تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     04-12-2015

ایف بی آر: ٹیکس دہندگان کا نادہندہ

ہمارے محترم وزیر خزانہ نے بالآخر اس بات کا اعتراف کر ہی لیا‘ کہ ایف بی آر نے ٹیکس دہندگان کے دو سو ارب روپے دینے ہیں۔ یہ ریفنڈز اس لیے روکے گئے کہ آئی ایم ایف کو دھوکہ دیا جا سکے کہ محصولات میں قابل قدر اضافہ ہوا‘ اور مالیاتی خسارہ کم کیا گیا۔ دراصل اس دھوکہ دہی سے حکومت نے دوسو ارب زائد کی آمدنی ظاہر کی۔ وزیر موصوف نے یہ اعتراف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے سامنے 26نومبر 2015ء کو کیا۔ اس سے پہلے ایف بی آر کے سابق چیئرمین طارق باجوہ نے صرف ستانوے ارب روپے کے ریفنڈز کا اعتراف کیا تھا۔ 
طارق باجوہ نے اپنی الوداعی تقریب میں بلند بانگ دعوے کیے کہ اُن کی سربراہی میں جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس کی شرح گیارہ فیصد تک پہنچانے کا ہدف حاصل کیا گیا۔ اگر بھاری بھرکم ریفنڈز، غیر قانونی ریکوری، سیلز ٹیکس میںاعداد و شمار کے ہیر پھیر اور ایڈوانس کی رقم کو کُل محصولات سے الگ رکھا جائے‘ تو 2014-15ء میں ایف بی آر 2200 بلین روپے سے زیادہ حاصل نہیں سکا۔ اس طرح جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس کی شرح دراصل آٹھ فیصد سے زائد نہ تھی۔ یہ شرح گزشتہ مالی سال کی نسبت کم تھی۔ اب محترم فنانس منسٹر نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ طارق باجوہ اور اُن کی ٹیم نے محصولات کی شرح میں اضافہ دکھانے کے لیے دو سو بلین روپے کے ریفنڈز روکے۔ اس سے ارباب اقتدار کے ''محصولات میں غیر معمولی اضافے‘‘ کا دعویٰ بے نقاب ہو جاتا ہے۔ 
ماضی کی طرح 2014-15ء میں بھی ایف بی آر تیسری مرتبہ نظرثانی شدہ محصولات کے ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اصل ہدف 2810 بلین روپے تھا‘ جسے پہلی مرتبہ کم کر کے 2691 بلین روپے کیا گیا۔ اس کے بعد اسے مزید کم کرکے 2605 بلین روپے کر دیا گیا۔ اصل ہدف سے 222 بلین روپے کم جمع کرنے پر فنانس منسٹر نے طارق باجوہ اور اُن کی ٹیم کی نہ صرف تعریف کی‘ بلکہ اُنہیں بونس بھی دیے؛ تاہم دعوے کے مطابق حاصل کردہ 2588 بلین روپے کی تاحال سرکاری سطح پر تصدیق نہیں ہو سکی۔ یہ ہدف 360 بلین روپے کے اضافی ٹیکس لگا کر اور 200 بلین روپے کے ریفنڈز روک کر اور کچھ بھاری ایڈوانس لے کر ممکن بنایا گیا تھا۔ فنانس منسٹر، اسحاق ڈار صاحب نے ہائوس کمیٹی کو بتایا: ''دو سو بلین روپے کے ریفنڈز واپس کرنے کے لیے آئوٹ آف دی باکس حل تلاش کیا جا رہا ہے تاکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مالیاتی معاملات متاثر نہ ہوں‘‘۔
اس سے پہلے ایف بی آر کے نئے چیئرمین، ناصر محمد خان نے تصدیق کی تھی کہ اس وقت 88 بلین روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈز واجب الادا ہیں۔ اسحاق ڈار صاحب نے کمیٹی کو بتایا: ''ریفنڈز کی واپسی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مالیاتی مسائل بڑھا دے گی‘‘۔ یہ ایک عجیب، بلکہ پریشان کن بیان تھا کیونکہ حکومت اپنی آمدنی میں اضافہ ظاہر کرنے کے لیے ٹیکس دہندگان کے ریفنڈز کی واپس روک کر اُن کے بوجھ میں اضافہ کر رہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ صوبوں کو زیادہ رقم دینے کے لیے محصولات کے حجم کو بڑھا کر کیوں بتایا گیا؟ صوبے اپنے محصولات بڑھانے کے لیے دولت مند اور طاقتور افراد کو ٹیکس کے دائرے میں کیوں نہیں لاتے؟ ایسی ہیراپھیری سے معاملات کب تک چلیں گے؟
چیئرمین فنانس کمیٹی، قیصر احمد شیخ نے درست اندازہ لگایا ہے کہ ریفنڈز کو روک کر برآمد کنندگان کے لیے مشکل پیدا کر دی گئی ہے۔ اُن کا کہنا ہے: ''کاروباری طبقے کو رقم کی کمی کا سامنا ہے، ہر کوئی ریفنڈز کے لیے چیخ پکار کر رہا ہے‘ لیکن فنانس منسٹر اور ایف بی آر کے افسران کے پاس ان کی واپسی کے لیے کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے۔ اس میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘‘۔ یہ بات قابل غور ہے کہ 13 مئی 2014ء کو طارق باجوہ نے سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے سماعت کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ ریفنڈز کا کل حجم 97 بلین روپے ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اب وہ غلط بیانی پر عوامی سطح پر معذرت کریں گے۔ یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ اگرچہ فنانس منسٹر نے ریفنڈز کے حجم دو سو بلین ہونے کا اعتراف کیا‘ لیکن ایف بی آر کے افسران ان کی تفصیل بتانے سے گریزاں ہیں۔ گڈ گورننس اور شفاف مالی معاملات کے لیے یہ مواد ایف بی آر اور فنانس منسٹری کی ویب سائٹ پر موجود ہونا چاہیے‘ اور اسے ہر ماہ اپ ڈیٹ کیا جانا چاہیے تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ کتنا ٹیکس حاصل کیا گیا ہے اور ٹیکس دہندگان کو کتنی رقم واپس دینی ہے۔ 
تمام وفاقی اداروں میں ایف بی آر کو سب سے نااہل، بدعنوان اور غیر فعال سمجھا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس تاثر میں مبالغہ آرائی کا کچھ عنصر پایا جاتا ہو‘ لیکن یہ ادارہ باقی تمام اداروں کا روح و رواں ہے۔ اسے ہر حال میں درست کرنا ہو گا۔ محکمہ مال، ریونیو اور کسٹم کے افسران کو حکومت وقت کے فعال بازو سمجھا جاتا ہے۔ یہ حکومت کو لامتناہی طاقت عطاکرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان اداروں کے افسران لائی جانے والی ہر مثبت تبدیلی کے سامنے مزاحمت پر اتر آتے ہیں‘ اس لیے ضروری ہے کہ ایک آدھ معطلی یا تبدیلی کا شوق پورا کرنے کی بجائے‘ اس کی اوورہالنگ کی جائے اور ان اہم اداروں میں موثر، فعال، محنتی اور عوام دوست افسران کو تعینات کیا جائے۔ جب تک ٹیکسوں کا نظام موثر نہیں ہو گا، عوام اپنی مرضی سے ٹیکس ادا نہیں کریں گے۔ ٹیکس ایڈمنسٹریشن ریفارمز پروگرام پر کئی ملین ڈالر کے وسائل ضائع کرنے کے باوجود اس ادارے کی حالت نہیں سدھری۔ قبلہ مولانا طارق جمیل کے لیکچر بھی ٹیکس افسران کی کارکردگی بہتر بنانے میں ناکام رہے۔ ان حالات میں اگر چیئرمین ایف بی آر اس ادارے کا امیج تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو پھر انقلابی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ 
ہمارے پالیسی سازوں کو احساس ہونا چاہیے کہ جو ٹیکس سسٹم محنتی اور فرض شناس عوام کو تنگ کرے، شہری اُس کے ساتھ رضاکارانہ طور پر تعاون ہرگز نہیں کریں گے۔ اس وقت ایف بی آر، نااہلی اور جبر کی علامت بن چکا ہے۔ اس نظام کے تحت بدعنوان افراد کی چاندی ہو جاتی ہے‘ اور ٹیکس ادا کرنے والے فرض شناس شہری گرفت میں آ جاتے ہیں۔ اُنہیں اپنے واجب محصولات سے زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح جب ایف بی آر طاقتور اشرافیہ سے انکم ٹیکس وصول نہیں کر پاتا تو وہ اس کا بدلہ عام شہریوں سے لیتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں طاقتور افراد عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں کیونکہ وہ کچھ ادا نہیں کرتے، دوسری طرف عام شہری ریاست کا تمام بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ سرکاری افسران بھی ان کا جینا حرام کرتے ہیں‘ اور وزرا سے کارکردگی کی اسناد وصول کرتے ہیں۔ 
حکمرانوں کے لیے ضروری ہے کہ معاشی ترقی میں اضافی وسائل کی منصفانہ تقسیم، ملازمتوں کی فراہمی، بہتر زندگی، تعلیم اور صحت اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرتے ہوئے عوام کو بتائیں کہ جمہوریت فعال ہے‘ اور اس کا تعلق صرف انتخابی نعروں یا میڈیا میں دیے جانے والے بیانات سے نہیں ہے۔ تاحال ایسی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن تک، انہی دو معرکوں کی باتیں ہوتی ہیں۔ ان کے درمیان پانچ سال تک جمہوری فعالیت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved