تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     04-12-2015

گنجائش اور فہمائش

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر مملکت جناب ممنون حسین صاحب ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے لئے سود کو جائز قرار دینے کی گنجائش کے متلاشی ہیں۔ صدر مملکت خود تو بڑے نیک آدمی معروف ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں،حرمین شریفین سے محبت کرتے ہیں اور عمرے کثرت سے کرتے ہیں، لہٰذا یہی گمان کیا جا سکتا ہے کہ کسی سود خور افسر نے ان کو باور یہ کروایا ہے کہ سود کے بغیر راستہ کوئی نہیں، لہٰذا کم از کم مندرجہ بالا شعبہ میں تو سودکو حلال کرنے کی گنجائش ہونی چاہئے۔ چنانچہ ہمارے بھولے بھالے بزرگ صدر مملکت نے بھرے جلسے میں علماء سے کہہ دیا کہ مذکورہ شعبہ میں سود کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ لہٰذا گنجائش پیدا کرو۔ گنجائش نکالنا کوئی نئی بات نہیں، ہر دور میں لوگ گنجائش طلب کرتے رہتے ہیں۔ عام لوگ علماء سے رشوت خوری کی گنجائش مانگتے رہتے ہیں لیکن یہ خبر اس لئے نہیں بنتی کہ یہ ایک انفرادی فعل ہوتا ہے جو ایک شخص اور مولوی صاحب کے درمیان ہی رہ جاتا ہے۔ خبر اس وقت بنی جب پاکستان کے صدر نے گنجائش طلب فرمائی، سرعام طلب فرمائی اور علماء سے طلب فرمائی... 
اب مسئلہ یہ کھڑا ہو گیا ہے کہ پاکستان کے آئین کے دیباچہ میں تو یہ لکھا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سود کو جلد از جلد ختم کرے اور اسلام کا معاشی نظام بینکوں میں رائج کرے لیکن اس آئین کی حفاظت کا حلف اٹھانے والا... اور پھر تمام حکمرانوں سے اس آئین کا حلف لینے والا خود ہی آئین کے برعکس ایک واضح حرام اور ناجائز کام کو حلال کرنے کی گنجائش کیوں طلب کر رہا ہے؟ کیا یہ آئین کی واضح خلاف ورزی نہیں ہے؟ کیا سپریم کورٹ کو اس کا نوٹس نہیں لینا چاہئے؟ یہ باتیں ابھی چل رہی تھیں کہ صدر صاحب کی طرف سے تردید آ گئی مگر میڈیا پر ان کے جو جملے موجود ہیں وہ جناب صدر کی تردید کی تردید کر رہے ہیں۔علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اس کا حل تردید نہیں بلکہ اللہ کریم سے معافی ہے اور عوام سے بھی معذرت ہی میں اس کا حل مضمر ہے اور اگر اس غلطی کا کفارہ یوں ادا ہو جائے کہ سود کے نظام کو لپیٹ دیا جائے تو پھر تو صدر مملکت کی غلطی بھی نیکی بن جائے گی۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں کہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ بعض نیکیاں ایسی ہیں کہ وہ کرنے سے غلطیاں اور برائیاں بھی نیکیوں میں بدل جاتی ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ صدر صاحب کی غلطی بھی نیکی میں بدل سکتی ہے اگر وہ انسداد سود کی نیکی کر جائیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بے چارے نیک صدر مملکت میاں نوازشریف کی چاہت کے بغیر نیکی نہیں کر سکتے۔ جس کی نیکی کا مشورہ ہم جیسے علماء دے رہے ہیں، ایسی نیکی کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے۔ میری یہ بات سن کر میرا ایک دوست مولوی صاحب کہنے لگا اگر صدر کے پاس انسداد سود جیسی نیکی کرنے کا اختیار نہیں ہے تو پھر سود کو حلال کرنے کی برائی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے اسے جواب دیا، نیکی اور برائی کا معیار اللہ اور اس کے رسولﷺ کا فرمان ہو جائے تو کیا ہی خوب بات ہے ۔
سود میں گنجائش کی بات سے مجھے یاد آیا کہ اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا، کہنے لگا میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ میرے لئے بدکاری کی گنجائش نکال دیجئے، حضورﷺ نے اسے یہ نہیں فرمایا کہ کوئی گنجائش نہیں، آپ اگر یہ فرما دیتے تو وہ اسلام سے محروم رہ جاتا، لہٰذا آپﷺ نے کمال حکمت کے ساتھ اسے سمجھانا شروع کیا کہ یہ بتلا اگر کوئی شخص تیری بہن، ماں، بیٹی وغیرہ سے ایسی حرکت کرے تو تیرے کیا جذبات ہوں گے؟ وہ تو غصے میں آ گیا، اس پر حضورﷺ نے اسے سمجھاتے ہوئے فرمایا، دیکھ جس کسی کے ساتھ تم بدکاری کرو گے وہ بھی کسی کی ماں، بہن اور بیٹی ہو گی، گنجائش طلب کرنے والے کو بات سمجھ میں آ گئی۔ اس نے کلمہ پڑھا اور پاک صاف کردار کا حامل مسلمان بن گیا۔ مسلمان کیا بنا شرفِ صحابیت سے مشرف ہو گیا۔ ہمارے صدر صاحب بھی جو وضعدار، نیک اور اچھے آدمی ہیں، اگر کسی مشورہ دینے والے سود خور افسر کو ایسے ہی سمجھاتے یا کسی عالم کی خدمت حاصل کر لیتے تو وہ انہیں بتلاتا کہ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ سود اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی کم ترین قسم بھی ماں کے ساتھ بدکاری کے مترادف ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ سود خور افسر اگر یہ بات ہمارے انتہائی قابل صد احترام، نیک اور صالح صدر مملکت سے سنتا تو ضرور توبہ توبہ کر اٹھتا۔ سود خوری اللہ و رسول کے ساتھ جنگ تو ہے ہی... ماں جیسے مقدس اور مطہر رشتے کو پامال کرنے کے بھی مترادف ہے۔
میں نے جب گنجائشوں کے حوالے سے غور کیا تو حیران رہ گیا کہ نوکر شاہی کے ہاتھوں یہ گنجائشوں کا معاملہ ہمیں کہاںلے جائے گا۔ تیل سے بجلی پیدا کرنے والے جو کارخانے ہیں، ان کو ''آئی پی پیز‘‘ کہا جاتا ہے یعنی بجلی پیدا کرنے والے یہ آزاد ادارے ہیں۔ ان کو پاکستان کے خزانے سے جو سالانہ ادائیگی کی جاتی ہے وہ سود سمیت اتنی بڑی ادائیگی ہے کہ مجموعی ترقیاتی بجٹ کے برابر ہے۔ ان کی گنجائش پیدا کر لی گئی ہے، حالانکہ ضرورت نہیں ہے لہٰذا ہے کوئی جو اس گنجائش سے اہل پاکستان اور پاکستان کی جان چھڑانے کا تذکرہ تک کرنے کی جرأت کرے؟
پاکستان زرعی ملک ہے۔ ہم خوردنی تیل باہر سے اس مقدار میں درآمد کرتے ہیں کہ ہمارا مجموعی خرچہ پاک افواج کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ لوگوں کی پنشن کے برابر ہے۔ مگر یہ وہ گنجائش ہے جسے ختم کرنے پر کوئی تیار نہیں۔
انڈیا نے ہمارے ملک سے چاول برآمد کرنے والے بڑے دو تین مگرمچھوں کو خریدا، اور اس چاول کو دبئی میں دونمبر پیکنگ کر کے دنیا میں بھیجا گیا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے آرڈر کینسل ہو گئے۔ انڈیا کا چاول وہاں جگہ بنا گیا۔ اب گزشتہ تین سال سے پاکستان میں چاول اپنی لاگت سے سستا 
ہو کر اپنے کاشتکار کو تباہ حال کر چکا ہے مگر کرپشن کی گنجائش اس قدر ہے کہ مگرمچھوں کے نام کا مجال ہے کوئی تذکرہ تک کرے؟
انڈیا کے آلو کے لئے ہم گنجائش پیدا کرتے ہیں۔ وہ یہاں 80روپے فی کلو بکتا ہے، جب ہمارا آلو میدان میں آتا ہے تو آٹھ روپے فی کلو بکتا ہے۔ میں ایک کسان کے پاس گیا اس نے پوری اڑھائی من کی بوری میری گاڑی میں رکھوا دی، کہنے لگا جب اس نے سڑنا ہی ہے تو تحفہ کیوں نہ دیا جائے؟ 2005ء میں شوکت عزیز جو پرویز مشرف کا منگوایا ہوا وزیراعظم تھا اس نے اپنی زمین کا تجزیہ کروائے بغیر امریکہ سے بی ٹی کاٹن بیج منگوانے کی گنجائش پیدا کر لی۔ اس کا آج نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کاٹن کی فصل تباہ ہو گئی ہے کپاس چننے والی 5لاکھ غریب عورتیں بے روزگار ہو گئی ہیں۔ کرپشن میں گنجائش اس قدر زیادہ پیدا ہو گئی ہے کہ اس کا تذکرہ کرنے کے لئے کالموں کی نہیں کتابوں کی گنجائش پیدا ہو گئی ہے۔ ہر نظر تک رہی ہے اس سجّن کو کہ جو یہ گنجائش ختم کرے۔ جس دن گنجائش کا کلچر ختم ہو گیا میرا دیس میرے حضورﷺ کے صحابی کے کردار کی طرح صحیح معنوں میں پاکستان بن جائے گا۔ جناب صدر مملکت! میاں صاحب کو کہہ کر کچھ ایسا کروا دیجئے، پورا ملک آپ کا ممنون ہو جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved