تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-12-2015

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی

بھرتری ہری کا قول اقبالؔ کو اتنا عزیز تھا کہ اسے اپنے کلام کا سرنامہ کیا۔ ؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
''اقدار، مساوات اور انصاف کے اصول ابدی ہیں۔ کیلنڈر کے ساتھ وہ بدل نہیں جاتے‘‘ یہ امریکی ناول نگار، شاعر، ڈرامہ نگار، نقاد اور مصور ڈی ایچ لارنس نے کہا تھا۔ کیا یہ قول آبِ زر سے لکھنے کے قابل نہیں ہے؟ بلکہ سرکارؐ کا فرمان: وہ قومیں برباد ہو گئیں، جو اپنے کمزوروں کو سزا دیتی اور طاقتوروں کو معاف کر دیا کرتی تھیں۔ 
واعظ، خطیب اور دانشور معاشرے کو بدل ڈالنے والا معلّم نہیں ہوتا بلکہ وہ استاد، جس کا قال اس کا حال ہو اور جس کا حال اس کا قال۔ وگرنہ ریاکاری ہے اور منافقت، جس میں کمال شوق سے ہم مبتلا ہیں۔ 
مولانا عبدالعزیز کے خلاف مقدمہ شاید اب چلانا ہی پڑے۔ پانی سر سے گزر چکا۔ چوہدری شجاعت، میاں محمد نواز شریف اور دارالحکومت کے دوسرے بااثر افراد شاید اب انہیں بچا نہ سکیں۔ مولوی صاحب کے مرحوم والد مولانا عبداللہ کو فیلڈ مارشل ایوب خاں نے ڈیرہ غازی خاں سے دریافت کیا تھا۔ سکھوں اور انگریزوں سے نبرد آزما رہنے والے مزاریوں کو اذیت دینے کے لیے۔ ایک کے بعد دوسری حکومت ان سے اغماض برتتی یا ان کی سرپرستی کر تی رہی؛ تاآنکہ لال مسجد کا سانحہ پیش آیا۔
مولوی صاحب اب بھی اتنے طاقتور ہیں کہ آسانی سے معاف نہ کرنے والے چوہدری نثار علی خان بھی تاویل کے پیچھے پناہ لیتے ہیں۔ ایف آئی اے اور پولیس کے اعلیٰ افسر جس آدمی سے خوف زدہ رہتے ہیں اور وزیرِ اعظم جس کے باب میں محتاط رہتا ہے، وہ مذہبی ٹولے پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتا ہے۔ ع
دینِ ملّا فی سبیل اللہ فساد
مولانا عبداللہ مرحوم کے زمانے ہی میں یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ ریاست کے اندر ریاست وجود میں آ چکی۔ 2007ء میں آخرکار فوج کو حرکت میں لانا پڑا، جب ایک کرنل کو شہید کر دیا گیا۔ یہ کارروائی مگر اس قدر تاخیر سے اور اس قدر بھدّے انداز میں ہوئی کہ فائدے سے زیادہ نقصان ہوا۔ پرلے درجے کے بے حس شوکت عزیز ملک کے وزیرِ اعظم تھے۔ آخری وقت پر ان سے مداخلت کی درخواست کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ مصروف ہیں ''میں قلفی کھانے جا رہا ہوں‘‘۔ آخری قلفی کھا کر وہ سمندر پار چلے گئے۔ 
پانی بند کر دیا جاتا، بجلی بند کی جاتی، سوئی گیس کا کنکشن کاٹا جاتا۔ دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک فوج ڈاکٹر سڈل اور طارق کھوسہ ایسے ماہرین سے مدد لیتی تو زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں غیر ضروری خون خرابے کے بغیر ملبہ اٹھا دیا جاتا۔ قدرت کا مگر اپنا ایک نظام ہے۔ فوجی حکمران اور اس کے ساتھیوں کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ 
2009ء میں چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات ہوئی تو پوچھا: چوہدری صاحب کیا ہوا تھا؟ بے ساختہ وہ رو پڑے اور روتے رہے۔ ظاہر ہے کہ ملال ہوا لیکن پھر ایک جہاندیدہ آدمی نے یہ کہا: اگر اس روز استعفیٰ دے دیا ہوتا تو آج اس قدر دکھی نہ ہوتے۔ اب یہ عمر بھر کا روگ ہے۔ 
پنجابی کا محاورہ یہ ہے: اتنے کڑوے نہ ہو جائو کہ تھوک ڈالے جائو، اتنے میٹھے بھی نہیں کہ نگل لیے جائو۔ نمو پذیر زندگی کی بنا اعتدال پہ استوار ہوتی ہے۔ انصاف نہ ہو تو ظلم ہوتا ہے۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ عدل کرو، خواہ دشمن سے واسطہ ہو... اور تقویٰ اسی کا نام ہے۔ 
پستی کی کوئی حد ہے کہ آج پیرس، لندن اور نیویارک میں انصاف کی امید کی جا سکتی ہے، ریاض، اسلام آباد اور قاہرہ میں نہیں۔ ؎؎
بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے 
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے 
سامنے کی بات یہ ہے کہ قانون کا خوف اگر باقی نہ رہے تو جرم پھلتا پھولتا ہے۔ وحشت پھوٹتی اور پھیلتی ہے، جس طرح برسات میں سبزہ۔ دانا کاشتکار فصل برداشت کرنے کے بعد جھاڑ جھنکاڑ کو نذرِ آتش کر دیتا ہے۔ فالتو اور فضول چیزوں کو کھیت میں برداشت کیا جائے تو کھرے سے کھرا بیج بھی بار نہ پا سکے۔ 
آٹھ برس ہوتے ہیں، مولانا عبدالعزیز سے مفصل ملاقات ہوئی۔ ان کے مرحوم بھائی عبدالرشید غازی کے اصرار پر۔ ای سیون میں سرکاری اراضی پر تعمیر کردہ مدرسے میں۔ ان کے رفیق ہمراہ تھے اور یہ ایک طویل نشست تھی۔ جو کچھ انہوں نے ارشاد کیا، اس کا خلاصہ یہ تھا: شہر میں بے حیائی بہت بڑھ گئی، اس کا تدارک کیسے ہو؟ عرض کیا: آپ کا نہیں، یہ ریاست کا کام ہے۔ یہ بھی کہ ریاست کے اندر قائم ہونے والی ریاست تادیر باقی نہیں رہتی۔ آخرکار اسے مٹنا ہوتا ہے یا ریاست کو۔ پوچھا: کیا عمارت حکومت کی اجازت سے تعمیر ہوئی ہے۔ فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے توسط سے نواحِ شہر میں ایک سو ایکڑ زمین کی جو پیشکش ہوئی ہے، وہ قبول کر لیجیے۔ آپ کا کام درس و تدریس ہے، سرکار کا کام سرکار کو کرنے دیجیے۔ وہ کیسے مان لیتے۔ 
منشیات کی خصوصیت یہ ہے کہ آدمی ان کا قیدی ہو جاتا ہے۔ سب سے خطرناک نشہ اقتدار کا ہوتا ہے۔ فریبِ نفس میں مبتلا ہو جانے والے، وجاہت طلبی کے آرزومند کو پتہ ہی نہیں چلتا اور اقتدار کی آرزو دل میں گھر بنا لیتی ہے۔ ؎
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے 
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں
ایک ایسے شخص کے بارے میں، جسے حیرت انگیز منتظم کہا جاتا تھا، اس کے رفیقِ کار سے پوچھا: ان کا اندازِ فکر و عمل کیا تھا؟ کہا: وہ سستی گوارا کرتے لیکن خرمستی نہیں۔ اپنے حریف سے وہ ایک قدم آگے رہتے اور ان کی میز پر کبھی کوئی کاغذ نہ ہوتا۔ اپنا کام وہ وقت سے پہلے نمٹا دیتے اور اس کا بڑا حصہ غور و فکر میں صرف کرتے۔ عالی مرتبتؐ کا ارشاد یہ ہے: زندگی ایک سواری ہے۔ اس پر سوار ہو جائو، اس سے قبل کہ وہ تم پر سوار ہو جائے۔ 
لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں، جو شاید اپنی نوعیت کا سب سے قدیم اور معتبر ادارہ ہے، جنرل راحیل شریف نے کہا تھا: پاکستان پر ہم داعش کا سایہ بھی پڑنے نہیں دیں گے۔ وزیرِ اعظم کو پاکستانی نژاد امریکی خاتون کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی اطلاع دی گئی۔ اسی لندن میں پرسوں میاں شہباز شریف نے ایک عدد پریس کانفرنس منعقد کی۔ اعلان کیا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے لیے اب کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتا۔ کون کہتا ہے کہ پاکستان پر داعش کا سایہ نہیں پڑا۔ بجا کہ اس کا تنظیمی ڈھانچہ ابھی استوار نہیں ہو سکا‘ مگر پسپا طالبان سے وابستہ اور وابستگی کے آرزومند داعش کی طرف متوجہ ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں مولانا عبدالعزیز ہیں۔ ایک سرکاری مسجد کے خطیب۔ بھرے مجمعے میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ داعش کے حامی ہیں۔ کون کہتا ہے کہ پاکستان میں طالبان کا ہمدرد اب کوئی نہیں۔ ایک نہیں، ہزاروں ہیں۔ شمالی وزیرستان آپریشن کی مخالفت کرنے والوں کی اکثریت طالبان کی ہمدرد ہے۔ مولوی عبدالعزیز اور ان کے ہم نفس ان کے حامی ہیں۔ سوشل میڈیا پر دہشت گردوں کی علی الاعلان حمایت کرنے والے موجود ہیں۔ 
کب تک قوم کو تقاریر اور بیانات سے لبھایا جائے گا؟ بلوچستان، کراچی اور وزیرستان میں دہشت گردوں کے قدم اگر اکھڑے ہیں تو پوری منصوبہ بندی اور پورے عزم کے ساتھ کیے گئے اقدامات سے۔ 55 ہزار شہریوں اور 5 ہزار سے زیادہ جوانوں اور افسروں کی شہادت کے بعد۔ کیا جنوبی پنجاب اور اسلام آباد کے اعلانیہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے مزید ڈیڑھ عشرہ انتظار کرنا ہو گا؟ 
جن کے منہ کو خون لگ چکا۔ جن کا تجربہ یہ ہے کہ کیسے بھی سنگین جرم کا وہ ارتکاب کریں، وہ بچ نکلیں گے، ریاست کو ان کا زعم ختم کرنا ہو گا۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے۔ چوہدری شجاعت حسین کے آنسوئوں سے نہیں، یہ آگ عدل کی بارش سے بجھے گی۔ ایک ٹانکے کی جگہ اب سو ٹانکے لگانا ہوں گے۔ اب بھی نہیں تو کبھی نہیں۔ اٹھو وگرنہیں حشر نہیں ہو گا پھر کبھی۔ پائوں کے نیچے زمین ہی نہ ہو گی تو قانون کہاں نافذ ہو گا؟
بھرتری ہری کا قول اقبالؔ کو اتنا عزیز تھا کہ اسے اپنے کلام کا سرنامہ کیا۔ ؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved