تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     05-12-2015

اخلاقی الجھن

مجھے امید ہے کہ زرداری صاحب کو ایس جی ایس کوٹیکنا کیس میں بدعنوانی کے الزامات سے بری کرنے پر اگر ہم کھل کھلا کر ہنس پڑیں تو اسلام آباد کی احتساب عدالت برا نہیں منائے گی۔ اگرچہ نیب نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کا منصوبہ بنایا ہے لیکن میں اس کی قانونی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کیس میں دستیاب مواد کی فوٹو کاپیاںپیش کی جائیں گی۔ اس مقدمے کا اصل مواد پاکستان کی دیگر عدالتوں میں موجود ہے۔ 
نوّے کی دہائی کے وسط میں یہ متنازع ڈیل بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور ِحکومت میں طے پائی۔ دو سوئس کمپنیوں نے جن کے پری شپمنٹ انسپکشن کے آپریشن دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تھے، کراچی میں اپنے دفاتر قائم کرنا شروع کردیے۔ میری ملاقات کوٹیکنا کے ایک انگریز ایگزیکٹو سے ہوئی، جو اُس وقت پاکستان آئے ہی تھے۔ ایک ڈنر کے موقع پر اُنہوں نے مجھے تفصیل سے بتایا کہ اس معاہدے میں کچھ کک بیکس یقینی طور پر وصول کی گئی ہیں۔ جو بھی صورت ِحال ہو، اسلام آباد کی احتساب عدالت کی دانائی کو چیلنج کرنے والا میں کون ہوتا ہوں؟ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُس ایگزیکٹو نے اُس وقت کی حکومت ِ پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ایک صحافی کے سامنے جھوٹا الزام لگا دیا ہو، لیکن ہم یہ بھی سن چکے ہیں کہ ہمارے سابق صدر کے سوئس اکائونٹس میں کئی ملین ڈالر دیکھے گئے ہیں۔ ایسے معاملات ہمارے ہاں غیر معمولی نہیں سمجھے جاتے ۔ کسی نے بھی لندن کے نائٹس برج ، جس کی مالیت کئی ملین پائونڈ ہے اور شریف خاندن کی ملکیت بتایا جاتا ہے، سے انکار نہیںکیا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ دیگر مہنگے فیلٹس بھی اس خاندان کے ملکیت بتائے جاتے ہیں، لیکن کسی نے بھی یہ سوال نہیںاٹھایا کہ انہیں خریدنے کے لیے رقم کہاں سے ادا کی گئی؟ اسی طرح کی بہت سے افواہیں دیگر سیاست دانوں، سرکاری افسروں، ججوں اور جنرلوں کے بارے میں گردش میں رہتی ہیں۔ عوام کو حقائق کا کبھی پتا نہیں چلتا ؛ چنانچہ سچائی سے اعتماد اٹھتا جاتا ہے۔ 
کراچی میںکچھ عرصہ قیام کرنے میں یہی ''نقصان‘‘ ہے کہ زیادہ تر سماجی تقریبات میں گفتگو کا رخ کسی نہ کسی سکینڈل کی طرف مڑ ہی جاتا ہے۔ اب ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین بھی، جو طویل عرصہ آصف زرداری کے دست ِراست رہے، کک بیکس کی بہت سی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ میڈیا کے مطابق پی ایس او سے ماہانہ رقم وصول کی جاتی تھی ۔ جب اُس کے ایک ڈائریکٹر سے بات کی تو اُس نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ایک پبلک فرم ہونے کی وجہ سے پی ایس او کے اکائونٹس سے غیر قانونی ادائیگی کی ہی نہیں جا سکتی۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں میڈیا میں اچھالے جانے والے بدعنوانی کے ہر کیس پر یقین نہیں کرلینا چاہیے۔ خیر میری عمر اتنی زیادہ ہے کہ اب تو 'ان باکس‘ میں آنے والی خبروں پر بمشکل ہی یقین آتا ہے۔ بدعنوانی کے سکینڈلوں سے بالکل ہی 'اعتماد ‘ اٹھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ ترین افراد کے منہ سے الزامات کا تسلسل سن کر حقیقت کو افسانے سے الگ کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ 
کیچڑ اچھالے جانے کے اس پس ِمنظر میں، مَیں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ بچے یہ سب کچھ سن کر کیا نتیجہ نکالتے ہوںگے؟ اُنہیں سکولوں، گھروں اور مسجدوں میں سچ بولنے اور ایمانداری سے کام کرنے کی تلقین کی جاتی ہے لیکن وہ ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں اہم افراد کی زندگی بھی شک و شبہ سے بالا ترنہیں ہے۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ یا تو ہمارے اہم افراد دھوکے باز اور فریبی ہیں یا ان پر الزام لگانے والے مشہور و معروف اینکرز اور صحافی۔ یہ دونوں طبقے بیک وقت درست نہیں ہوسکتے۔ اس صورت حال نے نئی نسل کو الزامات کی سیاست کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرنا سکھا دیا ہے۔ اس سے ہمارا سیاسی دھارا مکدر ہوا ہے، لیکن کچھ معاملات اس سے کہیں بڑھ کر سنگین ہیں۔ نئی نسل کے بچے اور نوجوان اس بات کو کیسے یکجا کرکے دیکھتے ہوں گے کہ ان کا مذہب ، ان کے والدین اور ان کے اساتذہ جو کچھ اُنہیں سکھاتے ہیں، وہ اس کا عوامی سطح پر مظاہرہ ہر گز نہیں دیکھتے۔ مجھے خدشہ ہے کہ وہ چھوٹی عمر میں مایوس اور قنوطی بن رہے ہیں۔ 
جب اسّی کی دہائی میں میرا بیٹا شاکر بڑا ہو رہا تھا اور میں سول سروس میں تھا تو اُس وقت بدعنوان افسران اپنی بدعنوانی چھپانے کی کوشش کرتے تھے، لیکن آج کل بدعنوانی پر کسی کو بھی شرمندگی محسوس نہیںہوتی، بلکہ اسے زندگی کا ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں۔ اگر آج کوئی اپنا دامن بچانے کی کوشش کرے تو اس کے کولیگ اور جونیئر اُسے اپنے راستے کی ایک رکاوٹ سمجھیں گے جو نہ تو خود بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا ہے اور نہ اُنہیں دھونے دیتا ہے۔ حالیہ دنوں مجھے ایک حیرت سے دوچار ہونا پڑا حالانکہ میرا خیال تھا کہ ایسے معاملات میں میرے لیے نئی بات کوئی نہیں۔ میرے ایک کزن نے بتایا کہ اُس کی آئی ٹی کی کمپنی سندھ کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ وہاں مفت لیپ ٹاپ حاصل کرنے کے علاوہ دفاتر کا تمام عملہ دن بھر حاصل ہونے والی رشوت کا حساب کتاب بھی لیپ ٹاپ پر کرکے مل بانٹ لیتا ہے، افسران تک حصہ بھی پہنچایا جاتا ہے۔ اس دفتری کارروائی کو معمول کی بات سمجھ کر روکنے کی مطلق کوشش نہیں کی جاتی۔ 
ہمارے نیک دل افراد بدعنوانی کے خلاف غصے میں آ جاتے ہیں اور وہ بھول جاتے ہیں کہ اس کام کی تاریخ دنیا کے ہمارے حصے میں بہت پرانی ہے۔ مغل بادشاہ بھی اُن افراد سے نذرانے کے طور پر خاطر خواہ رقم رصول کیا کرتے تھے جنہیں منفعت بخش عہدہ عطاکرتے۔ تحفے کی مقدار کا تعین بادشاہ کی حمایت سے ہوتا تھا۔ پوری سرکار ی انتظامیہ اس لین دین سے آگاہ تھی اور اس پر کسی کو بھی اعتراض نہ تھا۔ اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا۔ اس کے افسران انگلینڈ واپس جاکر بھاری جائیدادیں خریدتے دکھائی دیتے۔ آج کی بہت سے انگلش اشرافیہ کا تعلق اُس زمانے میں حاصل کی گئی دولت سے ہے۔ دراصل وقت بہت سے دھبے دھو ڈالتا ہے۔ پاکستان میں بہت سے اشراف گھرانے کبھی منشیات فروشی کرتے تھے۔ لہٰذا اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، اگر ہمارے بچے قنوطی بنتے جا رہے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved