تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     06-12-2015

چلتی پھرتی کتاب

ملک محمد اسلم مرحوم نے اس دنیا میں کم و بیش پچانوے برس گزارے۔قمری کیلنڈر کے مطابق وہ پورے سو سال کے ہو چکے تھے۔ گویا ایک طویل اننگ کھیل کر ''آئوٹ‘‘ ہوئے ہیں اور اس بستی میں جا بسے ہیں، جس میں جلد یا بدیر ہم سب کو جانا ہے۔ ملک صاحب کی یاد میں تعزیتی اجتماع کا اہتمام کیا گیا تو اس میں سینکڑوں افرادگھنٹوں بیٹھے رہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق، سابق امیر سید منور حسن اور تنظیم اسلامی کے امیر حافظ عاکف سعید سمیت ان کے کئی رفیقوں اور نیازمندوں نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ ممتاز دانشور اور ایڈیٹر عطاء الرحمن نے ایک ایسی بات کہی کہ جس میں اضافہ ممکن نہیں۔ ان کی بھی ایک عمر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی صحبت سے فیض اٹھاتے گزری ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جب مولانا مرحوم نے تفہیم القرآن مکمل کی تو اس کی شاندارتقریب پذیرائی ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی تھی۔ اس میں پاکستان کے نامور قانون دان اے کے بروہی خاص طور پر شریک ہوئے تھے۔ انہوں نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا مودودی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اعلیٰ پائے کی کتب کے ساتھ ساتھ ایسے کارکن بھی تیار کئے ہیں کہ جوان کتابوں کی عملی تفسیر ہیں۔ یہ چلتی پھرتی کتابیں ان کے نظریات کی تصویریں ہیں اور ان تصنیفات نے مولانا مرحوم کو اپنے ہم عصروں میں ممتاز تر کر دیا ہے۔ عطاء الرحمن صاحب کا کہنا تھا کہ ملک محمد اسلم بھی مولانا کے ان حلقہ بگوشوں میں تھے، جنہیں ان کی ایک چلتی پھرتی کتاب کہا جا سکتا تھا۔ ملک محمد اسلم کی اس سے بہتر تعریف (یاتعارف) ممکن نہیں۔ان کا شمار جماعت کے جیّد کارکنوں میں ہوتا تھا۔انہوں نے اپنی جوانی اس میں کھپائی اور بڑھاپے میں بھی جوانوں کی طرح متحرک اور سرگرم رہے۔ انہوں نے اور ان جیسے مٹھی بھر لوگوں نے اپنے کردار کی طاقت سے جماعت اسلامی کی ہیبت پورے ہندوستان پر بٹھا دی تھی۔اختلاف کرنے والے بھی ان کے اخلاص اور کردار کا انکار نہیں کر پاتے تھے۔ ان کے قول کو ان کے فعل سے الگ نہیں کیا جا سکتا تھا۔وہ جو کہتے تھے، وہ کر دکھاتے تھے، اور جو کرتے تھے، اس پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی تھی۔
کسی بھی نظریاتی جماعت کا سب سے بڑا اثاثہ اس کے وہ کارکن ہوتے ہیں جو اس کی دعوت کی دلیل بن جاتے ہیں۔ یہ ان کی اخلاقی طاقت ہی ہے جو ہر طاقت کو شکست دیتی چلی جاتی اور راستہ ہموارکرتی جاتی ہے۔ بے سروسامانی ان کو تھکاتی نہیں، بلکہ آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے کہ بعض اوقات سازوسامان سے لدے لوگ چند قدم ہی پر ہانپ کر رہ جاتے ہیں۔ اپنے ساز و سامان کی فکر پڑجائے تو پھر زبانیں تو قینچی کی طرح چلائی جا سکتی ہیں، قدم دیوانہ وار نہیں بڑھائے جا سکتے۔
ملک صاحب کے بھتیجے اور داماد ملک محمد اکرم کا کہنا تھا کہ مرحوم عنفوانِ شباب ہی میں حاضر و موجود سے بیزار تھے۔ ان کے اندر کا انقلابی انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔وہ اپنے ماحول سے غیر مطمئن تھے، اسے تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لئے راستے کی تلاش میں لگے ہوئے تھے کہ قادیانی جماعت کا تذکرہ ان تک پہنچا۔ وہ گورداسپور کے رہنے والے تھے اور یہی مرزا غلام احمد کا ضلع تھا۔ ان کی تحریک کئی جوانوں کو اپنی طرف متوجہ کر چکی تھی، نوجوان محمد اسلم بھی گھر سے قادیان جانے کا قصد کرکے نکلے لیکن راستے میں جماعت اسلامی کے ایک کارکن سے ملاقات ہوگئی۔ تبادلۂ خیال شروع ہوا، سید مودودی کے نام سے کان آشنا ہوئے۔ ان کے ملاقاتی نے انہیں جماعت کے اجتماع میں شرکت کی دعوت دی، کرنا خدا کا یہ ہوا کہ بات دل میں بیٹھ گئی۔ قادیان جانے والے قدم اس اجتماع کی طرف مڑ گئے، وہاں پہنچے تو یوں لگا کہ یہی وہ کارواں ہے، جس کی انہیں تلاش تھی۔ سید مودودی کو دل دے بیٹھے، وہ دن جائے اور آج کا آئے، پھر کوئی اور نگاہ میں جچا ہی نہیں۔ جماعت اسلامی کے ساتھ اس طرح وابستہ ہوئے کہ ایک مثال بن گئے۔
ملک محمد اسلم منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا تو نہیں ہوئے تھے، لیکن رخصت ہوئے ہیں تو ان کے بیٹوں اور پوتوں میں سے ہر ایک کے منہ میں ماشاء اللہ سونے کا چمچ موجود ہے۔ انہوں نے عملی زندگی کا آغاز ایک معمولی ملازمت سے کیا تھا،لیکن جب یہ دیکھاکہ وہاں دیانتداری سے فرائض ادا کرنا مشکل ہے تو اسے خیرباد کہہ دیا۔ کاروباری دنیا میں قدم رکھا تو پھر آگے ہی بڑھتے گئے۔ ان کا شمار گنپت روڈ کے بڑے تاجروں میں ہونے لگا۔ کاغذ کی دنیا ان کے لئے ٹکسال بن گئی۔خوب پیسہ کمایا، اسے سنبھالا لیکن اس کی پرستش نہیں کی۔ دونوں ہاتھوں کی کمائی کو دونوں ہاتھوں ہی سے اپنے مقاصد کے لئے خرچ کیا۔ اب ان کے تینوں بیٹے... نعیم ملک، خلیل ملک، شاہد اسلم اور ان سب کے بیٹے ،ان کی روایات کی حفاظت کررہے ہیں۔آج جبکہ جماعت اسلامی کا حلقہ اثر بہت وسیع ہوچکا، اس کے وابستگان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی، یہ سوال بڑی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا مولانا مودودی کی چلتی پھرتی کتابوں کے نئے ایڈیشن (مطلوبہ تعداد میں) تیار ہو رہے ہیں؟ کہیں کتب خانوں میں محفوظ کتابوں ہی کو کافی تو نہیں سمجھ لیا گیا!
جماعت اسلامی سات عشروں کا ذائقہ چکھ چکی ہے۔ اس نے سید ابوالاعلیٰ مودودی کے زیر قیادت انتخابی سیاست کا جو راستہ اپنایا تھا، اس پر اب بھی سختی سے کاربند ہے۔ اس کے متاثرین و متعلقین میں سے کئی اسے خیرباد کہہ چکے۔ بعض کے نزدیک ساری جماعت کا عمل ہی مشکوک ٹھہرا ہے۔ ان کے نزدیک غیر جماعتی دعوتی سرگرمی معاشرے پر زیادہ بہتر طور پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ بعض انقلاب کے نعروں میں پھنس کر رہ گئے، ان میں سے کئی ایک نے پرائیویٹ جتھوں سے امیدیں لگا لیں۔ خفیہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے والوں سے بھی توقعات قائم کی جانے لگیں، لیکن آئین اور قانون کے دائرے میں کام کرنے والوں نے اپنے آپ کو غیر موثر نہیں ہونے دیا۔سید منور حسن نے امیر جماعت کے طور پر ذومعنی گفتگو کی تو انہیں عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت کی تاریخ میں پہلی بار منصب پر فائز امیر دوبارہ منتخب نہیں ہوپائے۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ جماعت کے ارکان کسی طور آئینی (اور انتخابی) سیاست کو ترک کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس میدان میں بہت بڑی کامیابی نہیں مل سکی اور جماعت اسلامی (خیبرپختونخوا کے علاوہ) کہیں بھی موثر پارلیمانی طاقت کا اظہار کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی، لیکن اس کا بڑاسبب مختلف انتخابات کے موقع پر اختیار کی جانے والی حکمت عملی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ قاضی حسین احمد کے دور میں اس حوالے سے جو کچھ کیا گیا اس کا بہت گہری نظر سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کبھی ایک اتحادبنا تو کبھی دوسرا اور کبھی بائیکاٹ کا فیصلہ ہوگیا۔اس سب نے انتخابی حلقوں کو چھلنی کر دیا۔ انتخابی سیاست نے جماعت کے کارکنوں پر تو اثرات مرتب کر دیئے ہیں، لیکن انتخابات کو متاثر کرنے کی صلاحیت اب بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved