تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     04-12-2015

عیاش عوام‘ قلاش حکمران

وزارتِ خزانہ، اقتصادی امور، شماریات کا ''نوٹیفکیشن‘‘ میرے سامنے ہے‘ جو 30 نومبر 2015ء کو کسٹم ایس آر او 1177(I)2015 کے طور پر جاری ہوا۔ اس کی رو شنی میں وزیر اعظم کے سمدھی نے کہا ہے کہ چاکلیٹ اور پنیر کھانے والوں پر ٹیکس ضرور لگائے جائیں۔ معاشی پالیسی کے تناظر میں موجودہ وزیرِ خزانہ کی تازہ ''دروغ گوئی‘‘ کا ثواب یقیناً سابق مگر مفرور وزیر اعظم شوکت عزیز کو بھی ملتا رہے گا‘ جس نے پاکستانی معیشت کے بارے میں عوام سے جھوٹ بولنے کا آغاز کیا تھا۔
سمدھی صاحب کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ نئے منی بجٹ میں غریبوں پر بوجھ نہیں پڑا، بلکہ عیاش طبقے زیرِ بار آئے۔ اسحاق ڈار صاحب کے خیال میں چاکلیٹ کھانا معاشی جرم (Economic Crime) جبکہ میگا کمیشن کھانا عین قومی خدمت ہے۔ ن لیگی سرکار کے تازہ فرمان کے تحت پاکستان کے عوام عیاش اور اشرافیہ پیٹ پر پتھر باندھے قلاش گھومتی ثابت ہوئی۔ میرے دوست اور نان پریکٹسنگ ایڈووکیٹ خورشید شاہ نے بھی کہا کہ وزیر اعظم قوم سے جھوٹ بولنے پر معافی مانگ لیں‘ لیکن مفاہمتی جمہوریت کے سب سے بڑے وکیل یہ کہنا بھول گئے کہ وہ کس جھوٹ کی بات کر رہے ہیں۔ جہاں سارا نظام طرزِ حکمرانی سمیت جھوٹ، منی لانڈرنگ، فریب، دھوکہ دہی، گنڈھ کپی‘ اعداد و شمار کے ہیر پھیر اور لفظوں سمیت ضمیر کی تجارت پر مبنی ہو، وہاں کون سا سچ اور کیسا جھوٹ؟
وزارتِ خزانہ نے مورخہ 30 نومبر 2015ء کو ایک اور نیا اعزاز حاصل کیا۔ آئین پاکستان مجریہ 1973ء کی رو سے فنانس ایکٹ پاس کرنے کے بعد کوئی نیا ٹیکس پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر نہیں لگایا جا سکتا‘مگر سمدھی صاحب کی وزارت نے پارلیمنٹ کو بائی پاس کر کے ''مادرِ پارلیمان‘‘ ہونے کا ثبوت دیا؛ چنانچہ مدر آف پارلیمنٹ نے محض ایک نوٹیفکیشن کی طاقت سے 40 سو کروڑ کے ٹیکسوں کا بوجھ عام آدمی کے سر پر ڈال دیا۔ اس ٹیکس کے نفاذ کی ایڈوانس خبر مجھ تک پہنچی تو میں نے کچھ سیاسی اکابرین سے رابطہ کر کے ان سے کہا کہ منی بجٹ کے خلاف اپوزیشن متحد ہو کر یومِ سیاہ منائے۔ جو ''ری ایکشن‘‘ مجھے ملے‘ وہ اس قابل ہیں کہ کسی لیڈر کا نام لکھے بغیر آپ سے شیئرکر لیے جائیں۔
ایک صاحب کے پاس میں خود چل کر حاضر ہوا۔ وہ آج کل زبان کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے اکثر غریب کسان اور مزدور کی بات کرتے ہیں۔ کہنے لگے: بلدیاتی الیکشن کے حلقوں میں رابطہ عوام میں مصروف ہوں‘ اس لیے نئی مصروفیت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ دوسرے صاحب نے کہا: ہمیں پارلیمنٹ میں بات کرنی چاہیے‘ ایک اور نے وعدہ کیا کہ پارٹی کو کہیں گے‘ احتجاج کرے۔ اس حوالے سے قابلِ ذکر پیش رفت یہ ہوئی کہ پنجاب کے اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید نے ٹیکس کے نام پر عوام کی جیبوں پر اس کھلی ڈکیتی کے خلاف گزشتہ روز احتجاجی مظاہرہ کر دیا۔
ڈکیتیاں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ اسلحے، دھمکی اور طاقت کے زور پر زبردستی لوٹ مار کو سرقہ ڈکیتی کہتے ہیں۔ وزارتِ خزانہ آج کل صحیح معنوں میں وزارتِ برائے خدمات آئی ایم ایف کا کردار ادا کر رہی ہے۔ تفصیل میں جانے سے بہتر ہو گا کہ ہم وہ دیکھ لیں‘ جو موجودہ جمہوریت نے کہا‘ یعنی ان چیزوں کی فہرست جو خادمِ اعظم کی اجازت سے عیاشی کے زمرے میں شامل کی گئیں۔
وزیر اعظم کے سمدھی صاحب نے کھانے پینے کی چیزوں اور دیگر اشیا پر جو ٹیکس لگائے ان میں اضافہ شدہ ٹیکس کی فہرست پیشِ خدمت ہے۔
مرغی کا گوشت 10 فیصد‘ مچھلی کا گوشت 10 فیصد‘ دہی15 فیصد‘ مکھن15 فیصد‘ دودھ 15 فیصد‘ پنیر 15 فیصد‘ نمک اور تمام پاوڈر 15 فیصد‘ پنیر کی تیاری پر 15 فیصد ٹیکس۔ قدرتی شہد 15فیصد‘ نار یل اور میوہ جات 10 فیصد‘ انجیر 15فیصد‘ انناس 15 فیصد‘ ناشپاتی 15 فیصد‘ امرود 15 فیصد‘ آم 15 فیصد‘ مالٹے 15 فیصد‘ کینو 15 فیصد‘ انگور 15 فیصد‘ چکوترہ 15فیصد‘ تربوز 15فیصد‘ پپیتا 15فیصد‘ سیب 15فیصد‘ اخروٹ 15فیصد‘ چیری 15فیصد‘ آلوچے 15فیصد‘ آڑو 
15فیصد‘ سٹا 15 فیصد‘ جامن 15فیصد‘ سرخ انگور 15 فیصد‘ لذیذ میوہ جات 15فیصد‘ جاپانی پھل 15فیصد‘ کھجور 15فیصد‘ انار 15 فیصد‘ رس بیری، بلیک بیری 15فیصد‘ خوبانی 15فیصد‘ آلو بخارا 15فیصد‘ چلغوزہ 15فیصد‘ کشمش 15فیصد‘ مِکس ڈرائی فروٹ 15فیصد‘ چیونگم 15 فیصد‘سفید چاکلیٹ 15فیصد‘ کوکو پاؤڈر 10 فیصد‘ تیار گوشت 15فیصد‘ کوکو مکھن 15فیصد‘ میٹھی چیزیں15فیصد‘ جو کا شربت 15فیصد انڈے 15فیصد‘ گندم 15فیصد‘ میکرونی 15فیصد‘ پاستا 15فیصد‘ دیگر پاستا 15فیصد‘ دلیہ 15فیصد‘ تیار خوراک 15فیصد‘ سوس 15فیصد‘ خشک پِسی گندم 15فیصد‘ میٹھے بسکٹ 15فیصد‘ رس 15فیصد‘ ڈبل روٹی ٹو سٹ 15فیصد‘ کھیرا 15فیصد‘ اچار 15فیصد‘ ٹماٹر 15فیصد‘ ٹماٹر پیسٹ 15فیصد‘ مشرومز 15فیصد‘ آلو 15فیصد‘ مِکس سبزیاں 15فیصد‘ مٹر 15فیصد‘ چھلکے والا لوبیا 15فیصد‘ زیتون 15فیصد‘ میٹھی مکئی 15فیصد‘ منرل واٹر 15فیصد‘ ترش پھل 15فیصد‘ مونگ پھلی 15فیصد‘ ٹماٹر کا جوس 15فیصد‘ پھلوں کا جوس 15فیصد‘ مِکس جوس 15فیصد‘ چائے،کافی 10 فیصد‘ روسٹڈ کافی وغیرہ 15فیصد‘ ٹماٹو کیچپ 15فیصد‘ ٹماٹو سوس 15فیصد‘ مسٹرڈ سوس 15فیصد‘ آئس کریم 15فیصد‘ پروٹین 15فیصد‘ مشروبات 15فیصد‘ دودھ کی بنی ہوئی چیزیں 15فیصد‘ میٹھے گوشت 15فیصد‘ کتے اور بلیوں کی خوراک 15فیصد‘ کولون 15فیصد‘ پرفیومز 15فیصد‘ لپ سٹک 15فیصد‘ فیس پاؤڈر 15فیصد‘ ٹیلکم پاؤڈر 15فیصد‘ فیس کریمیں اور لوشن 15فیصد‘ طاقت بخش سکن خوراک 15فیصد‘ شیمپو 15فیصد‘ ہیئر کلر 15فیصد‘ ٹوتھ پیسٹ 15فیصد‘ واش روم کلینر 15فیصد‘ اگر بتی 15فیصد‘ آنکھوں کے لینز 15فیصد‘ صابن 15فیصد‘ فیس واش 15فیصد‘ چمڑے کی بنی چیزیں 10 فیصد‘ اونی دھاگا 10 فیصد‘ ریڈی میڈ کپڑے 10 فیصد‘ اونی کپڑے 10 فیصد‘ سویٹر، کوٹ، جیکٹس 5 فیصد‘ بچوں کے کپڑے 5 فیصد‘ رومال، سکارف، مفلر، چادریں 5 فیصد‘ ٹائی 5 فیصد‘ کمبل 5 فیصد‘ پردے اور بیڈ شیٹس 5 فیصد‘ گھر کو آراستہ کرنے والی اشیاء 5 فیصد‘ رسی دھاگا 5 فیصد‘ پلاسٹک کے جوتے 10 فیصد‘ چمڑے کے جوتے 10 فیصد‘ سنگ ِمرمر اور سفید پتھر 15 فیصد‘ گرینائٹ 15 فیصد‘ دیگر پتھر 15 فیصد‘ نقلی زیورات 10 فیصد‘ لوہا اور سٹیل 5 فیصد‘ رنگ و روغن کا سامان 12 اعشاریہ پانچ فیصد۔ 
یہ فہرست ہے ان چند اشیا کی جو پاکستان کے امیر کبیر عوام عیاشی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اب آئیے ریڈ زون میں‘ جہاں قلاش حکمران بستے ہیں۔ حکمران اور سیاسی مولوی گھومتے لینڈ کروزروں میں ہیں، دعویٰ کرتے ہیں‘ ان کے دور میں کتا بھی بھوکا نہیں رہے گا۔ اس شاہی ٹولے کا گزارا اپنے بچوں سے لیے گئے قرض حسنہ پر ہے۔ ٹیکس کی باری آئے تو جو 5 ہزار دے ڈالے وہ 500 ارب کا قرضہ کھانے کے بعد کہتا ہے: میں ڈیفالٹر تو نہیں ٹیکس دیتا ہوں۔ اس ہفتے میں، چیف جسٹس کے شہر کراچی مقدمے لڑنے گیا‘ اور چیف جمالی صاحب میرے شہر اسلام آباد سے باہر تشریف فرما تھے۔ امید ہے اگلے ہفتے کسی نہ کسی مقدمے میں آمنا سامنا ہو گا۔ دل چاہتا ہے یہ فہرست چیف جسٹس صاحب کے سامنے رکھوں‘ اور عرض کروں آپ اور کور کمانڈر ملکی نظام کے ڈوبتے ٹائی ٹینک کے بارے میں پریشان نہ ہوں۔ قلاش اشرافیہ کے بجائے عیاش عوام کی طرف نظر رکھیں۔ اگر عوام کی عیاشی کا یقین نہ آئے تو قلاش حکمرانوں کی اشیائے تعیش والی فہرست پڑھ لیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved