تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     05-12-2015

کرہ ارض کو لاحق خطرہ

وزیر اعظم نواز شریف‘ ایک دن پیرس کی سیر اور نریندر مودی سے سرگوشیوں کے بعد لندن روانہ ہو گئے‘ جہاں ان کے بھائی اور بیٹے‘ بین الاقوامی کاروبار میں ان کی رہنمائی کے منتظر تھے۔ اس سے آب و ہوا میں تبدیلی کے موضوع سے ان کی دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ اندازہ بہت کم لوگوں کو ہے۔ اس دن وزیر اعظم اور لاکھوں پاکستانی بلدیاتی انتخابات کے بارے میں سوچ رہے تھے‘ اور کسی کو یہ فکر نہیں تھی کہ اگر کرہ ارض دو اعشاریہ سات سیلسیئس سالانہ کی شرح سے گرم ہوتا رہا‘ تو اس صدی کے آخر تک گلیشئر پگھل جائیں گے‘ سمندروں کی سطح بلند ہو جائے گی تو کراچی اور گوادر ڈوب جائیں گے‘ اور ممبئی‘ مدراس‘ نیو یارک‘ لاس اینجلس اور دنیا کے دوسرے ساحلی شہر بھی غرق آب ہو جائیں گے۔ کاش لیڈروں کا متکلم ویڈیو اخبار نویسوں کے پاس ہوتا اور وہ اس پر تبصرہ کرتے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے تو صرف اتنا بتایا کہ مودی نے رابطوں کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ دونوں لیڈروں کو غالباً ''فوٹو اوپ‘‘ کی ضرورت تھی‘ جو اقوام متحدہ کی اس کانفرنس کی بدولت انہیں مل گئی۔ اگر اس رابطے کے نتیجے میں اگلے ہفتے پاکستان میں افغانستان پر ایک کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی شرکت کا امکان پیدا ہوا ہے‘ تو اسے خوش آئند سمجھنا چاہیے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے نزدیک تو جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کا دو منٹ کا ملاپ ہی غنیمت ہے۔ صدر اوباما‘ جو سانحہ پیرس سے دو ہفتے بعد روشنیوں کے شہر پہنچے تھے اور اسے مغربی تہذیب کا مرکز خیال کرنے والوں میں شمار ہو تے ہیں‘ موضوع کی متانت سے واقف تھے۔ اسی لیے انہوں نے ترقی کے ''غلیظ چہرے‘‘ کا ذکر کیا‘ اور تیسرے دن ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک پرانا محاورہ دہرایا: ''ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘۔ ان کا اشارہ ایک سو پچاس ملکوں کے وزرائے اعظم اور صدور کے اس اجتماع کی طرف تھا‘ جسے انہوں نے ''تاریخ انسانی‘‘ کا سب سے بڑا اکٹھ کہا‘ اور جس میں ساری دنیا کے لیڈر اس سوال پر غور کر رہے تھے کہ اس کرّے کی آلودگی کیونکر کم کی جائے؟
باور کیا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت‘ خواہ کرکٹ کے محلِ وقوع پر متفق نہ ہوں‘ مگر ترقی (وکاس) کو آلودگی پر وہ دونوں فوقیت دیتے ہیں‘ جیسا کہ اوباما نے کہا۔ بیشتر دنیا پر رائے دہندگان کا دباؤ نہیں ہے۔ اتوار کو آب و ہوا کی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی یہ کانفرنس منعقد ہوئی‘ اسی دن ملبورن سے میکسیکو سٹی اور واشنگٹن سے کٹھمنڈو تک شہر شہر جلوس نکلے۔ یہ احتجاجی مظاہرے پیرس میں ایک سو تیس افراد کے بہیمانہ قتل پر نہیں تھے بلکہ دنیا کے اُن رہنماؤں کے خلاف تھے‘ جو خاطر خواہ ''امشن کنٹرول‘‘ نہیں کرتے اور انسانیت کو زہریلے دھوئیں سے پُر ایسی آلودگی کے سپرد کر رہے ہیں‘ جو موٹر گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلتا ہے۔ نیپال میں لوگ کٹھمنڈو کی سڑکوں پر نکلے اور ایسے کتبے اٹھائے ٹریفک کے ساتھ ساتھ چلتے رہے‘ جن پر درج تھا: ''آب و ہوا کی دہشت یہاں ختم ہوتی ہے‘‘ اور ''ہمارے ہمالیاؤں کو بچاؤ‘‘ دنیا کی دوسری پہاڑی چوٹی گو پاکستان میں واقع ہے‘ مگر یہاں اس کے بچاؤ کے لئے ریلی نکالنے یا دھرنا دینے کا کسی نے نہیں سوچا۔ پاکستان میں سہ پہر تک دھند کا دبیز سایہ‘ سڑکوں کی بندش اور پروازوں کی منسوخی اسی مظہر کا شاخسانہ ہے۔
یہاں پہنچنے والی اطلاعا ت کے مطابق صدر اوباما نے وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کی‘ جو مزید امریکی ٹیکنالوجی اور ڈالر کی منتقلی پر زور دیتے رہے ہیں۔ امریکی حکام نے اس بات پر مایوسی اور پریشانی کا اظہار کیا کہ مودی نے کوئلہ جلانے سے پیدا ہونے والی بجلی کی مانگ میں اضافہ روکنے کے لیے زیادہ کچھ کرنے کا وعدہ نہیں کیا۔ پاکستانیوں کو بھی اس مسئلے کا سامنا ہے۔ وہ تھر کے کوئلے سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں‘ جو ہوا اور دھوپ سے سستا ہے اور ہندوستان کی طرح پاکستان کو بھی سستی بجلی درکار ہے۔ اس سال موسم گرما تاریخ کا گرم ترین تھا‘ اور سرما پہلے سے زیادہ سرد ہو گا‘ جس کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ مسٹر اوباما کو امید ہے کہ دو ہفتے طویل کانفرنس کے آخر تک ایک عالمگیر عہدنامہ بن جائے گا‘ جو شریک ملکوں میں گرین ہاؤس ایفیکٹ کے انسداد کا معاہدہ ہو گا۔ وہ بل گیٹس اور ستائیس دوسرے سرمایہ داروں کا ایک گروپ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں‘ جو توانائی کی تحقیق میں روپیہ لگائے گا اور بیس ملکوں کا ایک اتحاد اس کی نگرانی کرے گا۔ امریکی صدر نے روس کے صدر ولادیمیر پوٹن‘ چین کے وزیر اعظم ژی چن پنگ اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سے بھی الگ الگ ملاقاتیں کیں اور امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔
امریکہ کو توقع ہے کہ قابلِ تجدید ذرائع (پانی‘ ہوا اور دھوپ) پر جو لاگت پانچ سال پہلے تھی‘ آج نہیں اور اب سے پانچ سال بعد وہ فاسل ذرائع (بالعموم کوئلہ) کا کاروباری مقابلہ کرنے لگیں گے اور توانا ئی (بجلی وغیرہ) کی پیداوار سستی ہو جائے گی۔ صدر اوباما نے اخبار نویسوں کو ایک پرانی کہاوت یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ہمارا کرّہ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے، بجلی پیدا کرنے کے نئے وسائل کی تلاش بھی ایک ''ضرورت‘‘ ہے جو کسی نہ کسی طور پوری ہو گی۔ کاربن کی ایک قیمت ہونی چاہیے جو ہر خود مختار قوم ادا کرے۔ جوں جوں وہ زہریلے دھوئیں کا اخراج کم کرے اسے جرمانہ بھی کم ہونا چاہیے۔ یہ گرین ہاؤس گیسز کی آلودگی کے سدباب میں ان کا حصہ ہو گا۔ کچھ ترقی پذیر ملک معاوضہ پانے پر مصر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی صنعتی طاقتیں سالہا سال تک ان کی اقتصادیات اور ماحول کا گلا گھونٹنے کی تلافی کریں۔ امریکی حکام اس مطالبے کے خلاف ہیں۔ وہ زیر نظر عہدنامے کی اس شق کی بھی مخالفت کر رہے کہ زہریلے دھوئیں (کار بن) کے قابل مواخذہ اخراج کی حد‘ دو کی بجائے ڈیڑھ رکھی جائے۔ بھارت، جو صنعتی آلودگی پھیلانے میں امریکہ اور چین کے پیچھے ہے‘ ان ایک سو بائیس ملکوں میں شامل ہے جو شمسی توانائی کی ترقی پر سرمایہ کاری کریں گے، بالخصوص ایسے ملکوں میں جہاں دن بھر سورج چمکتا ہے۔ پاکستان نے کانفرنس میں اب تک کوئی تقریر نہیں کی مگر ایک پرچہ تقسیم کیا‘ جس میں ملک کا موقف بیان کیا گیا ہے اور جو بین الاقوامی مبصروں کی مسکراہٹ کا باعث بنا۔
امریکہ میں بھی‘ تیسری دنیا کی طرح‘ ایسے لوگ کم نہیں جو آئے دن کے زلزلوں‘ بارشوں اور سیلابوں کو قدرت کی ستم ظریفی قرار دیتے ہیں۔ ایک بار نیل آرمسٹرانگ کے ایک بوڑھے ہمسائے سے کسی نے پوچھا کہ آرمسٹرانگ‘ چاند پر اترا ہے‘ تو بڈھا بیزاری سے بولا: میں نیل کو بچپن سے جانتا ہوں۔ پرلے درجے کا جھوٹا۔ وہ شاید ان افراد میں شامل ہو جو قدرتی ماحول کو خراب کرنے میں انسان کے حصے کو نہیں مانتے،جو کہتے ہیں کہ طوفان نوح کے وقت تو سائنس کا راج نہیں تھا۔ ڈائنوسار کہاں گئے؟ پھر انگلستان کے سٹون ہنج اور باہاما کے گرانڈیل پتھر کہاں سے آئے ہیں؟ ایک بار دنیا کے دورے پر نکلا تو قاہرہ‘ استنبول‘ سراجیوو‘ جکارتہ‘ کوالالمپور‘ ٹوکیو اور کراچی میں مجھ سے یہ سوال کثرت سے کیا گیا۔ نائن الیون کیا امریکہ کی اپنی کار ستانی نہیں تھی؟ 2001ء میں اس روز تین ہزار امریکی دہشت کاری کی بھینٹ چڑھ گئے تھے اور مرنے والوں میں کئی پاکستانی اور دوسرے مسلمان بھی شامل تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved