تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     04-12-2015

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھُلا!

انگریزی زبان کا مقولہ ہے Appearance is always deceptive ظاہری صورت ہمیشہ دھوکہ دیتی ہے۔ اگر آپ کو لفظ ہمیشہ پر کچھ اعتراض ہے تو چلیے اسے یوں کر دیتے ہیں کہ ظاہری صورت کبھی کبھار دھوکہ بھی دے جاتی ہے۔ چیزیں جس طرح نظر آتی ہیں ویسی نہیں ہوتیں۔ اسی طرح انسانوں کے ظاہری خدوخال اور شخصیت کے پیچھے کئی چہرے، کئی جہتیں چھپی ہوتی ہیں۔ احمد ندیم قاسی نے اس کیفیت کو بڑی خوبی سے شعر میں سمویا کہ ؎
ندیمؔ جو بھی ملاقات تھی، ادھوری تھی
کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے
اگر بات زندگی کے چھوٹے بڑے واقعات سے نکل کر قومی اور بین الاقوامی منظر نامے تک چلی جائے تو یہ بات سو فیصد سچ معلوم ہوتی ہے کہ حالات و واقعات کی ظاہری صورت کچھ اور ہوتی ہے اور اُس کے اندر کی کہانی کچھ اور۔ جارج اورول(George Orwell) نے کچھ غلط نہیں کہا تھا کہ Political language is designed to make lies sound truthful and murder respectable پاکستانی عوام کی کہانی تو ہے ہی سیاستدانوں، بیوروکریٹس، جرنیلوں، ڈپلومیٹس اور بزنس مینوں کے ہاتھوں بیوقوف بننے کی کہانی۔ اور پھر اس میں ایسی حیرت ہی 
کیا کہ سیاست کا جو کاروبار اس دور میں دنیا میں رائج ہے، وہ شاید تقاضا ہی یہی کرتا ہے۔ عالمی طاقتیں ہوں یا پھر ملکوں کے حکمران، وہ عوام کے سامنے وہی راگ الاپتے ہیں جسے عوام میں مقبولیت ہو اور اندر خانے جو مرضی آئے کرتے رہیں۔ ایسے میں جب بھی کسی حوالے سے کوئی نیوز سٹوری ''اندرونی کہانی‘‘ کو لے کر منظر عام پر آئے تو میڈیا میں ایک سنسنی پیدا ہونا قدرتی بات ہے۔ اس وقت انڈین جرنلسٹ برکھادت کی نئی آنے والی کتاب نے ایسی ہی سنسنی پیدا کی ہے۔ کتاب کا نام ہے،This Unquiet Land:Stories from India`s Fault Lines اس کتاب میں برکھادت نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت جب پاکستان انڈیا کے تعلقات میں کافی دبائو تھا اور بظاہر نواز مودی تعلقات کشیدہ تھے، نیپال کے شہر کٹھمنڈومیں ہونے والی سارک کانفرنس میں دونوں لیڈروں نے دنیا کے سامنے تو محض ہاتھ ملانے پر ہی اکتفا کیا مگر دونوں لیڈروں کی دنیا اور میڈیا کی نظروں سے دور ایک خفیہ ملاقات ہوئی جو تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ برکھا دت کے اس انکشاف کی دونوں طرف کی حکومتوں نے فوری تردید کرتے ہوئے کہا کہ برکھا دت کی کتاب میں موجود خفیہ ملاقات کی کہانی بے بنیاد ہے۔
مذکورہ صحافی خاتون انڈیا کے ایک چینل سے وابستہ ہیں اور اپنی صحافتی کارکردگی پر بھارت سرکار سے کئی اہم اعزازات لے چکی ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت کا سب سے معتبر سرکاری ایوارڈ پدم شری بھی انہیں مل چکا ہے۔ ایسے اعزازات رکھنے والی صحافی کس طرح اپنی کتاب میں غلط حقائق لکھ سکتی ہے۔ برکھادت کے اس انکشاف پر ہمارے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ یہ بات جھوٹ ہے کیونکہ کٹھمنڈو میں ہونے والی سارک کانفرنس میں صحافیوں کا جو گروپ نواز شریف کے ہمراہ تھا، وہ اس میں شامل تھے اور وہ وزیر اعظم کو مسلسل فالو کر رہے تھے۔ یہ بھی کہ کسی شیڈول سے ہٹ کر ایسی کوئی میٹنگ نہیں ہوتی۔ برکھادت اپنی کتاب میں یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس ملاقات کو کروانے کا سہرا بھارت کے ایک بڑے بزنس ٹائیکون سجن جندال (Sajjan Jindal) کے سر تھا۔ مسٹر جندال کون ہیں اور اس بیک ڈور ڈپلومیسی میں ان کا کردار کیا ہے، ان کے اپنے کیا مفادات ہیں۔ یہ کہانی بڑی دلچسپ ہے اور ایک بار پھر اس حقیقت کو endorse کرتی ہے کہ حالات و واقعات کے ظاہری خدوخال ان کے اصل رنگ سے کتنے مختلف ہوتے ہیں۔ مسٹر جندال بھارت کی سب سے بڑی سٹیل انڈسٹری کے ارب پتی مالک ہیں۔ ان کا خاندان برسوں سے سٹیل انڈسٹری کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہ بھارت کے ان بزنس ٹائیکونز میں شامل ہیں جنہوں نے مودی کی الیکشن مہم اپنے پیسے سے چلائی۔مودی کے ذاتی دوستوں میں شامل مسٹر جندال بھارت کے ان کاروباری لوگوں میں سے ہیں جو افغانستان میں اربوں روپیہ انویسٹ کر چکے ہیں اور اب خام دھات افغانستان سے لانے کے لیے پاکستان کا روٹ استعمال کرنا چاہتے ہیں، اور پھر پاکستان کے وزیر اعظم کے کاروباری مفادات اور کاروباری دلچسپیاں بھی ان سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ مودی کی حلف برداری تقریب میں شرکت کرنے کے لیے نواز شریف بھارت گئے تو وہ اپنے بیٹے حسین کے ساتھ جس بزنس ٹائیکون سے ان کے گھر پر ملے تھے وہ یہی مسٹر جندال ہیں۔ ابھی حال ہی میں پیرس میں ہونے والی نواز شریف اور مودی کی بے تکلفانہ ملاقات کی وڈیو بھی حیران کن ہے۔ صرف دو اڑھائی ماہ پیشتر یو این کی جنرل اسمبلی کے 70 ویں اجلاس میں شرکت کے لیے دونوں حریف ملکوں کے وزرائے اعظم ایک ہی ہوٹل میں مقیم ہونے کے باوجود میڈیا کی نظروں کے سامنے ایک دوسرے سے کشیدہ خاطر نظر آئے۔ دونوں نے دور سے ہی ایک دوسرے کو ہاتھ ہلایا اور یہ ہاتھ ہلانا ہی خبروں اور ٹاک شوز کا موضوع بنا رہا۔ کس نے پہل کی۔ کس نے جواب دیا۔ سنا ہے کہ اس وقت میڈیا روم میں موجود دونوں طرف کے صحافی ہاتھ ہلانے والی وڈیو کو سلوموشن میں replay کر کے باربار دیکھتے رہے کہ آخر اس کشیدگی کے ماحول میں پہل کس نے کی۔ ہفتوں تک محض ایک لمحے پر مشتمل یہ واقعہ خبروں کا موضوع بنا رہا۔ عوام ٹاک شوز میں، اخبار کی خبروں میں اسی ایک واقعہ کی بازگشت سنتے رہے۔ بال کی کھال اترنے کا منظر دیکھتے رہے۔ اس حقیقت سے بے خبر کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ ہماری بصارتوں اور سماعتوں کے ساتھ کھلا دھوکہ بھی ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے رابطوں کے حوالے سے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کا بیان ایک بار پھر ہمیں یہی احساس دلاتا ہے کہ: دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved