم سکول میں جس بجلی کا ذکر پڑھتے ہو‘ وہ یہ ہوتی ہے‘‘۔ بچے بہت کنفیوژ ہوتے ہیں کیونکہ جب ہم انہیں بلب جلا کر بتاتے ہیں کہ ان کی روشنی بجلی کی وجہ سے ہے تو بچے بے یقینی سے پوچھتے ہیں کہ ''کل رات آپ نے ٹی وی میں تصویریں دکھا کر کہا تھا کہ یہ تصویریں آپ کو بجلی دکھا رہی ہے‘‘۔ بچے تعجب سے سوال کرتے ہیں کہ بجلی چیز کیا ہے؟ کبھی آپ بلب کو روشن کر کے بتاتے ہیں کہ یہ روشنی بجلی کی ہے اور کبھی ٹی وی پر تصویریں دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تصویریں‘ ہم بجلی کی وجہ سے دیکھ رہے ہیں۔ انہیں سمجھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے مگر میں بچوں سے کہتا ہوں کہ ''آپ ڈار صاحب کا شکریہ ادا کریں کہ ان کی وجہ سے آپ کو بجلی کی خوبیوں کا پتا چل رہا ہے۔ اگر بجلی مستقل رہتی تو تمہیں پتہ کیسے چلتا کہ بجلی کیا ہوتی ہے؟ کہاں کہاں ہوتی ہے؟ کب کب ہوتی ہے؟‘‘ یہ صرف ڈار صاحب کی مہربانی ہے‘ وہ بجلی بنانے کے لئے کارخانوں کو تیل اور گیس خریدنے کا موقع دیتے ہیں‘ ورنہ ہم تو بجلی دیکھنے کے لئے بیرونی ملکوں میں جایا کرتے‘ جیسے ہمارے ہزاروں نوجوان روٹی کمانے‘ بیرونی ملکوں میں جاتے ہیں‘ اور بیرونی ملکوں والے اتنے ظالم ہیں کہ انہیں ہوائی جہازوں میں بھر کے‘ دوبارہ پاکستان واپس بھیج دیتے ہیں۔
وہ پاکستانی جو چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر‘ سمندر کی بڑی بڑی لہروں سے ٹکراتے ہوئے‘ یونان تک جا پہنچتے ہیں اور خاردار تاروں کو پھلانگ کر یونان کے اندر داخل ہو جاتے ہیں‘ یونان کی پولیس انہیں پکڑ کے ہوائی جہاز کی آرام دہ نشستو ںپر بٹھا کر ایئرکنڈیشنڈ ماحول میں‘ واپس پاکستان بھیج دیتی ہے۔ جن کی قسمت بُری ہوتی ہے‘ انہیں یہاں کے اہلکار پاکستانی مان کر‘ رہنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ وہ روتے ہیں‘ بلبلاتے ہیں‘ التجائیں کرتے ہیں کہ ہمیں یہاں مت رکھو۔ ہمیں پاکستانی ماننے سے انکار کر دو تاکہ ہم واپس یونان جا سکیں۔ ہمیں وہاں جیلوں میں بھی ڈال دیا جائے گا تو ہم پاکستان کی آزاد زندگی سے بہتر زندگی گزار لیں گے‘ لیکن پاکستانی اہلکار انہیں پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اگر پولیس نہ ہو تو پتہ نہیں کتنے لوگ پاکستان میں باقی رہ جائیں؟ یہ ڈار صاحب کا پاکستان ہے‘ جہاں پولیس کی وجہ ہی سے سہی‘ لوگ رہنا برداشت کر لیتے ہیں‘ لیکن موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کسی طرح پاکستان سے باہر نکل بھاگنے کا موقع مل جائے۔ اس کے بعد‘ صحرائوں میں چلنا پڑے یا سمندری لہروں کے تھپیڑے کھانا پڑیں اور ملک سے باہر جا کر چاہے جیل میں جانا پڑے‘ زندگی تو پاکستان سے اچھی گزر جائے گی۔ پاکستان میں رہ کر تو کھانے کو روٹی نہیں ملتی‘ اور اوپر سے ڈار صاحب احسان جتاتے ہیں کہ پاکستان کے پاس 20 ارب ڈالر جمع ہو چکے۔ پتہ نہیں ڈار صاحب زبردستی ہمارا معیارِ زندگی بلند کرنے پر کیوں تُل گئے ہیں؟ پاکستان میں انڈے ایک دو روپے کے درجن ملا کرتے تھے‘ ڈار صاحب نے ایک انڈا 10روپے میں کر دیا ہے۔ وہی روٹی جو چُوّنی‘ اٹھنی میں ملا کرتی تھی‘ آج کل 6 روپے میں ملتی ہے۔ اگر اچھے آٹے کی روٹی مانگی جائے تو 10 روپے میں ملتی ہے۔ ڈار صاحب سے پہلے کے زمانے کتنے اذیت ناک تھے‘ جب تندوروں پر نمایاں طور سے لکھا ہوتا تھا ''آنے روٹی‘ دال مفت‘‘۔ اگر یہ ڈار صاحب کے زمانے میں ہوتا تو وہ اسی وقت روٹی 10روپے کی کر دیتے‘ جس کے پاس گنجائش ہوتی‘ وہ 10روپے کی روٹی خرید کر اپنا معیارِ زندگی بلند کر لیتا‘ اور باقی بھوک سے مر مرا کے‘ زمین کا بوجھ کم کر جاتے۔ 
ہمارے ڈار صاحب تو اتنے مہربان ہیں کہ وہ عوام کے معیار زندگی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ حال ہی میں انہیں پتہ چلا کہ میک اپ کا درآمدی سامان‘ عام پاکستانی خواتین کی قوتِ خرید کے مطابق ہے‘ تو انہوں نے فوری طور سے درآمدی میک اپ مہنگا کر دیا‘ تاکہ خواتین اپنا معیارِ زندگی بلند کر لیں۔ دنیا بھر میں پٹرول اور ڈیزل سستا ہو گیا ہے‘ لیکن ڈار صاحب‘ پاکستانیوں کا معیارِ زندگی پست نہیں ہونے دیتے۔ وہ پٹرول اور ڈیزل کی مہنگائی برقرار رکھ کے چاہتے ہیں کہ ہمارا معیارِ زندگی باقی دنیا کے مقابلے میں بلند رہے۔ چونکہ بھارت کے ساتھ ہماری پکی دشمنی ہے‘ وہاں کے لوگ جو پٹرول سستا لیتے ہیں‘ ہم پاکستانی ان کے مقابلے میں مہنگا خریدتے ہیں اور پھر فخر سے بھارت کی طرف دیکھتے ہوئے حقارت سے کہتے ہیں کہ ''سستے پٹرول پر سستی اور گھٹیا زندگی گزارنے والو! تمہیں کیا پتہ‘ بلند معیارِ زندگی کیا ہوتا ہے‘‘؟ جب ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں تو اندر سے ایک آواز سنائی دیتی ہے ''بدبختو! مہنگی روٹی کھا کر معیارِ زندگی بلند نہیں ہوتا‘ بلکہ تمہاری قوتِ خرید پست ہو جاتی ہے۔ تمہارے گھر میں دو کے بجائے ‘ ایک وقت کی روٹی پکنے لگتی ہے۔ گوشت اور مرغی کے بجائے‘ دالیں آنے لگتی ہیں‘ اور اگر ڈار صاحب مزید چند ماہ رہ گئے‘ تو دالیں کھانے کے بھی خواب دیکھا کرو گے‘‘۔ میں اس اندر کی آواز کو جواب دیتا ہوں کہ ''اے انجانی آواز! تجھے کیا پتہ‘ ہم تو اب بھی دال کے خواب دیکھتے ہیں‘ پانی میں نمک گھول کے روٹی کھاتے ہیں۔ جب تھوڑی بہت قوتِ خرید نصیب ہوتی ہے تو پیاز کے ساتھ کھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ عیاشی کرنا ہو تو پالک یا کھیرے کا شوربے والا سالن پکا کر‘ اس کے شوربے سے روٹی کھاتے ہیں‘‘۔ خدا کا شکر ہے ڈار صاحب کو غریبوں کی اس عیاشی کا علم نہیں‘ ورنہ وہ اس شوربے پر بھی‘ ٹیکس لگا کر ہمارا معیارِ زندگی بلند اور زرمبادلہ کے ذخائر زیادہ کر دیتے۔
ڈار صاحب کے ذہن میںعام پاکستانی کا تصور‘ اپنے خاندان جیسا ہے۔ وہ پوری قوم کو اپنی برادری سمجھتے ہیں اور یہی تصور کرتے ہیںکہ جو کچھ وہ اپنی عام زندگی میں استعمال کرتے ہیں‘ وہی ان کی قوم کو استعمال کرنا چاہیے۔ بے چارے بہت ہی نیک دل انسان ہیں۔ وہ اپنے عوام کے لئے بے حد ہمدردانہ خیالات رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ نیک دلی کیا ہو گی کہ انہوں نے کھیرے بھی درآمدی فہرست میں ڈال کے‘ ان کے ٹیکس میں اضافہ کر دیا ہے۔ بندہ کھیرا بھی کھائے تو بلند معیارِ زندگی کے ساتھ کھائے۔ اسی طرح ڈار صاحب نے درآمدی امرودوں پر بھی ٹیکس لگا دیا تاکہ ہمارے معیارِ زندگی میں اضافہ ہونے سے نہ رہ جائے۔ ڈار صاحب نے امریکی کھجور کے ٹیکس میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ ڈار صاحب کو پاکستانی عوام کا کتنا خیال ہے کہ وہ سارا پاکستان‘ سارا شرق اوسط اور افریقہ چھوڑ کے‘ امریکہ جا پہنچے اور انہوں نے پاکستانی عوام کے لئے درآمد ہونے والے اشیائے خورونوش میں‘ امریکی کھجور بھی شامل کر دی‘ گویا معیارِ زندگی بلند کر نے کے لئے عربی اور پاکستانی کھجور چھوڑ کے‘ زیادہ پیسے دے کر امریکی کھجور کھائی جائے‘ چاہے یہ کتنی ہی بدمزہ کیوں نہ ہو؟ معیارِ زندگی ضرور بلند ہو جائے گا۔ (کون سا پاکستانی اتنا پاگل کا پتر ہے کہ امریکی کھجور کھائے؟) پاکستانی آفٹر شیو لوشن‘ باڈی سپرے‘ ٹوتھ پیسٹ‘ صابن اور بالوں کی کریم وغیرہ‘ اگر پاکستان میں بنے ہوں تو یہ گھٹیا معیارِ زندگی کی نشانی ہے۔ یہی اشیا زیادہ ڈیوٹی کے ساتھ درآمد کی جائیں تو آپ کا معیارِ زندگی بلند ہو جائے گا اور آپ یہ سوچ کر فخر محسوس کریں گے کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر ہو چکے ہیں‘ اور ہم مہنگی امریکی کھجور کھا کر‘ امیروں کے عالمی طبقے میں شامل ہو جائیں گے۔ غریب کی زندگی بھی کوئی زندگی ہوتی ہے۔ پست معیار کی جو زندگی‘ پاکستانی گزارتے ہیں اس سے مر جانا ہی بہتر ہے۔ وہ سارے ذہین لوگ جو گھربار بیچ کر‘ انسانی سمگلروں کی مدد سے صحرائوں میں بھٹکتے ہوئے مر جاتے ہیں یا سمندروں میں ڈوب جاتے ہیں‘ وہ پست معیار کی زندگی سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ ڈار صاحب بھی یہی چاہتے ہیں کہ پست معیار کی زندگی میں‘ ایڑیاں رگڑنے والے یا تو یہیں پر قبروں میں چلے جائیں‘ یا پھر انسانی سمگلروں کو‘ اپنی آخری پونجی دے کر‘ صحرائوں میں دھکے کھا کے مریں یا سمندروں میں ڈوب جائیں۔ جو پاکستان میں رہ جائے‘ اس کا معیارِ زندگی بلند ہونا چاہیے اور اگر معیارِ زندگی زیادہ ہی بلند کرنا ہو تو مسلم لیگ ن میں شامل ہو جائے‘ معیارِ زندگی بلند ہو جائے گا اور جو ایرے غیرے‘ پست معیارِ زندگی میں رہ جائیں‘ انہیں تھپڑ‘ ٹھوکر اور مکا مار کے‘ ن لیگی ہونے کا لطف اٹھائے۔ زندگی ہوتی ہی کس لئے ہے؟ ن لیگی ہونے کا یہی تو مزہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں کا مختصر منشور یہ ہے کہ
جینے بھی نہیں دیں گے‘ مرنے بھی نہیں دیں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved