تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     04-12-2015

ایک نئے مودی کا جنم

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایوان میں جو کئی باتیں ایک ساتھ کہیں‘ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان کی ریل گاڑی اب پٹڑی پر آ رہی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے وہ پٹڑی پر چڑھی ہی نہیں تھی۔ وہ چنائو مشن کی پوزیشن میں کھڑی تھی۔ کھڑے کھڑے ہی زور سے سیٹیاں بجا رہی تھی‘ کوری بھاپ چھوڑ رہی تھی‘ اور چُھک چُھک کر رہی تھی۔ مودی کی ریل گاڑی میں سوار کئی مسافر ایسی ایسی آوازیں نکال رہے تھے کہ پلیٹ فارم پر کھڑے عوام حیرت میں مبتلا ہیں۔ مودی ابھی تک وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی طرح جلسے کر رہے تھے۔ پہلی بار لگا کہ انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ بھارت کے وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ ایک ذمہ دار وزیر اعظم کی طرح انہوں نے کہا کہ سرکار کا ایک (دھرم) فرض ہے۔ بھارت سب سے اول اور اس کی ایک ہی مذہبی کتاب ہے‘ آئین! مودی نے پہلی بار نہرو کے علاوہ سبھی وزرائے اعظم کی خدمات کو سراہا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سرکار اکثریت سے چنی گئی ہے‘ لیکن وہ چلے گی سبھی پارٹیوں کی متفقہ رائے سے! انہوں نے سیاست کو 'میرے‘ اور 'تیرے‘ میں بانٹنے کی بجائے 'ہم‘ کے جذبات سے چلانے کی بات کی۔ ابھی تک تو ان کی پارٹی صرف 'میرے‘ ہی سے چل رہی ہے۔ اس سے 'ہم‘ کی بات ہی اُڑ گئی ہے۔ اگر وہ ملک کو 'ہم‘ کے ذریعے چلانا چاہتے ہیں‘ تو کہنا پڑے گا کہ 'دیر آید درست آید‘! مودی کے گلے میں بندھا غرور کا پتھر انہیں دنوں دن ڈبوئے چلا جا رہا تھا۔ اب توقع ہے کہ وہ تیر پائیں گے۔ سونیا اور من موہن کو دیا گیا بلاوا اس امید کو قوی تر کرتا ہے۔
یہ پالیسی پڑوسی ملکوں کی جانب بھی چلے تو پچھلے ڈیڑھ سال میں بھارت کا جو کھیل بنتے بنتے بگڑ گیا تھا‘ وہ بھی سدھر جائے گا۔ بھارتی آئین کے نام پر فضول کی نوٹنکی رچائی گئی‘ پارلیمنٹ اور ملک کے دو دن بیکار چلے گئے‘ لیکن ان میں سے ایک نئے مودی کا جنم ہوا‘ یہ سب سے بڑا حاصل ہے۔ اس کا کریڈٹ آپ بہار کو دیں‘ جھابوا رتلام کی ایم پی کی نشست کو دیں یا مودی کی اپنی چالاکی کو دیں‘ یہ بہت ہی خوش آئند ہے۔ اگر مودی کی گاڑی اس پٹڑی پر چلتی رہی تو وہ یقینا پانچ سال پورے کریں گے‘ اپنی عزت قائم کریں گے‘ بی جے پی مضبوط ہو گی اور شاید وہ ملک کے اعلیٰ وزرائے اعظم میں گنے جائیں!
مغربی توپوں کا بارود
دہشت گردی کے خلاف ساری دنیا جس طرح سے ایک ہو رہی ہے‘ گزشتہ 20 پچیس سال میں کبھی نہیں ہوا۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد پاس کر کے سبھی ممبر ممالک سے کہا ہے کہ دہشت گردی سے لڑنے کے لیے وہ دگنی طاقت لگا دیں‘ اور جو بھی طریقہ وہ اپنانا چاہیں‘ اپنائیں۔ اس قرارداد پر روس اور چین نے بھی مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ہمیشہ دیکھا یہ گیا ہے کہ جن قراردادوں کو امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس پیش کرتے ہیں‘ ان کی روس اور چین مخالفت کر دیتے ہیں‘ یا کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ سانحہ پیرس نے اب ملکوں کو اپنے سیاسی اختلافات بھلانے پر مجبور کر دیا ہے۔ امریکہ‘ فرانس اور برطانیہ نے دہشت گردوں کی سب سے زیادہ مدد کی اور انہیں اس لیے کھڑا کیا کہ وہ اپنے اپنے ممالک یا پڑوسی ملکوں کی سرکاروں کو گرا دیں۔ افغانستان‘ عراق اور لبیا جیسے ملکوں میں حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے امریکہ نے ان دہشت گردوں کا جم کر استعمال کیا۔ مغربی ملک ان ایشیائی ممالک یا ان کی کانوں پر قابض ہونا چاہتے تھے یا پھر ان کے بہانے روسی اثر کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ روس اور امریکہ کا مقابلہ شام میں تین لاکھ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا باعث بنا۔ روسی اثر ختم کرنے کے لیے ہی امریکہ نے افغانستان میں پہلے مجاہدین‘ پھر طالبان اور القاعدہ کی بھی بھرپور حمایت کی۔ چین کے یغور مسلمانوں سے بھی امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی کے ہدف پورے کروائے۔ انہوں نے‘ نجیب اللہ‘ صدام حسین اور قذافی کے خلاف دہشت گرد طاقتوں کی کھلی اور سیدھی مدد کی۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ترکی کے جی ٹونٹی اور آسیان میں دہشت گردی کے 
خلاف عالمی مورچہ بنانے کی اچھی پہل کی ہے‘ لیکن مودی کو کسی بھول میں نہیں رہنا چاہیے۔ مغربی ملک صرف انہی دہشت گردوں کے خلاف کمر کسیں گے‘ جو اُن کے خلاف ہیں۔ جو دوسرے ممالک کے خلاف ہیں‘ ان دہشت گردوں کی ابھی تک ان دیکھی کرتے رہے ہیں‘ بلکہ وہ گھما پھرا کر ان کی مدد کرتے رہے ہیں۔ مغربی ملکوںکی توپوں کے لیے مسلمان لوگ سب سے سستا بارود بن گئے ہیں۔ بے روزگار‘ بغیر تعلیم والے اور غریب نوجوانوں کو بہکانا بہت آسان ہے۔ یہ بہکے ہوئے نوجوان سب سے زیادہ اپنے ہی لوگوں کو مار رہے ہیں۔ مغربی ملکوں نے ہی اس دہشت گردی کو پیدا کیا، اب یہی اس کی دوا کریں گے۔ 
بھارت کو نقلی خوف سے آزاد کریں! 
آئین کے بہانے ایوان کی شروعات اچھی ہو گئی‘ لیکن سبھی پارٹیوں کے لیڈروں کے جو بیان آئے‘ ان سے لگتا ہے کہ پارلیمنٹ کا یہ سیشن مون سون سیشن کی طرح لگ بھگ ناکام ثابت ہو جائے گا۔ سرکار اڑی ہوئی ہے کہ پہلے عام جی ایس ٹی بل پاس ہو‘ بعد میں دوسروں مدعوں پر سوچا جائے گا۔ جی ایس ٹی بل ہی کیوں؟ باقی تین درجن بل بھی پاس ہونے چاہئیں۔ پارلیمنٹ کا خاص کام قانون بنانا ہے۔ اگر وہ اپنا ضروری کام نہ کرے اور دوسرے کاموں میں وقت برباد کرے تو وہ اپنی اہمیت خود گھٹائے گی۔ اگر سرکار میں بیٹھے لوگ چالاکی کرنا چاہیں‘ تو وہ اس خلاف ورزی کے باوجود قانون بنائے بنا ہی اپنا حکم نافذ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں‘ لیکن یہ پارلیمنٹ کی توہین ہو گی‘ اور اس کی آخرت سرکاری تانا شاہی اور غیر جواب داری ہو گی‘ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی نچلی سیاست سے اوپر اٹھیں اور پارلیمنٹ کو اپنا کام کرنے دیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پارلیمنٹ کو منسٹری آ ف لا کا ایک شعبہ بنا کر رکھ دیا جائے‘ جیسا کہ سوویت اور چینی ایوانوں میں ہوتا رہا ہے۔ ان کمیونسٹ ملکوں میں پارلیمنٹ تو صرف ربڑ کی مہر بن کر رہ گئی تھی۔ کوئی بھی جمہوری پارلیمنٹ ملک کی سیاست کا آئینہ ہوتی ہے‘ اسی لیے اپوزیشن پارٹیوں نے اگر یہ مانگ کی ہے کہ انتہا پسندی پر بحث ہو تو اس میں کیا برائی ہے؟ ضرور ہونی چاہیے۔
انتہا پسندی کون دکھا رہا ہے‘ کون کر رہا ہے‘ اس کے کیا کیا ردعمل آ رہے ہیں‘ وہ حقیقی ہیں یا نقلی‘ ان سب مدعوں پر جم کر بحث کیوں نہیں ہوتی؟ مان لیا کہ انتہا پسندی یا مذہبی تصادم کا جو ماحول بنا ہے‘ وہ نقلی ہے‘ بے بنیاد ہے‘ جان بوجھ کر کھڑا کیا گیا ہے تو بھی ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ ملک کے کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو چاہے جھوٹ موٹ میں ہی ڈر رہے ہیں‘ لیکن وہ ڈر رہے ہیں۔ عامر خان جیسے مقبول اور طاقتور فنکار کی بیوی ڈر جائے‘ کیا یہ فکر کی بات نہیں ہے؟ عامر جیسے وطن پرست آدمی پر حملہ کرنے کی بجائے میرے وطن پرست دوستوں کو چاہیے کہ وہ عامر کی بیوی اور ایک معصوم بچے کی ماں کرن رائو کے خوف کا حل کریں۔ ایسے میں سرکار کا فرض کیا ہے؟ اگر وہ پورے ملک کی سرکار ہے تو یہ دیکھنا اس کا کام ہے کہ ملک کا ہر باشندہ بے خوف رہے۔ اگر ڈر بے بنیاد ہے تو اس کا حل کرنا آسان ہے۔ یہ کام اسے فی الفور کرنا چاہیے۔ اگر ساری پارلیمنٹ متفق ہو کر خوف سے آزاد رہنے کی قرارداد پاس کرے تو یہ نہایت ہی تاریخی قدم ہو گا۔ اس سے سرکار کی عزت بڑھے گی ہی‘ کم نہیں ہو گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved