اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہی ہوگا۔ نظر انداز کرنے کے ہم متحمل نہیں کہ اس کا تعلق خطرے میں پڑی ہوئی ہماری آزادی کے ساتھ ہے ۔ تاریخ یہ کہتی ہے کہ جو قوم اپنی آزادی پر حسّاس نہ ہو ، وہ زندہ رہنے کا حق کھو دیتی ہے ۔
سالِ گزشتہ 14نومبر کی سارک کانفرنس میں نواز مودی ملاقات برپا ہوئی یا نہیں ؟دو آدمی شاید اس سوال کا جواب دے سکیں ۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل رضوان اختر ۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ خاموش رہیں گے ۔ باقی قیاس و گمان ہے ۔ درست بھی ہو سکتاہے اور غلط بھی ۔ خبر چھپنے کے فوراً بعد ایک فوجی افسر سے پوچھا: کیا آئی ایس آئی ناکام نہیں ہو گئی ؟ (جو دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں سے ایک ہے )۔ انہوں نے کہا : آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ ان کے علم میں ہو ۔ کیا وہ پریس کانفرنس منعقد کریں ؟ محترمہ مریم نواز اور پرویز رشید کی شہادت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ عمران خان کا بیان مسترد کر دیا جائے گاکہ وہ میاں صاحب کے مخالف ہیں ۔ ہم اس سوا ل کو مگر ادھورا نہیں چھوڑ سکتے ۔ تحقیق جاری رہنی چاہیے۔ آج نہیں تو کل صداقت سامنے آئے گی ۔ استاد سے ایک سوال پوچھا گیا ۔ کچھ دیر وہ سوچتے رہے اور پھر یہ کہا "Keep on asking. Some questions are nobler than answers"۔ پوچھتے رہو کہ کچھ سوال جواب سے زیادہ مقدس ہوتے ہیں ۔
بھارتی وزرائے اعظم سے میاں صاحب کا ذاتی رابطہ ہمیشہ رہا ۔ بل کلنٹن او رسعودی شاہ عبد اللہ کی مدد سے ، جنرل پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے ذریعے خاندان سمیت انہوں نے ایک عشرے کے لیے جدّہ جانے کا فیصلہ کیا تو بھارتی وزیرِ اعظم آئی کے گجرال کو صدمہ پہنچا۔ ایک مضمون میں انہوں
نے بتایا کہ کس طرح کشمیری مجاہدین کے خلاف ایک فیصلے پر انہوں نے وزیرِ اعظم نواز شریف کو آمادہ کیا تھا۔ٹوئٹر ہوتا تو محترمہ مریم نواز شریف شاید یہ پیغام جاری کرتیں : بھارت پاکستان کی تاریخ کے سب سے محب وطن وزیرِ اعظم کی پوزیشن خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
وزیرِ اعظم نواز شریف بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ مان لیجیے کہ ان کا شعار نیک نیتی کے ساتھ ہے مگر یہ تو ظاہر ہے کہ بعض اوقات احتیاط کی آخری حد توڑ کر وہ آگے نکل جاتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے اگر ''را‘‘ کے خلاف واویلا نہ کیا ہوتا تو وہ بھی نہ کرتے ۔ 2012ء میں مظفر آباد میں کھڑے ہو کر انہوں نے کہا تھا : پاکستانی فوج نے کشمیریوں پر جتنا ظلم کیا ہے ، اتنا بھارتی فوج نے بھی نہ کیا۔ بھارتی ہائی کمشنر سے سید مشاہد حسین کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا"Pleasently, we are surprised that Mian sahib did not mention India or Indian army in his election campaign"۔
اگرچہ پاک فوج اور خفیہ ایجنسیوں ہی نے ان کی سیاست پروان چڑھائی ۔ جنرل محمد ضیاء الحق، جنرل جیلانی ، جنرل اختر عبد الرحمٰن ، جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل نے۔ آخر کار مگر پاکستانی فوج ہی نے انہیں چلتا کیا۔ معاف کرنے کے میاں صاحب قائل نہیں ۔ اسی لیے محترمہ مریم نواز نے جنرل پرویز مشرف کی مبینہ غداری کا حوالہ دیا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے بارے میں ان کا طرزِ فکر البتہ مختلف ہے ۔ 12اکتوبر 1999ء کے فوجی انقلاب سے قبل ہر سال 17اگست کو وہ ان کی قبر پر جاتے اور اعلان کیا کرتے کہ وہ ان کے مشن کو مکمل کریں گے۔
بعض چیزوں کو دہرانا پڑتا ہے ۔پاکستان واپسی سے قبل لندن میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ دہشت گردی کے اصل مخالف تو وہ ہیں ، پرویز مشرف تو دکھاوے کے لیے طالبان کی مذمت کیا کرتے ہیں ۔ یہ بیان میثاقِ جمہوریت پردستخط کرنے کے فوری بعد جاری ہوا۔ اسی روز مشہور بھارتی اخبارنویس کلدیپ نائر کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے ارشاد کیا تھا کہ بھارت سے وہ (او رمحترمہ بے نظیر بھٹو) خوشگوار مراسم کے آرزومند ہیں مگر پاک فوج رکاوٹ ہے ۔
کہا جاتاہے کہ کٹھمنڈو کی ملاقات میں بھارتی مسلمانوں کے قاتل اور پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے آرزومند نریندر مودی سے انہوں نے پاک فوج کی شکایت کی ۔ اگر یہ درست ہے تو پہلی بار نہیں ہوا۔ برطانیہ اور امریکہ کے ایما پر انجام پانے والے میثاقِ جمہوریت کی شق 17کے الفاظ یہ ہیں : کسی تعصب کے بغیر افغانستان اور بھارت سے اچھے تعلقات قائم کیے جائیں گے ۔ ناچیز نے سوال اٹھایا تھا کہ ''تعصب‘‘ سے مراد کیا ہے ؟ مجید نظامی مرحوم نے اس سوال کی تائید کی۔ پھرفکرِ اقبال اور فکرِ جناح کے عظیم شارح پروفیسر فتح محمدملک اور راست گو اخبار نویس رفیق ڈوگر نے بلند آواز سے اسے دہرایا۔ تین دن کے بعد نواز شریف تردید پر مجبور ہو گئے ۔ تب نوائے وقت سے وابستہ سلمان غنی سے میاں صاحب نے کہا تھا کہ تردیدی بیان کی عبارت لکھتے ہوئے ہارون الرشید کے کالموں کو ملحوظ رکھا جائے ۔
ملاقات کی تردید اسی انداز کی ہے اور اسی طرح تاخیر سے ۔ بھارتی اخبار میں چھپنے والی خبر صبح تین بجے ویب سائٹ اور زیادہ سے زیادہ صبح چھ بجے نیوز سٹال پردستیاب تھی ۔ تردید کس وقت آئی اور کس نے کی؟ شام آٹھ بجے کامران شاہد نے جب اس موضوع پر پہلا پروگرام کیا تو پاکستان کی وزارتِ خارجہ خاموش کیوں تھی اور بھارت کی بھی ۔ میں نے عرض کیا: پرویز رشید کی تردید کیا معنی رکھتی ہے ؟ وزارتِ خارجہ نے منہ میں گھنگھنیاں کیوں ڈال رکھی ہیں ؟ بھارتیوں نے کیوں چپ سادھ رکھی ہے ؟
جس آدمی کے کمرے میں مبینہ ملاقات ہوئی ۔ اب تک اس نے کیوں تردید نہیں کی؟ سجن جندال نے ؟ جو بھارت میں صنعتِ فولاد سازی کے بڑے اداروں میں سے ایک کا سربراہ ہے ۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ ایک بھارتی صنعت کار سے پاکستانی وزیرِ اعظم کے گہرے ذاتی مراسم کیوں ہیں ؟ کنفیوشس اور افلاطون سے لے کر اب تک ،اڑھائی ہزار برس سے دنیا بھر کے مفکرین چیخ رہے ہیں کہ تاجروں کو اقتدار سونپنا خطرناک ہوتاہے ۔ قوم اور ملک نہیں، ان کی ترجیح دولت ہوا کرتی ہے ۔ ہوسِ زر کے غلبے میں گاہے ملک و ملت کا مفاد وہ اپنے قدموں تلے روند سکتے ہیں ۔ پھر ایک سوال اور بھی ہے کہ برکھادت ایسی معتبر اخبار نویس کو کیا سوجھی تھی کہ وہ ایک جھوٹ تراشے ؟ سب جانتے ہیں کہ خارجہ تعلقات کے باب میں بھارتی اخبار نویسوں کا رویّہ کیا ہے ۔ پاکستانی اخبار نویس تحقیق فرمائیں : کیا وہ ایسی ہی غیر ذمہ دار اور احمق ہے کہ بیک وقت دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کو پریشانی میں مبتلا کرے ؟
وزیرِ اعظم نواز شریف من موہن سنگھ کو اپنی تقریبِ حلف وفاداری میں مدعو کرنے کے لیے اس قدرمضطرب کیوں رہے ؟ اور پاکستان سے نفرت کرنے والے حامد کرزئی کو؟ وہ نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شمولیت کے لیے اس قدر بے چین کیوں تھے ؟فوراً لوٹ آنے کی بجائے انہوں نے نسبتاً طویل قیام کیوں کیا؟ مقدس روایات نظر انداز کر کے نصف درجن کاروباری شخصیات اور میڈیا کے ا یسے لوگوں سے انہوں نے کیوں ملاقاتیں کیں ، جو پاکستان دشمنی کی شہرت رکھتے ہیں ۔
میں دعویٰ نہیں کر رہا کہ ملاقات لازماً ہوئی مگر امکان زیادہ ہے ۔ یہ بھی عرض نہیں کر رہا کہ انہوں نے ملک سے بے وفائی کی۔ ممکن ہے کہ دونوں وزرائے اعظم نے میڈیا کے خوف ہی سے احتیاط برتی ہو؛ حالانکہ یہ ایک کمزور دلیل ہے ۔ اخبار نویسوں کو وہ تفصیل نہ بتاتے ۔ صرف ملاقات کی خبر دیتے تو شکوک و شبہات جنم نہ لیتے ۔
اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔ صرف میڈیا کی نہیں ،یہ عسکری اور سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے ۔ نظر انداز کرنے کے ہم متحمل نہیں کہ اس کا تعلق آزادی کے ساتھ ہے ۔تاریخ یہ کہتی ہے کہ جو قوم اپنی آزادی پر حسّاس نہ ہو ، وہ زندہ رہنے کا حق کھو دیتی ہے ۔