کئی دنوں سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ہر بار فون بند ملتا۔ وہ بیمار تو رہتا تھا‘ چنانچہ فکر لاحق ہوئی اور اپنے اور اُس کے مشترکہ دوست جسٹس (ر) میاں سعید الرحمن فرخ کو فون کیا جن کا تعلق بھی ساہیوال سے ہے‘ انہوں نے بتایا کہ وہ تو اللہ میاں کے پاس چلے گئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اسی لمحے ساہیوال میں ہونے والی ملاقاتوں کی فلم چلنا شروع ہو گئی جن کے شرکا ء میں مجید امجد‘ منیر نیازی‘ جعفر شیرازی‘ ناصر شہزاد‘ گوہر ہشیارپوری‘ مراتب اختر‘ حاجی بشیر احمد بشیر‘ قیوم صبا اور کئی دیگر تھے جو اب اس دُنیا میں نہیں رہے‘ ماسوائے پروفیسر قیوم صبا کے۔ اُنہی ایام میں نذیر ناجی کا قیام بھی ساہیوال ہی میں تھا جہاں ان کے بڑے بھائی چودھری بشیر احمد ضلع کچہری میں کام کرتے تھے۔ جوگی ہوٹل میں مجلسیں برپا کی جاتیں۔ اس کے علاوہ مُفتی ضیاالحسن کے پرچے ''خدمت‘‘ میں ہماری غزلیں اور ہلکے پھلکے مضامین شائع ہوا کرتے‘ یعنی میرے‘ نذیر ناجی اور اشرف قُدسی کے‘ جس کا آج سوگ منانا پڑ گیا ہے۔ اس کے ایڈیٹر اسرار زیدی ہوا کرتے تھے۔ ساہیوال سے کئی سال پہلے لاہور شفٹ ہو گئے تھے جہاں علامہ اقبال ٹائون میں گھر بھی بنا لیا تھا۔ نہ صرف خود مستقل مریض تھے بلکہ اہلیہ بھی فالج زدہ تھیں۔ اللہ تعالی نے اولاد کی نعمت سے بھی نہ نوازا تھا اور نہ کوئی بہن
بھائی تھا۔ آپ بیوی کی تیمارداری کرتے اور خود زیادہ بیمار پڑ جاتے تو وہ ان کے پاس آ بیٹھتیں۔ لاہور میں میری اُن سے زیادہ تر ملاقاتیں میاں سعید ہی کے دولت خانہ پر ہوتیں جو لیک سوسائٹی میں واقع ہے‘ یا فون پر علیک سلیک اور ایک دوسرے کا حال پوچھ لیا جاتا‘ عُمدہ شاعر تھے اور ساہیوال سے شائع ہونے والے غزلوں کے انتخاب ''شہرِغزل‘‘ کے مرتب اور مولف بھی‘ جس میں ساہیوال اور قرب و جوار کے شعراء کا کلام مختصر تعارف کے ساتھ شائع کیا گیا تھا۔
کتابوں کے بیحد رسیا‘ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتابوں سے بالائی منزل کا ایک کمرہ بھرا ہوا تھا۔ ایک بار عمرہ کرنے گئے تو واپسی پر ائرپورٹ عملے نے انہیں سامان زیادہ ہونے پر روک لیا اور کہا کہ اتنے ریال آپ کو اضافی کرایہ ادا کرنا ہو گا۔ کہنے لگے میرے پاس 20 ریال ہیں‘ وہ لے لیجیے! اُنہوں نے ایک بڑے بیگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا‘ اس میں کیا ہے تو کھول کر دکھا دیا جس میں کتابیں تھیں۔ انہوں نے حیران ہو کر کہا کہ لوگ تو یہاں سے کپڑا‘ گھڑیاں اور دیگر اشیاء خرید کر لے جاتے ہیں‘ یہ آپ نے کیا کیا ہے؟ اس کے بعد انہوں نے بغیر اضافی کرایہ چارج کئے
جانے دیا۔ آخری دنوں میں میاں سعید کے مشورے پر وہ اپنی ساری کتابیں کسی لائبریری کو عطیہ کرنے پر تیار ہو گئے تھے لیکن موت نے مہلت نہ دی۔
ساہیوال میں مجید امجد فوڈ کنٹرولر تھے اور ریلے سائیکل ان دنوں پرمٹ پر ملا کرتا تھا‘ جس کا ایک پرمٹ میں نے لیا۔ امجد صاحب کو بھی ضرورت تو تھی لیکن انہوں نے خود پرمٹ لینے کی بجائے اشرف قُدسی کی درخواست پر انہیں بھی پرمٹ دے دیا اور بعد میں وہ سائیکل موصوف سے خرید لیا۔ امجد صاحب سائیکل اس قدر آہستگی سے چلایا کرتے کہ حیرت ہوتی۔ اُن کی وفات کے بعد اِن کے لیے جو تعزیتی ریفرنس برپا کیا گیا‘ میں نے بھی اس میں کُچھ اشعار پیش کئے تھے جو نہ تو مُجھے یاد تھے اور نہ ہی میرے ریکارڈ میں تھے۔ چند سال پیشتر مجید امجد ڈے پر ایک صحافی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس میں ظفر اقبال نے جو اشعار کہے تھے۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا ؎
تری یاد میں جلسۂ تعزیت
تُجھے بُھول جانے کا آغاز تھا
میری عادت ہے کہ مجھے اپنا کوئی بُھولا بھٹکا شعر کہیں سے دستیاب ہو جائے تو میں اِس پر پوری غزل لکھ لیتا ہوں‘ بشرطیکہ وہ شعر مُجھے اچھا لگے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا‘ البتہ میں نے اِس میں تھوڑی تبدیلی کر کے اسے اس طرح کر دیا ؎
مری یاد میں جلسۂ تعزیت
مُجھے بُھول جانے کا آغاز تھا
اوکاڑہ کے ضلع بننے سے پہلے ہمارا ضلع ساہیوال ہی ہوا کرتا تھا‘ اس لیے وہاں آنا جانا بھی رہتا اور اُسی وابستگی کی وجہ سے وہاں پر گزارا ہوا وقت اور اس وقت کے دوست اور ہمسفر بطور خاص اس لیے بھی یاد آتے ہیں کہ وہ میرے ماضی کا حصہ ہیں‘ اور یہ وہ زمانہ تھا جسے میں اپنی زندگی کا خوبصورت ترین لمحہ شمار کرتا ہوں‘ چنانچہ اوکاڑہ کی طرح ساہیوال اور اس میں گزرے ہوئے وقت کی یاد دل میں ایک ساتھ جگمگاتی رہتی ہے۔ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ مری اصل زندگی وہی تھی جو میں ان دو شہروں میں گزاری۔ لاہور کا نمبر تو کہیں بہت بعد میں آتا ہے۔
ساہیوال میں ملازمت کرتے رہے۔ پاسکو میں بھی ملازم رہے اور سرکاری رسالوں سمیت کئی پرچوں کے ایڈیٹر رہے۔ میری صحت کے بارے میں اکثر فکرمند رہتے لیکن مُجھ سے پہلے ہی اپنی ساری فکرمندیاں ساتھ لے گئے ع
حیف درچشم زدن صُحبتِ یار آخر شُد
رُوئے گُل سیرندیدیم و بہار آخرشُد
سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میاں سعید کے علاوہ اس کے لیے اظہار تعزیت اور کس کے ساتھ کروں۔ مجموعہ کلام ترتیب دے رکھا تھا لیکن اس کی اشاعت کی نوبت کبھی نہ آئی۔ اس جیسا نرم خو اور محبت خورا آدمی میں نے کم ہی دیکھا ہو گا ع
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
میاں سعید سے معلوم ہوا کہ ہمارے ایک اور مشترکہ دوست عزیز ملک سے مرحوم کے بارے میں مزید معلومات مل سکتی ہیں‘ جن کا انتظار رہے گا اور جو کسی اگلی نشست میں پیش کروں گا‘ بشرط زندگی۔
آج کا مطلع
بجھے بجھے اور راستوں پر پڑے ہوئے ہیں
کہ ہم ستارے ترے فلک سے جھڑے ہوئے ہیں