تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     05-12-2015

زخموں پہ نمک

بحث میں ہم کبھی نہ پڑے تھے۔ ہماری دوستی انسانی بنیادوں پر استوار تھی ۔ ہم دونوں کو یہ رشتہ عزیز تھا۔ پھر اس دن اس نے یہ کیسی بات کی؟ یہ زخموں پہ نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ یہ بچپن ، جوانی اور ادھیڑ عمری کی چالیس سالہ رفاقت کا اختتام تھا اور وہی اس کا ذمّے دار تھا۔ 
میں نے اس سے یہ کہا ''پریشان نہیں ، میں آخری حد تک دل گرفتہ ہوں ۔شادی کے بعد جب یکے بعد دیگرے خدا نے مجھے دو بچّوں سے نوازا تو مجھے ان کے مستقبل کی فکر کھانے لگی۔ میں یہ سوچنے لگا کہ میری طرح کہیں وہ بھی اپنی آدھی زندگی غربت کی ٹھوکریں کھاتے نہ گزار دیں ۔ کہیں وہ بنیادی ضروریاتِ زندگی کو بھی ترستے نہ رہ جائیں ۔ تم جانتے ہو، زندگی کے ابتدائی دو عشرے میں نے انتہائی کسمپرسی میں گزارے تھے۔سبھی نے مجھ سے منہ موڑ لیا تھا ۔ لاشعوری طور پر میں یہ سوچنے لگا تھا کہ ہر رشتہ دولت کا محتاج ہے ۔ اولاد کی محبت غالب آئی اور میں غریب الوطن ہو گیا۔ میں نے پرائی سرز مینوں کا رخ کیا۔ اولاد کی آسائش کے لیے میں ٹھوکریں کھانے لگا۔ میں معمولی کھاتا، معمولی اوڑھتا۔ جو مال اسباب اکھٹا ہوتا، وہ انہیں بھجوا دیتا۔ جب میں بیرونِ ملک گیا تو بڑا بیٹا ڈیڑھ برس کا، چھوٹا صرف چھ ماہ کا تھا۔ ابھی پوری طرح وہ مجھے پہچانتے بھی نہ تھے ۔پہلی تاریخ کو ، میں اپنی جیب سے آخری روپیہ بھی نکال کر انہیں بھجوا دیا کرتا۔ ان تیس برسوں میں مجھے یہ 
اطلاع ملتی رہی کہ میری اولاد آسائشوں سے بھرپور زندگی گزار رہی ہے۔ انہوںنے بہترین تعلیمی اداروں کا رخ کیا؛حتیٰ کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے۔اس اثنا میں ، میں تھکنے لگا تھا۔ میرے بال سفید، اعصاب سست ہونے لگے تھے ۔ میں وطن واپس آیا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ میرے قدموں میں گر جاتے ، مجھے تخت پہ بٹھاتے ۔آخراپنی زندگی میں نے ان کی نذرکی تھی۔ ہوا یہ کہ انہوںنے اجنبیوں کی نگاہ سے میری طرف دیکھا۔میرے صدمے کی شدّت کا تم اندازہ ہی کر سکتے ہو ۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ آج وہ جو کچھ ہیں ، میری وجہ سے ہیں ۔ وہ میرا خون پی کر جوان ہوئے ہیں ۔ بظاہر تو انہوں نے یہ کہا کہ وہ میری قربانیوں کی قدر کرتے ہیں لیکن یہ بات صاف عیاں تھی کہ دونوں اپنے اپنے بیوی بچّوں میں مگن تھے ۔ ان کی زندگی میں ، میری کوئی اہمیت نہ تھی ۔کبھی تو ایسا لگتا کہ میرا وجود انہیں کھل رہا ہے ۔‘‘
ہمدردی کی بجائے، قربان علی نے مجھ سے یہ کہا''اس میں حیرانی کی کیا بات ہے ۔ ابھی وہ تمہیں پوری طرح پہچانتے بھی نہ تھے کہ تم بیرونِ ملک چلے گئے ۔وہ کیونکر تم سے محبت کریں ۔ تم شکر ادا کرو کہ کہیں انہوں نے تمہارے وجود سے انکار نہ کر ڈالا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ تمہیں ایک جعل ساز قرار دیتے ، جوانہیں لوٹنے آیا ہے ۔ ‘‘ 
میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔ تڑپ کر میں نے یہ کہا''کیا کہہ رہے ہو قربان علی، میں نے ہی تو ہر آسائش انہیں مہیا کی۔ وہ میرے وجو دسے انکار کیسے کر سکتے ہیں ۔ اگر پہلی تاریخ کو میں اکائونٹ میں پیسے جمع نہ کراتا تو کہاں سے وہ اپنی ضروریات پوری کرتے ؟ ‘‘
قربان علی نے اس پر یہ کہا''صرف ایک بینک اکائونٹ تمہارے وجود کا گواہ ہے ۔ سچ پوچھو تو تمہاری اولاد بھی وہی کر رہی ہے ، جو تم نے کیا بلکہ وہ تم سے بہتر ہے ۔ تم اس بات پہ روتے ہو کہ مال اسباب مہیا کرنے کے باوجود اولاد نے تمہاری قدر نہیں کی۔ یہ بھی تو سوچو کہ خود تم نے کیا کیا۔ تم ایک ایسی زمین پر بستے ہو، جس پہ ہر لمحہ تمہاری ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کا تمام تر بندوبست کیا گیا ۔ خوردبینی جاندار ہر لمحہ زمین کو زرخیز بنانے میں جتے ہیں ۔ پودے اگتے ہیں ۔ سورج سے روشنی آتی، پودوں میں جذب ہوتی اور آکسیجن میں ڈھلتی ہے ۔ یہ گیس تم روزانہ اپنے پھیپھڑوںسے خون میں لے جاتے اور توانائی حاصل کرتے ہو۔ تم پودے اگاتے،انہیں کھاتے ہو۔ زمین کے نیچے پگھلا ہوا لوہا ایک مقناطیسی میدان پیدا کرتا اور یوں سورج سے آنے والے تابکار ذرّات کو خلا میں واپس لوٹا دیتا ہے ، مبادا تمہیں کینسر نہ ہو جائے ۔ ایک حفاظتی حصار زمین کی بلندی پر اوزون کی شکل میں قائم ہے ۔ یہ بھی تمہاری حفاظت کرتا ہے ۔ تمہاری ضروریات پوری کرنے کے لیے پانی کا ایک چکّر(water cycle)اربوں برس سے قائم ہے ۔ تمہارے جسم پر کرئہ ہوائی کا دبائونہایت مناسب ہے۔ کرئہ ارض کی کششِ ثقل اتنی موزوں ہے کہ تم آسانی سے چلتے پھرتے، اپنے روزمرّہ کے تمام افعال سر انجام دیتے ہو۔ تمہارے جسم کو جن جن عناصر کی ضرورت ہے ، وہ اس زمین میں پہلے سے موجود ہیں ۔ لوہا، تیل، کوئلہ، غرض یہ کہ ہر وہ شے ،زندگی گزارنے کے دوران جس کی تمہیں ضرورت تھی، وہ زمین کے نیچے پہلے سے رکھ دی گئی تھی ۔ تم نے زمین کھود کر انہیں نکالا اور اپنی ضرورت پوری کی۔ تم کامل خوبصورتی کے ساتھ پیدا کیے گئے ہو ۔ نہ تو تمہاری تین ٹانگیں ہیں اور نہ دل، گردے، جگر ، پھیپھڑوں سمیت کوئی چیز تمہارے جسم میں کم ہے ۔ تمہارے علم کے بغیر ہی دماغ مسلسل ان اعضا کو کام کرنے کا حکم جاری کرتا رہتا ہے ۔ ان سب بیرونی اور اندرونی عوامل میں سے کسی ایک میں بھی کمی ہوتی تو تم زندہ نہ رہ پاتے۔ مزید یہ کہ سارے جانوروں کے برعکس، جو بنیادی ضروریاتِ زندگی سے ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے، تمہیں آسمانی عقل سے نوازا گیا۔ وہ نہ تو مضبوط ٹھکانے بنا سکے اور نہ اپنی خوراک ذخیرہ کر سکے۔ تم نے عالیشان عمارتیں بنائیں ، خلا تک بلند ہوئے اور کائنات میں جھانکنے لگے ۔تم نے دیکھا کہ عطارد، زہرہ ، مریخ، غرض یہ کہ آس پاس کی کسی ایک بھی زمین میں یہ سب نہیں ہو رہا ، جو یہاں اس کرّ ہ ٔ خاک پہ ایک معمول ہے۔ کہیں عناصر کا ایسا توازن دیکھنے میں نہیں آیا، جو زندگی کو درکار تھا۔کہیں ایک زندہ خلیہ بھی تمہیں نظر نہیں آیا ، کجا یہ کہ ذہین زندگی (Intelligent Life)۔ ان سب چیزوں سے لطف اندوز ہونے کے باوجود، تم خدا کی نافرما نی پر اتر آئے ہو۔ تم ایک اکائونٹ کی بنا پر اولاد کی شکر گزاری چاہتے ہو ۔ ذرا غور کرو،ایسے ہزار ہا اکائونٹ خدا نے تمہارے لیے کھول رکھے ہیں ۔ اس کے باوجود تم خدا کے منکر ہو۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ تمہاری اولاد تم سے بہتر ہے ۔ کم از کم وہ تمہارا انکار تو نہیں کرتی۔‘‘
اس کے بعدکہنے کو کچھ نہ بچا تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved