تحریر : انجم نیاز تاریخ اشاعت     06-12-2015

زندگی کا غیر یقینی سفر

جاوید مسعود کے انتقال کی افسوسناک خبر سے ہمارے تصور کے پردے پر یادوں کا ایک سلسلہ رواں ہو گیا ہے۔ وہ ان دنوں اپنی بیٹی سے ملنے واشنگٹن آئے ہوئے تھے۔ نیو جرسی سے ہم انہیں جب بھی کال کرتے، انہیں بڑی خوشی ہوتی۔ اب وقت بیت چکا، وہ ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ان کا جسدِ خاکی تدفین کے لیے اسلام آباد لے جایا گیا تھا۔ بہت عرصہ پہلے، ساٹھ کی دہائی میں جاوید مسعود، جنہیں ہم جے ایم پکارا کرتے تھے، جہلم کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ ہمارا گھر بھی جہلم میں تھا۔ منگلا جانا ہماری ہفتہ وار عیاشی ہوتی تھی۔ منگلا ہمارے لیے چھوٹا سا امریکہ تھا‘ جہاں مزے کی ہر شے دستیاب تھی۔ بائولنگ ایلی وہاں موجود تھی، پیزا وہاں دستیاب تھا، ایک اچھا ریستوران بھی وہاں تھا، ایک سینما بھی‘ جہاں ہر ہفتے نئی نئی امریکی فلمیں لگا کرتی تھیں۔ ایک اطالوی اور امریکی کمپنی نے‘ جو منگلا ڈیم بنا رہی تھی، اپنے سٹا ف کے لیے یہ کمپلیکس تعمیر کروایا تھا۔ زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی۔ جوانی اور بے پروائی کی اس عمر میں ہم بے حد خوش تھے۔ 
بڑھاپا ایک حقیقت ہے، یہ چپکے سے چھا جاتا ہے اور پھر جلد ہی دنیا سے انسان کے کوچ کا وقت آن پہنچتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ موت کے لیے مناسب ترین عمر کیا ہونی چاہیے؟ آپ میں سے بعض شاید سوچ رہے ہوں کہ یہ ایک بے ہودہ مذاق ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ بلیک کامیڈی نہیں جس میں تباہیوں اور موت کی ڈرائونی اور ناخوشگوار عکاسی کی گئی ہوتی ہے۔ یہ زندگی کی ایک ایسی سادہ حقیقت ہے جسے ہم میں سے اکثر نظر انداز کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں، لیکن انسان بہرحال فانی ہے۔ چلیں اب مذکورہ سوال پر غور کریں۔ ایک صاحب کے خیال میں اس دنیا سے کوچ کرنے کے 
لیے پچھتر سال بہترین عمر ہے۔ ان کا نام ڈاکٹر زیک عمانویل ہے اور وہ امریکہ میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں کلینیکل بائیوایتھکس کے شعبے کے ڈائریکٹر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک خاص عمر کے بعد موت کو قابلِ ترجیح اس لیے ٹھہرا رہے ہیں کہ بقول ان کے بڑھاپا ہم میں سے بہتوں کو اگر بالکل معذور نہیں بھی بناتا تو اتنا کمزور اور زوال پذیر ضرور کر دیتا ہے کہ ہم موت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور نہ بھی ہوں‘ لیکن بہت سی محرومیوں کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر کا خیال شاید یہ ہو کہ ڈاکٹر صاحب موصوف یونہی بے پر کی اڑا رہے ہیں، لیکن بڑھاپے کے بارے میں وہ جو کہتے ہیں اسے غور سے سنیے: ''بڑھاپا ہمیں اپنے کام، اپنے معاشرے اور دنیا میں کوئی مثبت اضافہ کرنے کی قابلیت اور تخلیقی صلاحیتوں سے محروم کر دیتا ہے۔ یہ ہمارے ساتھ لوگوں کے تجربات اور تعلقات کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ لوگوں کے ذہن و دل میں ہماری یادوں کی نوعیت تک بدل جاتی ہے۔ ہمیں زندگی سے بھرپور متحرک افراد کے بجائے کمزور، غیر مؤثر حتیٰ کہ قابلِ افسوس لوگوں کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے‘‘۔ ہم ڈاکٹر زیک کو ڈاکٹر ڈیتھ کہتے ہیں۔ ان جیسے خیالات رکھنے والے لوگ امریکہ میں بہت تھوڑے ہیں۔ زیادہ تر امریکی مرنا نہیں بلکہ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ ہم ہر روز پڑھتے ہیں کہ کس طرح حسن و صحت کے شعبے میں نئی نئی ترقی ہو رہی ہے۔ یہاں امریکہ میں امیر لوگ نہ صرف متحرک زندگی گزارنا چاہتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمیشہ جوان اور تازہ دم دکھائی دیں۔ اگلے سال نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے امیدواروں کو ہی دیکھ لیجیے۔ اگر ہلیری کلنٹن صدر منتخب ہوئیں تو اپنے انتخاب کے وقت ان کی عمر ستر برس ہو گی اور جس وقت وہ اپنی صدارتی میعاد مکمل کر کے اوول آفس سے رخصت ہوں گی‘ تو چوہتر برس کی ہو چکی ہوں گی۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں ان کے حریف برنی سینڈرز پہلے ہی چوہتر برس کے ہیں۔ اب آپ خود حساب کر کے دیکھ لیں کہ دنیا کے طاقت ور ترین ملک کے صدر کی حیثیت میں جب وہ اپنی میعاد مکمل کر چکے ہوں گے تو ان کی عمر کیا ہو گی۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا ذکر کیا جائے تو بالوں کا عجیب انداز رکھنے والے یہ صاحب بھی ستر برس کے ہو چکے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کے ووٹروں میں وہ بے حد مقبول ہیں۔ اپنے مداحوں کو محظوظ کرنے اور ہر جگہ مرکز توجہ بنے رہنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ 
ڈاکٹر زیک نے حال ہی میں ایک اور مشورہ بھی دیا ہے‘ جو بقول ان کے نہایت چونکا دینے والا اور بظاہر خلافِ عقل ہے۔ ان کی تازہ ترین تحقیق یہ ہے کہ اگر آپ کو دل کا دورہ پڑا ہے تو امریکہ کے سینئر ترین ماہر قلب سے رجوع نہ کرنا آپ کے بچنے کی ضمانت بن سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر آپ دل کے دورے کی زد میں ہیں تو اپنے علاقے کے معروف ترین کارڈیالوجسٹ کا رخ کبھی نہ کریں کیونکہ اس صورت میں اندیشہ یہی ہو گا کہ آپ بچ نہیں پائیں گے۔ ان کی یہ بات یقیناً چونکا دینے والی اور خلافِ عقل ہے۔ ان کے اس نظریے کا مآخذ JAMA یعنی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کا انٹرنل میڈیسن کے بارے میں شائع ہونے والا جرنل ہے، جس کے ایک مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ دل کے مریضوںکے علاج کے مثبت نتائج سینئر ماہرینِ قلب کی عدم موجودگی کے دوران دیکھنے کو ملے۔ اس مطالعے کے مطابق سینئر کارڈیالوجسٹس بے شک بہتر محققین ہوتے ہیں لیکن جونیئر ڈاکٹرز نے چونکہ تازہ تربیت پائی ہوتی ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ان کی طبی مہارت بہتر ہو۔ دوسرے یہ بھی کہ سینئر ڈاکٹرز دل کے شدید دورے کی صورت میں دل کی شریانوں کو کھولنے کے لیے اندرونی آلات زیادہ استعمال میں لاتے ہیں جو مریض کی ہلاکت کا سبب بن سکتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان میں امراضِ قلب کا کوئی بھی اعلیٰ ترین ماہر JAMA کے ان دعووںکو یکسر مسترد کر دے گا‘ لیکن دس سال کے عرصہ پر محیط اس مطالعے میں ہزاروں مریضوں کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ کسی بھی ریگولر ہسپتال کے مقابلے میں، چاہے وہ کتنا ہی بڑا اور سہولیات سے پُر ہو، ایک ٹیچنگ ہسپتال میں علاج سے مریضوں کے بچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ٹیچنگ ہسپتال میڈیکل کالج کے ساتھ الحاق رکھتا ہے جہاں طلبہ کو عملی تربیت دی جاتی ہے۔ امریکہ میں ٹیچنگ ہسپتال ڈاکٹروںکی نئی کھیپوں کو تربیت دینے کے علاوہ طبی تحقیق اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی آگے ہیں۔ پاکستان میں بھی متعدد ٹیچنگ ہسپتال موجود ہیں اور ان میں سے چند بہت اچھے بھی ہیں۔ ڈاکٹر زیک کا مشورہ یہ ہے کہ آپ جب بھی ایکس رے کرانے یا اندرونی معائنے کے لیے جائیں تو اپنے ڈاکٹر سے چار سوال ضرور پوچھیں۔۔۔۔ پہلا یہ کہ اس معائنے سے فرق کیا پڑے گا؟ کیا اس کے نتائج علاج کے طریقِ کار کو بدل دیں گے؟ دوسرا یہ کہ یہ علاج طوالتِ عمر میں کس حد تک بہتری لا سکتا ہے؟ تیسرا یہ کہ ذیلی اثرات کے امکانات اور شدت کس حد کے ہوں گے؟ اور چوتھا سوال یہ کہ کیا یہ ہسپتال ایک ٹیچنگ ہسپتال ہے؟ عجیب بات یہ ہے کہ بعض ڈاکٹروں سے جب یہ سوالات پوچھے جائیں تو یہ انہیں کافی ناگوار گزرتے ہیں۔ ڈاکٹر زیک کے مطابق کوئی بھی خود پر ایسی نکتہ چینی اور اپنے فیصلوں کے لیے یوں جواز پیش کرنا پسند نہیں کرتا؛ تاہم سوالات تو کرنے چاہئیں، پوری آزادی کے ساتھ اور بغیر کسی تردد کے! صرف ڈاکٹروں سے ہی نہیں بلکہ خود زندگی سے بھی! عقل مند لوگ کہتے آئے ہیں کہ اپنی زندگی کی سننی چاہیے۔ اس کی پراسراریت دیکھیں، جو اکتاہٹیں اور تکالیف اس میں موجود ہیں انہیں بھی دیکھیں، بالکل اسی طرح جیسے آپ اس کی خوشیوں اور مسرتوں کو دیکھتے ہیں۔ اس کے ان دیکھے مرکز کی سمت میں اپنا راستہ اپنی تمام تر حسیات کے ساتھ تلاش کریں کیونکہ زندگی کے سفر میں تمام لمحات اہمیت رکھتے ہیں اور زندگی بذاتِ خود ایک نعمت ہے۔
اسٹیو جابز وہ آدمی تھا جس نے 'ایپل‘ کی ایجادات سے ہماری زندگیوں میں انقلاب بپا کر دیا۔ جس لمحے زندگی اس کا ساتھ چھوڑ رہی تھی، اس نے انگریزی کے یہ دو لفظ تین بار دہرائے: Oh wow. Oh wow. Oh wow!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved