تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     06-12-2015

کیا کہانی شروع ہو گئی؟

مجھے پاکستان میں طرزِ حکمرانی دیکھ کر خوف آنے لگا ہے۔ جب بھی امور مملکت ‘غیر نمائندہ ہاتھوں میں جاتے ہیں‘ معاشرے کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ اس بات کا خیال مجھے شرق اوسط میں گرتی بکھرتی اور معزول ہوتی حکومتوں کو دیکھ کرہو رہا ہے۔ چند سال پہلے ہمیں تیل کی دولت سے مالا مال حکومتیں ‘کتنی مستحکم اور طاقتور دکھائی دے رہی تھیں۔ عراق میں صدام حسین کا کنٹرول تھا۔ وہ جو چاہتا کرتا‘ سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا تھا اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ حکومت کے آگے کوئی طاقت سر اٹھا سکے۔ صرف دکھائی ہی نہیں دیتا تھا بلکہ عملاً پورے عراق پر صدام حسین کا دبدبہ تھا اور جو مخالف سر اٹھاتا‘ موت اس کا مقدر ٹھہرتی۔ یہی صورت حال شام میں تھی۔حافظ الاسد نے وہاں علوی خاندان کی مضبوط حکومت قائم کر رکھی تھی۔اس نے کئی بحرانوں اور جنگوں کا سامنا کیا لیکن اپنی حکمرانی میں فرق نہ پڑنے دیا۔ آخر کار وہ فطری موت کے ہاتھوں دنیا سے رخصت ہو گیا اور اپنے نوجوان بیٹے کوایک ایسی مضبوط حکومت دے کر گیا کہ اس کے آگے کوئی پر نہیں پھٹک سکتا تھا۔اس نے بھی اپنے باپ کی طرح پارلیمنٹ بنا رکھی تھی لیکن کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس کے سامنے آواز اٹھا سکتا۔ ایک پاکستانی وفد‘ شام کے دورے پر گیا تو ان کے دورے کا ایک دن‘ پارلیمنٹ کا اجلاس دکھانے کے لئے رکھا گیا۔ مختلف اراکین کی تقریروں کے بعد‘ صدر بشارا لاسد کا خطاب شروع ہوا۔ اس کے ہر دوسرے جملے پر زورزورسے تالیاں بجائی جاتیں۔ وفد کے ایک رکن نے عربی سے نا بلد ہونے کی بنا پر تالی نہیں بجائی۔ اس کے ایک ساتھی نے کہنی مارتے ہوئے کہا ''بے وقوف تالی بجائو ‘ورنہ مر جائو گے‘‘۔ وفد کے دوسرے رکن نے جواب دیا کہ'' مجھے عربی کی سمجھ ہی نہیں آرہی‘ تالی کیسے بجائوں؟‘‘۔ساتھی نے جواب دیا'' سمجھ آئے نہ آئے‘ تالی ضرور بجائو۔ حاکمِ وقت یا اس کے کارندوں نے اگر دیکھ لیا کہ ہال کے اندر بیٹھے ہوئے ایک شخص نے تالی نہیں بجائی تو پھر یاد رکھو‘ تمہارا وطن واپس جانا یقینی نہیں رہے گا‘‘۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ تالی نہ بجانے والا پاکستانی وفد کا رکن‘ مخدوم جاوید ہاشمی تھا۔
لبیا کے صدر کرنل قذافی کا بھی اپنے ملک پر زبردست کنٹرول تھا۔میں نے اسے پہلی بار اس وقت دیکھا جب اس نے تھوڑا عرصہ پہلے ہی اقتدار سنبھالا تھا۔ وہ فوجی و ردی میں ملبوس تھا۔چاق و چوبند نوجوا ن ہونے کے ساتھ‘ انتہائی جوشیلا مقرر بھی۔ میںنے اس کی دو تقریریں سنیں۔ ایک پنجاب اسمبلی میںاسلامک کانفرنس کے موقع پر اور دوسری لاہور کے سٹیڈیم میں‘ جہاں بھٹو صاحب نے‘ ان کے استقبال میں تقریر کی اور سٹیڈیم کا نام ‘ا پنے مہمان کے نام پر '' قذافی سٹیڈیم ‘‘ رکھ دیا۔ قذافی نے عربی میں تقریرکی‘ جس کی سمجھ تو کسی کو نہیں آئی لیکن تالیاں بار بار بجتی رہیں۔
90ء کے عشرے میں مجھے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ لبیا جانے کا موقع ملا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار‘ آمریت کا مشاہدہ کیا۔ طرابلس کے جس ہوٹل میں ہمیں ٹھہرایا گیا تھا‘ وہ پورے کا پورا خالی تھا۔ہوٹل میں سٹاف موجود تھا۔ تمام سروسز مہیا تھیں۔ طرح طرح کے نان الکُحلک‘ مشروبات دستیاب تھے۔ سوائے سرکاری اہلکاروں کے ‘ہوٹل میں کوئی عام شہری داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ہمیں البتہ آنے جانے کی آزادی تھی۔ میں نے اس آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر کا رخ کیا اور بازاروں کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ دکانیں آدھی سے زیادہ خالی تھیں۔ صرف روزمرہ اشیائے ضرورت کے سوا کوئی چیز دستیاب نہ تھی۔ چند ہی لمحوں میں بیزار ہو کر‘ میں واپس ہوٹل آگیا۔ عام شہریوں کی زندگی کا یہ واحد مشاہدہ تھا۔ لوگ مجھے ایک اجنبی سمجھ کر‘ ان دیکھے خوف سے ادھر ادھر دیکھنے لگتے۔ کسی کو مجھ سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں تھی۔اس کے بعد ہم ‘بِن غازی گئے۔ سڑکیں دونوں طرف سے خالی تھیں۔ جس ہوٹل میں ہمارے قیام کا بندوبست کیا گیا تھا‘ وہ انتہائی شاندار اور سیون سٹار کے معیار کا ہوٹل تھا۔ تمام سروسز مہیا تھیں لیکن وہاں بھی سوائے بیروں اور دیگر ملازمین کے دوسرا کوئی شخص نظر نہیں آیا۔وزیراعظم اپنے دوتین ساتھیوں کے ہمراہ‘ کاروں کے قافلے میں‘ صدر قذافی سے ملاقات کے لئے روانہ ہو گئے۔ قذافی نے صحرا میں شاہی خیمہ لگا رکھا تھا۔ جب سے اس کے گھر پر بمباری ہوئی تھی‘ اس نے پختہ گھروں میں رہنا بند کر دیا تھا۔ صحرائوں میں مختلف مقامات پر خیمہ لگا کے قیام کیا کرتا۔ یہ اس کے حفاظتی انتظامات کا حصہ تھا۔ اتنی احتیاط کے باوجود‘ جب و قت آیا تو شہریوں نے اسے گلیوں میں بھگا بھگا کے مارا۔ بڑا ہی درد ناک منظر تھا‘ جو سی این این نے بار بار ٹی وی پر دکھایا۔
آج بھی شرق اوسط کی طاقتور حکومتیں‘ اندر سے کھوکھلی ہیں۔ وہاں کی حکمرانی کا ڈھانچہ‘ کسی بھی وقت بکھر سکتا ہے۔ دنیا کی کم و بیش تمام بڑی طاقتوں نے‘ داعش سے بدلہ لینے کی آڑ میں‘ پورے شرق اوسط پر تباہی نازل کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔با خبر لوگ بہت دنوں سے لکھ رہے تھے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرانے والی ہے اور پورا شرق اوسط‘ بیرونی طاقتوں کے زیر قبضہ آنے والا ہے۔ یہ کیسے ہو گا؟ اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے ۔ جیسا میں نے عرض کیا کہ ساری حکومتیں منہدم ہونے سے پہلے‘انتہائی مستحکم دکھائی دیتی تھیں ۔ پھر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بغداد اجڑا۔ صدام پھانسی لگا۔ آج پورا عراق خانہ جنگی میں مبتلا ہے۔ شام کھنڈرات میں بدل گیا ہے اور معلوم نہیں کہ اس پر مزید کب تک بم برستے رہیں گے؟ لبیا مسلسل خانہ جنگی کا شکار ہے۔ مضبوط ترین حکمران‘ قذافی کا انجام میں بتا چکا ہوں۔ یمن میں عشروں سے جنگ جاری ہے۔ بحرین خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ خطے کی مالدار اور مضبوط ترین حکومت کے طویل دور کا آخری حصہ آچکا ہے۔ کسی بھی وقت وہاں کا مضبوط حکومتی ڈھانچہ بکھر سکتا ہے۔میرا اندازہ ہے کہ یہ کام‘ نام نہا د داعش کے ہاتھوں لیا جائے گا۔
آج پلٹ کر دیکھنے پر9/11کے واقعات ایک ڈرامہ لگتے ہیں۔دنیا بڑے عرصے تک اسے بہت بڑی ٹریجڈی سمجھتی رہی۔امریکی عوام تو آج بھی یقین رکھتے ہیں کہ یہ القاعدہ کی کارستانی تھی لیکن با خبر افراد اور حلقے اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ 
القاعدہ اور اسامہ بن لادن‘ا مریکہ کی تخلیق کردہ کہانی اور کردار تھے۔ یہ واردات امریکی حکمرانوں کا سوچا اور رچایا گیا ڈرامہ تھا۔ جب افغانستان اور عراق کی تباہی کا مقصد پورا ہو گیا تو اسامہ بن لادن کے کردار کی بھی ضرورت نہ رہی اور جہاں اسے محفوظ رکھا گیا تھا‘ خود امریکی ہی‘ ڈرامائی انداز میں اسے ہلاک کر کے‘ لاش اٹھا لے گئے۔ پاکستان کے جو کردار‘ اسامہ کی موت کا راز جانتے ہیں‘ ان میں سے کوئی کبھی نہ کبھی‘ حقیقی واقعات ضرور بیان کرے گا۔ قدرتی دولت سے مالا مال مسلم دنیا‘ جو عرب ملکوں‘ ایران‘ افغانستان اور پاکستان پر مشتمل ہے‘ ایک ہی خطے میں واقع ہے۔ ان سارے مسلم ملکوں کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ترکی بے شک یورپ میں واقع ہے لیکن وہ بھی اسی جغرافیائی خطے سے ملحق ہے۔ شمال کی طرف شرق اوسط کی ریاستیں واقع ہیں اور جغرافیائی طور پر دیگر مسلمان ملکوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان میں ہر ملک کسی نہ کسی دولت اور اہمیت کا مالک ہے۔ تیل کے ذخیرے یہاں موجود ہیں۔ پیتل‘ سونا‘ چاندی‘ لوہا‘ معدنیات‘جواہرات اور خلائی سیاروں میں استعمال ہونے والی دھات کے ذخیرے‘ ہر قیمتی اور کمیاب شے ان ملکوں میں دستیاب ہے۔ مغربی طاقتوں کی نظریں‘ اس پورے خطے پر گڑی ہیں اور انہوں نے ایک مشترکہ انسانی مسئلہ کھڑا کر کے‘ خطے پر یلغار کا بہانہ پیدا کر لیا ہے۔ یہ بہانہ پیدا کرنے کی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے داعش نامی تنظیم منظم کی گئی۔ ا س کا جغرافیائی وجود‘ وسائل‘ بہانہ اور سرمایہ‘ ان ساری طاقتوں کے در پردہ تعاون سے معرض وجود میں لایا گیا۔ ان میں کچھ طاقتیں سامنے آچکی ہیں اور کچھ مزید عرصے میں آجائیں گی۔خطے کی تباہی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ روس‘ امریکہ اور فرانس عملاً جنگ کا آغاز کر چکے ہیں۔ چند روز پہلے برطانوی پارلیمنٹ بھی بمباری کا فیصلہ کر چکی ہے۔نیٹو کے کم و بیش سارے ممالک‘ اس جنگ میں باری باری کودتے رہیں گے اور مسلم دنیا‘ بتدریج عیسائی طاقتوں کی جارحیت کا نشانہ بنتی رہے گی۔پاکستانی جمہوریت میں تیزی کے ساتھ آمرانہ رجحانات بڑھتے جا رہے ہیں۔امورِ مملکت میں عوام کا حصہ تیزی کے ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے اور اقتدار کا مرکز‘ سمٹتے ہوئے چند گھرانوں اور اداروں تک محدود ہو گیا ہے۔ جو طرزِ حکمرانی معرض وجود میں آرہا ہے‘ اس میں عوام کا کوئی کردار نہیں رہے گا۔ میں نہیں جانتا ‘ پاکستان پر جارحیت کا کیا بہانہ تلاش کیا جائے گا؟ لیکن جو طرزِ حکومت مسلط کیا جا رہا ہے‘ اس 
کے تحت‘ حکمران طبقوں کو بچانے میں‘ عوام کی کوئی دلچسپی باقی نہیں رہے گی۔ ایسے ہی ملک ہوتے ہیں جہاں بیرونی جارحیت آسانی سے کامیاب ہو جاتی ہے۔داعش کی آڑ میں شرق اوسط کے علاوہ پاکستان اور افغانستان پر بھی نظریں گڑی ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے خیر و عافیت کی دعا مانگنا چاہئے ورنہ پاکستان کا حکومتی ڈھانچہ‘ عوام سے الگ تھلگ ہو کر کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ اس سے عوام کی لاتعلقی بڑھتی جا رہی ہے۔یہی مواقع ایسے ہوتے ہیں جب بیرونی طاقتیں‘ حکومتوں کو گرا کر‘ اپنے مفادات حاصل کرنے کی مشینری کھڑی کرتی ہیں۔ حال میں ایک پاکستانی نژاد لڑکی اور امریکی نژاد پاکستانی نے امریکہ میں دہشت گردی کی جو واردات کی‘ اس کی کڑیاں ‘پاکستان سے ملانے کی ابتدا ہو چکی ہے۔ یہ کہانی کس طرف کو جائے گی؟ اس کے بارے میں کیسی بھی قیاس آرائیاں کی جائیں‘ ہدف ایک ہی نظر آئے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved